Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ۔۔۔(قسط نمبر 1)

جیتی جاگتی زندگی

آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ

(قسط نمبر 1)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔جیتی جاگتی زندگی)زندگی بے شمار رنگوں سے مزین ہے جو کہیں خوبصورت رنگ بکھیرے تو کہیں تلخ حقائق کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے ے کہیں شیریں ہے تو کہیں نمکین، کہیں ہنسی ہے تو کہیں آنسو۔ کہیں دھوپ ہے تو کہیں چھاؤں ، ، کہیں سمندر کے شفاف پانی ہے خواب لگتی ہے ، کبھی سراب لگتی ہے، کبھی خار دار جھاڑیوں تو کبھی شبنم کے قطرے کی مانند لگتی ہے۔ زندگی عذاب مسلسل بھی ہے۔ تو راحت جان بھی ہے، زندگی ہر ہر رنگ میں ہے ، ہر طرف ٹھاٹھیں مار رہی ہے ، کہانی کے صفحات کی طرح بکھری پڑی ہے …. کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ ”استاد تو سخت ہوتے ہیں لیکن زندگی اُستاد سے زیادہ سخت ہوتی ہے، استاد سبق دے کے امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے۔ “ انسان زندگی کے نشیب و فراز سے بڑے بڑے سبق سیکھتا ہے۔ زندگی انسان کی تربیت کا عملی میدان ہے۔ اس میں انسان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیکھتا ہے، کچھ لوگ ٹھو کر کھا کر سیکھتے ہیں اور حادثے ان کے ناصح ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی کھائی ہوئی ٹھوکر سے ہی سیکھ لیتا ہے۔ زندگی کے کسی موڑ پر اسے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان پر دل کھول کہ ہنستا ہے یا شر مندہ دکھائی دیتا ہے۔ یوں زندگی انسان کو مختلف انداز میں اپنے رنگ دکھاتی ہے۔ اب تک زندگی آن گنت کہانیاں تخلیق کر چکی ہیں، ان میں سے کچھ ہم صفحہ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔

کیا ہم بھی سکھ کی زندگی گزاریں گے….؟

اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے شمی آنسوؤں کو آنکھوں کے بند توڑنے سے ار نہ روک سکی۔

 آج سے بائیس سال پیشتر بھی میرا ابا مز دور تھا اور آج بھی وہ مزدور ہی ہے۔ میں نے بچپن میں جس ماحول میں اپنے آپ کو مدغم کر لیا تھا آج وہی ماحول اور وہی فضا مجھے کسی زہر یلے ناگ کی مانند ڈس رہی ہے۔ گھٹے گھٹے ماحول سے نفرت کا احساس مجھے بغاوت پر آمادہ کر رہا ہے۔

بچپن میں بھی میں اچار اور دھنیے کی چٹنی سے باسی روٹی کھایا کرتی تھی اور آج اتنے سال گزرbجانے کے باوجود بھی میں اور میرے دوسرے بہن بھائی اچار اور دھنیے کی چٹنی سے روٹی کھاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی سی تھی تو باسی روٹی کھاتے ہوئے مجھے ہر نوالے کے ساتھ ایک گھونٹ پانی پینا پڑتا تھا اور جب ماں میری آنکھوں میں آنسو دیکھتی تو کہا کرتی تھی۔

بیٹی گھبر اومت …. اچھا وقت ضرور آئے گا۔“ اور آج اچھے وقت کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے میری آنکھوں سے آرزوؤں کا خون رسنے لگا ہے۔ میں کئی مرتبہ ماں سے پوچھتی ہوں۔ ہاں…. اچھا وقت کب آئے گا …. تو وہ حسرت سے میری طرف دیکھتی ہوئی نظریں نیچی کر لیتی ہے …. بے چاری ماں۔ مجھے ماں کی غم ناک نگاہوں سے اپنے سوال کا جواب تو مل جاتا ہے، مگر ماں کے چہرے پر کرب اور اضطراب کی ابھرتی ملٹی لہریں دیکھ کر میں خود شرمندہ ہی ہو جاتی ہوں۔ کبھی کبھار جب سامنے والی کالونی میں ابا کو مزدوری ملتی ہے تو میں ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر جھانکتی ہوں۔ میرا بوڑھا باپ اپنے کندھوں پر طاقت سے زیادہ بوجھ لا دتا ہے تو اس کی کمر بالکل کمان کی مانند ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ میں ندامت اور شرمندگی کے ساتھ پردہ گرا دیتی ہوں۔ ابا کے کھانسنے کی آواز ہتھوڑے کی ضرب بن کر میرے بغاوت کے اس خوابیدہ احساس کو بیدار کرتی ہے جسے میں بڑی مشکل سے ٹھیک ٹھیک کر اور جھوٹی تسلیوں اور دلاسوں کی لوریاں دےدے کر سلاتی ہوں۔ میں ایک مزدور کی مجبور بیٹی ہوں۔ ابا نے اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر میرے چھوٹے بھائی شہزاد کو اس اس کے ساتھ دس جماعتیں پاس کروائیں کہ شاید وہ ہم سب کا معیار زندگی بلند کر سکے ، مگر اب اس کی تعلیم ہی ہماری نظروں میں خار بن کر کھٹکنے لگی ہے۔ ان پڑھ ہوتا تو کم از کم مزدوری تو کرلیتا نا….؟ اب تو دس جماعتیں اس کی مزدوری کی راہ میں بھی حائل ہونے لگی ہیں وہ کہتا ہے …. مزدور بننے سے کہیں بہتر ہے کہ میں دریا میں چھلانگ لگا دوں۔“ شہزاد نے ابھی دس جماعتیں پاس نہیں کی تھیں تو ماں بڑے ارمانوں سے کہا کرتی تھی … شہزاد تم دس جماعتیں پاس کر لو۔ میرا چچا زاد بھائی نور الدین ٹھیکیدار ہے۔ وہ تمہیں کوئی اچھی کسی نوکری دلا دے گا۔ “ اور جس روز شہزاد نے فرسٹ ڈویژن لے کر دسویں پاس کی تو ماں اور ابا کی باچھیں کھل کھل جاتی تھیں۔ شہزاد بھی نواب بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ فسٹ ڈیویژن لے کر جیسے خوشحالی کے سارے پھول ہی اس کے دامن میں ڈھیر ہو جائیں گے۔

ماں پلیٹ میں چار لڈو ر کھے شہزاد کو اپنے چچازاد بھائی نور الدین کے گھر لے گئی تو وہاں گھاس تو کیا انہیں بھوسے کا ایک تنکا بھی نہ ڈالا گیا۔ اس روز شہزاد اور ماں کیسے منہ لٹکائے واپس آئے تھے۔ جب ہی سے شہزاد کے نواب بنے کے خواب ایک ایک کر کے منتشر ہونے شروع ہو گئے تھے۔

جب میں ماں اور ابا کو دیکھتی ہوں تو مجھے ان کی آنکھوں میں مایوسیوں کی کائی کی ایک موٹی تہہ ماں کے ہاتھ لوگوں کے برتن مانجھتے مانجھتے جیسے گھس گئے ہیں اور ابا ابا کے خون کا آخری قطرہ نچڑنے میں دیر ہی کیا رہ گئی ہے۔

لوگ کہتے ہیں انسان قدرت کا شاہکار ہے۔ میں پوچھتی ہوں کون سا انسان ؟ کیونکہ انسانوں کی بھی تو دو قسمیں ہیں ایک طرف بے حس اور خود غرض انسان ہیں اور دوسری طرف پُر خلوص اور ہمدرد انسان ۔ رہا محنت کش طبقہ تو وہ تو چکی کے دو پاٹوں میں پینے کے لیے پیدا ہوا ہے، اس کی زندگی محض روٹی کے گرد گھومتی چا زاد ہے، ان کو زمین کو گولائی کا علم نہیں ہاں یہ معلوم ہے کہ روٹی گول ہوتی ہے۔

ایک روز دو پہر کو جب ہمیں روٹی میسر نہ آئی تو بچوں کو روتے بلکتے دیکھ کر ابا شہزاد پر برس پڑا۔ دس پاس کر کے تمہیں کون سے سرخاب کے پر لگ گئے ہیں جو تم اپنے آپ کو پھنے خاں سمجھنے لگے ہو۔

مزدوری نہیں کرنا چاہتے تو جاؤ اس گھر سے نکل جاؤ اور اس وقت تک قدم نہ رکھتا جب تک کہ مزدوری کر کے کہیں سے پیسہ نہ کمالاؤ۔“ شہزاد نے گھر سے نکلتے ہوئے چیخ کر کہا تھا۔ مٹی نہیں ڈھوؤں گا لیا میں مزدور نہیں بنوں گا۔ میں نے پوری قوت سے بھاگ کر شہزاد کے بازو پکڑ لیے۔ اس نے چپکے سے میرے کان میں شرگوشی کی۔ ”میں آج رات کہیں ڈاکہ ڈالوں گامیری پیاری بہن … ڈاکہ ۔” میں اس کے ان الفاظ پر لرز جاتی ہوں۔ میرا بھائی کیا سوچ رہا ہے …. وہ کس راہ پر جانا چاہتا ہے… کیا میں اسے اس بھیانک راستے پر جانے دوں۔

دنیا والو، تم ہمیں بے ایمان کہو، چور کہو، ڈاکو کہو اور جو تمہارے جی میں آئے کہو لیکن میں تمہارے احساسات کے بند کواڑ پر دستک دے کر پوچھتی ہوں، بتاؤ جب ہمیں دو وقت کی روٹی میسر نہ آئے تو ہم کیا کریں۔ جب ہمارے بچوں کی آرزوئیں سسک سسک کر ہمارے سامنے دم توڑدیں تو ہم کہاں جائیں …؟ شمی کی آنکھوں سے آنسوں کی زمین میں جذب ہو رہے تھے پھر وہ خاموش ہو گئی جیسے وہ ہم سے سوال کر رہی ہو کہ کیا ہم کبھی سکھ کی زندگی بھی گزار پائیں گے….؟

محبت کی تلاش

 روز صبح اسکول جاتے ہوئے شکیلہ کی ہلکی ملکی گنگناہٹ جس میں موسیقیت کی نسبت درد کا عنصر زیادہ ہوتا، مجھے اپنی طرف ضرور متوجہ کر لیتی۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ بھی مجھے سلام کرکے خیریت ضرور پوچھتی۔

تقریباً تین سال سے وہ اسی سڑک پر جھاڑو دینے پر مامور تھی۔ اوروں کی طرح وہ کام چور نہ تھی۔ صاف ستھری سڑک اس کے کام کی لگن کا پتہ دیتی تھی۔ وہ سڑک کی صفائی اور ستھرائی میں۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ2019

Loading