Daily Roshni News

جنوری سن۔۔۔شاعرہ۔۔۔فرخندہ شمیم

جنوری سن

شاعرہ۔۔۔فرخندہ شمیم

 ہرنیے سال کا تو پہلا پڑاو ہے تو سن

تیرے پہلو سے ابھی گذرا نہیں پوری طرح

ایک یخ بستہ دسمبر

کہ ستم گار تھا جو

خود بھی ٹھٹھرا ہوا رہتا تھا ہماری مانند

آگ کے پاس تھا  لیٹا مگر کوسہ ہی نہ تھا

اس کی قربت میں کسی فیض کا بوسہ ہی نہ تھا

جنوری

تو بھی   توفیق سے عاری ہے دسمبر کی طرح

سال کے پہلے مہینے کا تجھے فخر تو ہے

ہے تجھے کبر کہ آمد پہ تری

پوری دنیا میں جہاں سوز چراغاں ہو گا

تیرے اعزاز میں یخ بستہ ہزاروں آنچل

گرمی_عشق کی تمازت  میں سلگتے ہوں گے

ایک رومان تصور میں مچلتے ہوں گے

پر تجھے یاد ہی کب ہے

تیرے موسم کے سبب

کم لباسی میں ٹھٹھرتے ہوئے اجسام

جو نیلے ہو کر

ایک ان دیکھی پناہ بار میں چھپ جائیں گے

وادیاں برف کی اک آگ تلے دہکیںں گی

آسمانوں پہ کوئی ابر پریشاں ہوں گے

جنوری سن

کہ کبھی تجھ کو بھی جانا ہو گا

تیرے جانے پہ بہاروں کا اشارا ہو گا

کونپلیں، چاند تمنا

سب ہی رنگ بدلیں گے

رنگ موسم کا بھی چپکے سے بدل جائے گا

اور بھولے سے بھی تو یاد نہیں آئے گا

ہاں مگر سال کے اتمام پر اے جان جہاں

تجزیہ جب کہ مصائب کا، دکھوں کا ہو گا

جایزہ لیں گے فلسطین کے غم زادوں کا

خود پہ بیتے ہوئے لمحات گراں باروں کا

تجھ پہ پھر سنگ گراں، صورت دشنام گری

ہوگا الزام کہ یہ سال ہی منحوس رہا

منہ سے پھوٹا نہ کبھی اور ہمہ تن گوش رہا

سو میں کہتی ہوں

مجھے تجھ سے نہیں فیض کوئی

جنوری تجھ سے الگ ہے کوئی تقویم مری

فرخندہ شمیم

Loading