Daily Roshni News

جہانِ الیکٹران، ایک حیرت کدہ!!۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر حفیظ الحسن

جہانِ الیکٹران، ایک حیرت کدہ!!

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر حفیظ الحسن

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ جہانِ الیکٹران، ایک حیرت کدہ!!۔۔۔ تحریر۔۔۔ ڈاکٹر حفیظ الحسن) الیکٹران ایک بنیادی ایٹمی ذرہ ہے۔ یہ کسی اور ذرے میں نہیں ٹوٹتا۔ تصوراتی طور پر اگر الیکٹران ٹوٹے تو یہ ایک فوٹان(روشنی کا بنیادی زرہ)  اور ایک الیکٹران نیوٹرینو(ایک اور بنیادی زرہ)  میں تبدیل ہو گا اور اسکی ہاف لائف 66 ارب ارب ارب سال ہو گی۔ گویا شماریاتی اعتبار سے  کائنات میں موجود آدھے الیکٹرانز کو اس طرح ٹوٹنے میں کائنات کی عمر جو 13.8 ارب سال ہے سے بھی کھربوں کھربوں سال زیادہ لگیں گے یعنی موجودہ کائنات کی عمر سے بھی طویل عرصہ۔

 ہم الیکٹران کو کتنا جانتے ہیں؟

اس  بنیادی ذرے کو  ہم اسکی تین خاصیتوں کے باعث جانتے ہیں

  1. اسکا ماس جو نہایت کم ہے۔ کتنا کم؟ ایک پروٹان سے 1837 گنا کم۔ اس کائنات کی کچھ مستقل اشیاء میں الیکٹران اور پروٹان کے ماس کا تناسب بھی ہے جو کائنات کے بننے سے اب تک اتنا ہی ہے۔ یعنی الیکٹران ازل سے پروٹان سے 1837 گنا کم ماس رکھتا ہے۔
  2. چارج: الیکٹران کا چارج منفی ہے۔

  1. سپِن :(یہ پتو والا اِپن نہیں انگریزی والا سپِن ہے) سپن الیکٹران کا گھماؤ ہے گویا یہ اپنے محور پر سیدھا گھڑی کی سوئی کی سمت گھومتا ہے یا اس سے اُلٹ۔۔ (گو کوانٹم مکینکس میں سپن کا تصور اینگولر مومنٹم کا ہے تاہم سادگی کے لیے اسے رہنے دیجئے)۔

ان تین خاصیتوں سے ہم الیکٹران کو پہچان اور جان سکتے ہیں۔ کیسے؟

دیکھیے کسی شے کا اگر ماس ہو تو اس پر گریویٹی اثر انداز ہوتی ہے۔ گریویٹی دو ماس رکھنے والی اشیا کے بیج ان دیکھی قوت ہے۔ آپ زمین سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ زمین اور آپکے بیچ گریویٹی ہے۔ آپکو چلنے، اٹھنے یا چھلانگ لگانے کے لیے اس قوت کے خلاف توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔  الیکٹران کا بھلے ماس کم سہی پر اس ماس پر بھی گریویٹی اثر انداز ہوتی ہے اور حساس آلات سے ہم اس پر گریویٹی کے اثر کو معلوم کر کے اسکا ماس نکال سکتے ہیں۔

چارج: ایسے ہی دو چارج رکھنے والی اشیا پر ایک اور قوت جسے الیکٹروسٹیٹک فورس کہتے ہیں لگتی ہے۔ اگر ایک الیکٹران کو دوسرے الیکٹران کے قریب لایا جائے تو یہ ایک دوسرے سے مخلتف سمت میں بھاگیں گے اور اگر ایک الیکٹران اور ایک پروٹان کو قریب لایا جائے تو یہ ایک دوسرے کو کھینچیں گے۔ یوں ہم جانتے ہیں کہ الیکٹران کا کتنا چارج ہے۔

سپن: کوئی بھی چارج رکھنے والی شے جب حرکت کرتی ہے تو یہ مقناطسیت پیدا کرتی ہے۔ کسی تابنے کی تار سے کرنٹ گزارا جائے تو اسکی گرد ہلکا سا مقناطیسی حصار بن جاتا یے۔ اگر تانبے کی تاروں کو ایک خاص ترتیب میں لوہے کے گرد لپیٹا جائے اور اس میں سے کرنٹ گزارا جائے تو یہ  ایک خاص طرح کا مقناطیس بن جائئے گا جسے الیکٹرومیگنٹ کہتے ہیں۔ ایک ٹرانسفرامر جو گرمیوں میں آپکے گلی محلوں میں روز پھٹتا ہے یا نیا ٹرانسفارمر جسکا افتتاح کسی بڑی شخصیت کے دستِ مبارک سے ہوتا ہے، میں اسی طرح سے الیکٹرومیگنٹس ہوتے ہیں جن سے بجلی کی وولٹیج کو  کم زیادہ کرتے ہیں۔  خیر الیکٹران کی سپن کا ہمیں اس لیےپتہ ہےکہ الیکٹران ایک چارج کاحامل ذرہ ہے اور جب یہ گھومتا ہے تو مقناطیسیت پیدا کرتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ الیکٹران اپنی ذات میں ایک چھوٹا سا مقناطیس ہے۔ ویسے دھاتوں میں مقناطیسیت الیکٹرانز کی سپن کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ اگر ایک الیکٹران سیدھا گھوم رہا ہو اور اسکے قریب اسکا “بھائی” الیکٹران الٹا تو دونوں  دو چھوٹے مقناطیس ہونگے جو ایک دوسرے سے الٹ ہونگے اور یوں دونوں کی کل ملا کر مقناطیسیت کا اثر ختم ہو جائے گا۔

تاہم اگر کسی مادے یا دھات میں ایک ہی سمت میں  گھومنے والے الیکٹران اکھٹے اور ترتیب میں ہوں تو یہ ان ننھے مقناطیسوں کی کل ملا کر  مقناطیست بڑھ جاتی ہے۔  ایک بڑے مقناطیس میں دراصل الیکٹران کی ایک بڑی تعداد مخلط نہیں بلکہ قطار اندر قطار ایک ہی سمت میں گھوم رہی ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ ایک مقناطیس دراصل بہت سے چھوٹے چھوٹے مقناطیسوں سے ملکر بنتا ہے۔

لیکن الیکٹران کیا واقعہ ذرہ ہے جسکا کوئی سائز ہے؟

ہم کوانٹم ورلڈ میں الیکٹران کو ایک ذرے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں اور موج کے طور پر بھی۔

الیکٹران دراصل چارج کا ایک بادل ہے۔ فزکس کے مشاہور سائنسدان بابا ہائزنبرگ یہ فرما اور بتا گئے تھے کہ کسی مادے یا توانائی کے اتنے چھوٹے سے ذرے کا ہم مشاہدہ کریں تو یہ اپنی جگہ بدل لیتا ہے گویا ہم یقین کے ساتھ یہ نہیں کہ سکتے کہ الیکٹران ایک وقت میں کہاں پر ہے۔

یہ ایٹم کے مرکزے کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور باہر بھی۔

ایسا کیوں؟ کیونکہ الیکٹران کو “دیکھنے”  یہاں مراد ڈیٹیکٹ کرنےکے لیے ہمیں روشنی  کی مدد لینی پڑے گی۔ روشنی جو دراصل خود فوٹانز کی صورت توانائی کے ذرے ہیں جب انہیں الیکٹران میاں کو دیکھنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ الیکٹران سے ٹکرائیں گے جس سے الیکٹران کی جگہ یا اسکا مومنٹم میں بدلاؤ آئے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے سنوکر میں سفید گیند جب دوسری گیندوں سے ٹکرائے تو انکی رفتار یا جگہ بدل دیتی ہے۔

(یہ سب میں آسانی  کے لیے سمجھا رہا ہوں، اصل تصوری پیچیدہ ہے)

سو ہم یہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ الیکٹران ایک وقت میں کہاں پر ہے البتہ ہم اسے یوں دیکھتے ہیں کہ کسی جگہ پر الیکٹران میاں کے ہونے کا امکان دوسری جگہوں کی نسبت زیادہ ہو گا یا کم۔

ویسے ہی جیسے بیگم جب گھر پر ہو تو آپکے گھر پر ہونے کا امکان زیادہ ہو گا(اگر آپکی نئی نئی شادی ہوئی ہے ورنہ یہ امکان کم ہو گا)۔

اسی طرح  جہاں الیکٹران کے ہونے کا امکان زیادہ ہو وہ اسکا گھر یعنی آربیٹل کہلاتا ہے۔

خیر تو اس وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ الیکٹران کا کل سائز کتنا ہے۔ (اسکی دوسری اہم وجوہات بھی ہیں)۔

کیونکہ الیکٹران بیک وقت ذرے اور موج دونوں طرح سے برتاؤ کرتا ہے۔ اگر یہ ایک موج ہے تو ایک ساکت الیکٹران کی ویوولینتھ جسے ڈی بروگلے ویویولینتھ کہہ سکتے ہیں 1.244 نینومیٹر ہو گی۔ نینو میٹر ایک میٹر کے اربوے حصے کا بھی ہزارواں حصہ ہوتا ہے۔ مگر اگر ہم الیکٹران کی رفتار بڑھا دیں تو اسکی موج لگ جاتی ہے میرا مطلب ہے اسکی موج کی ویوولینتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح ہم چھوٹی سے چھوٹی اشیا کو بھی تیز رفتار الیکٹران لز سے بنائی گئی جدید خوردبینوں سے دیکھ سکتے ہیں جنہیں سیکینگ الیکٹران مائیکروسکوپ کہتے ہیں۔

کلاسیکل فزکس میں الیکٹران کا رداس 10 کی طاقت منفی 15 ہے تاہم اگر ہم کوانٹم مکینکس میں دیکھیں تو اسکا رداس اس سے کروڑ گنا کم ہو سکتا ہے۔

اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ کہ کیا الیکٹران کا رداس  محدود ہے؟ یہ اس وقت کی سائنس کا ایک بہت بڑا سوال ہے جس حل کرنے کے لیے دنیا لگی ہے۔

اس گتھی کو سلجھا کر کوانٹم فزکس اور آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو ملا کر فزکس کا ایک کائناتی اور بنیادی نظریہ پیش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ میدان خالی ہے، اگر کسی نے اس پر تحقیق کرنی ہے تو سو بسمہ اللہ ۔

کیا الیکٹران کا متضاد زرہ بھی  ہے؟

الیکٹران کا متضاد ذرہ وہ ذرہ ہے جسکا ماس تو الیکٹران جتنا ہو مگر چارج اس پر مثبت ہو۔

اسے پوزیٹران کہتے ہیں۔ پوزیٹران

کا ماس الیکٹران جتنا تاہم چارج مثبت ہے۔ پوزیٹران کے متعلق پیشنگوئی انگریز  سائنسدان پال ڈیراک نے 1928 میں کی۔

اور اس کے چار سال بعد یعنی 1932 میں ایک اور سائنسدان کارل اینڈریسن نے پوزیٹران کو  تجربات کے ذریعے دریافت کیا اور 1936 کا فزکس کا ںوبل انعام بٹورا۔

 یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پال ڈیراک کو 1933 میں ہائزنبرگ اور شورڈنگر کے ساتھ  فزکس کا نوبل انعام ملا۔

اُمید ہے اس پوسٹ سے آپکو الیکٹران کے متعلق کافی علم  ہوا ہو گا ۔ اگر آپ نے اس پوسٹ سے کچھ نئی سائنس  سیکھی ہے تو میرا پیج لائک، شئیر اور فالو کرنا نہ بھولیں تاکہ ہم علم مزید بانٹ سکیں۔ شکریہ

Dr. Hafeez Ul Hassan

#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن

Loading