Daily Roshni News

جناب ، آسیب ، ہفراد اور  ماورائی مخلوقات  سے متعلق  خواجہ شمس الدین عظیمی سے کچھ سوال ور جواب

جناب ، آسیب ، ہفراد اور

 ماورائی مخلوقات  سے متعلق

 خواجہ شمس الدین عظیمی سے کچھ سوال ور جواب

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2021

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ جناب ، آسیب ، ہفراد اور ماورائی مخلوقات  سے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی سے کچھ سوال ور جواب)سلسلہ عظیمیہ کے مرشد اور روحانی اسکالر خواجہ شمس الدین شیمی جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق گفتگو……

یہ تحریر روحانی ڈائجسٹ کے سلسلہ روحانی سوال و جواب ، روزنامه جنگ کے کالم روحانی ڈاک، عظیمی صاحب کی کتب اور ماہنامہ آنکھ مچولی خوفناک نمبر میں شائع ہوئے ایک انٹرویو سے اخذ کی گئی ہے۔

سوال :۔ جنات کیا ہیں ؟ ہم انسانی وجود کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ہیں لیکن جنات نظر نہیں آتے ۔ آخریہ جاندار مخلوق نظر کیوں نہیں آتی ؟

جواب : – ہر جسمانی وجود کے اوپر ایک اور جسم ہے۔ اس جسم کو علمائے باطن ہیولی کہتے ہیں۔ اس جسم کے طول و عرض اور جسم میں تمام خدو خال مثلاً ہاتھ ، پیر ، آنکھ، ناک، دماغ سب ہوتا ہے۔

تخلیق کا قانون بتاتا ہے کہ پہلے مرحلے میں روشنیوں سے بنا ہوا جسم تخلیق ہوتا ہے پھر مادی جسم کی تخلیق عمل میں آتی ہے۔ روشنی اور مادی دونوں جسموں میں ٹھوس پن ہوتا ہے۔ انسان کی تخلیق میں بنیادی عنصر مٹی، مادہ ہے یعنی انسان کا مادی وجود زمینی عناصر سے مرکب ہے۔ کائنات کی تخلیق میں بنیادی عنصر …. آگ بھی ہے۔ جنات کی تخلیق آگ سے ہوتی ہے۔ جنات ہمیں اس لئے نظر نہیں آتے کہ ہم مادی عناصر میں محدود رہتے ہیں۔ اگر ہم روشنی کے عناصر یا روشنی کی دنیا سے واقف ہو جائیں تو ہم جنات کو دیکھ سکتے ہیں۔ مادی وجود کی دنیا میں جس طرح انسان کے علاوہ اور بے شمار مخلوقات ہیں اسی طرح جنات کی دنیا میں بھی زمین، آسمان، چاند ، سورج ،ستارے اور وہ تمام مخلوقات موجود ہیں جو ہمیں زمین پر نظر آتی ہیں۔ علمائے باطن فرماتے ہیں کہ : ” جنات دنیا میں اربوں کی تعداد میں ہیں …..

اب یہ سوال کہ جنات نظر کیوں نہیں آتے تو ہم یہ سوال کرنے کی جرات کرتے ہیں کہ انسان کو وائرس کیوں نظر نہیں آتا ؟… بیکٹریا کیوں نظر نہیں آتا ؟ … لیکن اگر کوئی SENSITIVE DEVICE بنالی جائے تو اس سے بیکٹریا یا وائرس کا ادراک ہو جاتا ہے۔ اس ہی طرح اگر انسان روشنی کی دنیا کا علم حاصل کرلے تو لوا وہ جنات کی دنیا کو دیکھ سکتا ہے۔

علم لدنی میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ یہاں ہر چیز مثلث (Triangle) اور دائرہ (Circle) کے تانے بانے میں بنی ہوئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی نوع کے اوپر دائرہ غالب ہے اور کسی نوع کے اوپر مثلث غالب ہے۔ مثلث کا غلبہ ٹائم اسپیس (Time Space) کی تخلیق کرتا ہے اور جس نوع پر دائرہ غالب ہو تا ہے وہ مخلوق لطیف اور ماورائی کہلاتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی ہے اس لئے وہ چاہے تو خود کو مثلث کے دباؤ سے آزاد کر کے دائرہ میں قدم رکھ سکتا ہے۔ جیسے ہی وہ دائرہ کے اندر قدم رکھ دیتا ہے اس کے اوپر جنات کی دنیا اور فرشتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ سوال : – سائنس کو شش کر رہی ہے کہ پتہ لگایا جائے کہ ہمارے سیارے کے علاوہ کسی دوسرے سیارے پر آبادی ہے یا نہیں۔ آپ سے سوال ہے کہ روحانیت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ میں نے ایسے سادھوؤں، جو گیوں اور سنیاسیوں کے متعلق پڑھا ہے جو اپنی روح کو جسم سے جدا کر کے کائنات میں سفر کرتے ہیں۔

کیا اس روحانی سفر کے ذریعہ دوسرے سیاروں کی مخلوقات کو دیکھا جا سکتا۔ ہے ؟ جواب : – باطنی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ستاروں اور سیاروں کا لامتناہی پھیلا ہوا سلسلہ بے آباد، ویران اور خالی نہیں ہے۔ بلکہ ان میں بیشتر سیارے آباد ہیں۔ خالق کا ئنات نے یہ وسیع و عریض کائنات پیدا ہی اس لئے کی ہے کہ مخلوقات اس بات کو جانیں کہ کوئی ان کا خالق ہے اور وہ اس کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ ہمیں جو سیارے نظر آتے ہیں اور جو نگاہوں سے اوجھل ہیں، ان میں سے اکثر پر مخلوقات آباد ہیں۔ البتہ ہر سیارے میں مخلوقات کی حرکات و سکنات اور شکل وصورت کی مقداروں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ بات دلچسپ اور تحیر خیز ہے کہ جس سیارے پر جس نوع کی مخلوق آباد ہے اس سیارے میں ذیلی مخلوق یعنی جمادات، نباتات و غیرہ بھی اسی مخلوق کی طرح تخلیق کی گئی ہیں۔ ہر سیارے میں وقت کی پیمائش اور درجہ بندی بھی الگ الگ ہے۔ اس کی مثال ہم اس طرح دے سکتے ہیں کہ جنات کی نوع میں بھی ولادت کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کے ہاں بھی پیدائش 9 ماہ بعد ہوتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اگر ہم اپنے ماہ و سال سے اس کی پیمائش کریں تو وہ مدت 9 سال بنتی ہے یعنی ہمارا ایک ماہ جنات کے ایک سال کے برابر ہے۔ اسی مناسبت سے ان کی عمریں بھی ہوتی اگر ایک انسان 100 سال کی زندگی پاتا ہے تو اس حساب سے ایک جن کی عمر ہزار بارہ سو سال ہو گی ہیں۔

سوال: کسی پر جنات کا چڑھ جانا، بزرگ کی سواری …. کے بارے میں کچھ وضاحت فرمادیں ….؟

جواب : – “دراصل نورانی لہریں انسانی شخصیت کی تخلیق کا سبب بنتی ہیں۔ اس کا ہر جذبہ، ہر رجحان اور ہر صلاحیت نورانی لہروں کا ایک مکمل پیژن ہے۔ انسانی زندگی انہی ماورائی لہروں کے زیر اثر ہوتی ہے اور اسی سے اس کی سوچ بنتی ہے اور ارادہ سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے سوچ محدود خول میں قید ہو جائے تو یہ کیفیت نورانی

لہروں کے نظام پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اور یہ لہریں اس شخصی پیٹرن پر اثر انداز ہوتی ہیں جس کے نتیجےمیں بعض جسم مثالی Aura کا کوئی لاشعوری پرت متحرک ہو جاتا ہے۔ جب یہ پریت ظاہر ہوتا ہے تو اس شخص کی آواز اور اندازِ گفتگو بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسی کو اکثر اوقات جنات یا بزرگ کی سواری کہا جاتا ہے۔ ایسا زیادہ تر خواتین کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ دراصل نا آسودہ خواہشات کو دباتے دباتے نورانی لہریں غیر متوازن ہو جاتی ہیں۔

اکثر ایسا غیر شادی شدہ خواتین کے ساتھ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ پرانے زمانے میں جب لڑکیوں کو اس قسم کےدورے پڑتے تھے تو بزرگ فوراً اس کی شادی کر دیا کرتے تھے اور عام طور پر لڑکیاں ٹھیک بھی ہو جاتی تھیں۔

اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نا آسودہ خواہشات کو دبانے کے سبب ایسا ہوتا ہے جو کہ دماغی و ذہنی امراض کےزمرے میں آتا ہے۔ ایسا مریض ماورائی لوگوں کو دیکھتا اور اسی قسم کی آوازیں سنتا ہے۔ مریض اپنے آپ کوایک عظیم ہستی تصور کرتا ہے۔ اب رہا سوال روحانی بزرگوں کی سواری کا تو یہ اُن کی شان میں سخت گستاخی معلوم ہوتی ہے۔ جن ہستیوں نے اپنی زندگی کو خدمت خلق کے لئے وقف کر دیا، غریبوں کی ہر ممکن امداد کی، مظلوموں کو ظالم کے شکنجے سے آزاد کرایا وہ اپنے وصال کے بعد نعوذ باللہ کسی کو اذیت کیوں پہنچائیں گے ؟….. یہ سوال کہ آخر مریض کسی خاص بزرگ یا جنات کا نام کیوں لیتا ہے؟…. دراصل دورے کی حالت میں جبکہ مریض کا شعور معطل ہو چکا ہوتا ہے اُس وقت اس کے پاس بیٹھے ہوئے دوست احباب و لواحقین اس کے سامنے کسی بزرگ یا جنات کا تذکرہ کرتے ہیں تو مریض کا جسم مثالی اسی نام کو اپنی پہچان بنالیتا ہے اور انہی ناموں اور القابات سے اپنا تعارف کراتا ہے جو اس کے سامنے لئے گئے ہوتے ہیں۔ ایسا عام طور پر پس ماندہ شعوری ، علمی اور ذہنی اعتبار سے بہت کمزور خواتین کے ساتھ دیکھنے میں آتا ہے ۔ اس دورے کی وجہ سے ان کے بعض سر پرستوں کو بھی چڑھاوے، نذرانے اور نقدی و غیرہ ملتی رہتی ہے اسی وجہ سے ایسے کچھ لوگ مریضہ کی شادی بھی نہیں کرتے کہ کہیں نام نہاد بزرگ ناراض ہو کر رخصت نہ ہو جائیں۔ سوال: جناب آپ لوگوں کی رہنمائی کیجیے اور انہیں بتائیے کہ انہیں کس ط طرح علم ہو کہ واقعی و وہ اس مخلوق کے ستائے ہوئے ہیں ؟

جواب: دیکھیں ….! یہ بہت آسان ہے، انسان کبھی نہ کبھی بیمار پڑ جاتا ہے یہ کوئی عجب بات نہیں … انسان جب بیمار ہوتا ہے تو اس کا جسم بیمار ہوتا ہے جبکہ اس کے ذہن کا رویہ بیمار نہیں ہوتا لیکن اگر ذہن بھی بیمار ہو جائے، یعنی وسوسے ستائیں، برے خیالات آئیں تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے …..

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2021

Loading