Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ۔۔۔(قسط نمبر 2)

جیتی جاگتی زندگی

آپ بیتیوں پر مشتمل سلسلہ

(قسط نمبر 2)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔جیتی جاگتی زندگی)اتنی منہمک ہو جاتی کہ اسے وقت کا پتہ نہ لگتا۔ یا اندازہ نہ ہوا۔ شاید وقت کا پیمانہ اس نے گھڑی اور گھنٹے کے بجائے فرض کی تکمیل رکھا تھا۔ اسی لیے اس کے چہرے پر تکان کے بجائے اطمینان و سکون کے آثار ہوتے جو اسے دوسروں سے نمایاں کر دیتے۔ وہ عام جمعدار نیوں جیسی ہی ایک جمعدارن تھی لیکن کسی قدر موزوں قدو قامت، ادھیڑ عمر ، مضبوط ہاتھ پاؤں اور صاف ستھرے لباس والی یہ عورت جمعدار نی کم اور ایک سگھڑ عورت زیادہ نظر آتی۔

شکیلہ کی ایک عادت کو محلے میں کم و بیش ہر شخص نے محسوس کیا تھا۔ علی الصبح صاف ستھری یونیفارم پہنے ہوئے ) اسکول جاتے ہوئے بچے اس کی خاص توجہ کا مرکز ہوتے۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کام میں مگن رہنے والی یہ عورت نظر بھر اگر دیکھتی تو صرف بچوں کو۔

سالانہ امتحان شروع ہونے کے زمانے میں شکیلہ اپنا کام اس وقت تک کرتی رہتی جب تک بچے اسکولوں سے گھر واپس ہونا نہ شروع ہو جاتے۔ ایسا لگتا جیسے یہ حرکت دانستہ ہو ۔ امتحان دے کر آنے والے لڑکوں سے وہ ان کے پرچوں کے متعلق ضرور سوال کرتی۔ ان کے چہرے کی اضطراری کیفیت دلی جذبات کی غمازی کرتی۔

لیکن وہ دلی جذبات یا تھے۔۔۔؟ اس کا کبھی کسی کو اندازہ نہ ہوا۔

لوگوں کے ذہن میں کئی سوالات آتے۔ کیا اسے باتیں کرنے کا شوق تھا….؟ نہیں ایسا ہو تا تو وہ ہر ایک سے باتیں کرتی اور پھر زیادہ باتیں کرنے والے اتنا کام کہاں کرتے ہیں ….؟ کسی کے گھر کی جمعد ارنی چلی جائے یا کوئی ناند کر جائے تو وہ بلا عذر اور بلا معاوضہ اس کا کام نمٹانا اپنا فرض سمجھتی تھی، برادری والیوں کا ہاتھ بٹانے کی خاطر نہیں، بلکہ محلے کے ہر فرد کی پریشانی خود اس کی پریشانی بن جاتی تھی۔ اس کی تو کوئی برادری ہی نہ تھی۔ کر۔ انہی بنگلوں سے ذرا پرے ایک گھر ۔ ادھ بنا مکان اس کا گھر تھا۔ اکثر جمعدار نیوں سے تو اس کی جان پہچان بھی نہ تھی۔ شکیلہ اس کی بول چال، پہناوے اور وضع قطع کا فرق صاف ظاہر کرتا تھا کہ سوائے پیشہ کی یکسانیت کے اس کا ان جمعدار نیوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایسے میں تنہائی کا احساس ہونا ایک قدرتی بات ہوتی ہے۔ لیکن وہ اپنی بے عذر خدمت کی بدولت بیگمات کی خاصی دلاری تھی۔ کام ہی سب کو پیارا ہوتا ہے۔ کے متعلق ضرور سوال کرتی۔ ان کے چہرے کی اس میل ڈیڑھ میل لمبی سڑک کے دو رویہ اضطراری کیفیت دلی جذبات کی غمازی کرتی۔ بنگلوں میں روزانہ کسی نہ کسی بنگلے میں جمعدارنی کا لیکن وہ دلی جذبات کیا تھے ؟ اس کا کبھی کسی کو ناغہ کر جانا کوئی خاص بات نہ تھی۔ ایسے میں شکیلہ کا بے عذر کام کر دینا بڑی اہم بات ہوتی تھی اور وہ بھی بغیر معاوضہ۔ یہ اور بات ہے کہ بیگمات خوش ہو کر دوسرے تیسرے ماہ ٹوٹی چپل یا پھٹا دو پٹہ بانی دے کر اس کے احسان کے بوجھ سے سر ہلکا پھینکنی پڑی۔ کر لیتی تھیں۔

ان تمام صفات کے باوجود وہ بہر حال ایک جمعدارنی تھی۔ جس کے احساس سے ہی اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ جاتی۔ گھروں میں ضرورت پڑنے پر خندہ پیشانی سے پیش آنے والی بیگمات کا راہ چلتے اس کے سلام کا جواب دینا ہی اس کی خدمت کا سب سے بڑاصلہ ہوتا۔

کاشف اور نیہاں سڑک کے کنارے بنے ہوئے خوبصورت بنگلوں میں رہتے تھے میٹرک کرلینے کی خوشی میں شکیلہ کا مٹھائی لے کر ان کے گھر مبارکباد کے لیے جانا، اپنے پیچھے قیاس آرائیوں کا ایک طوفان چھوڑ گیا۔ لیکن وہ اس سے قطعی بے خبر تھی۔ اچھا تو کسی کو بھی نہ لگا لیکن اس کی خدمات منقطع ہو جانے کے ڈر سے مٹھائی واپس کر دینا دونوں میں سے کسی گھرانے کو مناسب نہ معلوم ہوا۔ اسے شکیلہ کی مکھن بازی کے سوا اور کوئی نام نہ دیا جا سکا۔ کسی نے زیادہ رعایت کی تو یہ کہہ دیا کہ ایسے موقعوں پر انعام و اکرام حاصل کرنے کا یہ پرانا حربہ ہے۔ انعام کے اسی لالچ کو پورا کرنے کے لیے نیہاں کی امی نے اسے دوپٹہ لا کر دیا، لیکن پھر بھی اسے آزردہ ہی دیکھا تو اتنا ہی ھ سکیں کہ شاید انعام حسب توقع نہیں ہے۔ وہ یہ کسی دھاردار چھری کی مانند شکیلہ کا دل زخمی کر گیا۔ خلوص نے آہ کر کے دم توڑ دیا۔ اس کی لائی ہوئی مٹھائی کسی فقیر کو دے دینے کی ہدایت کر دی گئی مگر فقیروں کی کمی کے باعث کوڑے میں پھینکی پڑی۔

اور اب مساجد میاں میرے گھر سے میٹرک کا امتحان دے کر رزلٹ کا انتظار کر رہے تھے۔ اکثر راہ چلتے شکیلہ ساجد سے پرچوں کے متعلق سوال کرتی اور بعد میں نتیجہ آنے کی تاریخ بھی پوچھتی۔ خدا خدا کر کے نتیجہ آگیا۔ حسب توقع ساجد عمدہ نمبروں میں کامیاب ہوئے تھے۔ عزیز و اقارب، احباب اور پڑوسیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ آپا کا مبارکباد کے لیے آنے والوں کے پاس بیٹھنا ضروری تھا۔ خاطر تواضع کے لیے ہم سب اور کھیپ بھر نو کر کیا کم تھے۔ کب دو پہر ہوئی اور کب شام ؟ یہ سوچنے کا موقع ہی کسے تھا۔ مٹھائیوں سے سبھی پلیٹوں اور مشروب کی بوتلوں کے درمیان بیٹھے ہونے کے باوجود ایک مرتبہ مجھے شکیلہ کے سلام نے بری طرح چونکا دیا۔ خلاف توقع اسے دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ بھلا اس وقت اس کے آنے کی کیا تک تھی۔ ان سب باتوں سے بے خبر شکیلہ نے آپا کے متعلق سوال کیا۔ جواب پاتے ہی پوٹلی کھول کر مٹھائی کا ڈبہ اس نے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔

چھوٹی بی بی! بابو کے پاس ہونے کی خبر مجھے ابھی ملی ہے۔ میری طرف سے یہ لڈو انہیں کھلا دو۔ بس حلوائی کی دکان سے لے کرسیدھی آئی ہوں۔” میری نظر معلوم نہیں کیوں اس کے چہرے کی طرف اٹھ گئی۔ دل کی بات بے اختیار زبان سے نکل گئی۔

خواہ مخواہ کیوں اتنے پیسے خرچ کیے۔ دوسروں کے بچوں کی خاطر تم کیوں تکلیف اٹھاتی ہو ….؟” ایک دم پھوٹ پڑی۔ چھوٹی بی بی یہ نہ پوچھو۔ کسی نے بھی آج تک نہ پوچھا۔ تم نے پوچھ کر میرے زخم پھر سے ہرے کر دیے۔ شوہر کے مرنے کے بعد بھی میں سڑکیں جھاڑ جھاڑ کر اپنے شامو کو پڑھاتی رہی۔ شا موجب نویں میں پہنچا تو مجھ سے ہمیشہ کہتا۔ ماں جب میں دسویں پاس کروں گا، تو مجھے دل کھول کر کا چہرہ دیکھا۔ مٹھائی کھلانا۔ ساتھ میرے یاروں دوستوں کو بھی۔ لیکن یہ خوشی دیکھنے سے پہلے ہی خدا نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔ میں تنہا اس کا غم سمیٹے اب بھی سڑکیں جھاڑتی رہتی ہوں۔ جب بھی کوئی لڑکا دسویں پاس کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ شاموہی پاس ہوا ہے اور درخت لگائے۔ اب اسے مٹھائی ضرور کھانی چاہیے۔ میں دیوانی ہیں صحت بنا ہے سوچ کر مٹھائی لے کر پہنچ جاتی ہوں۔ یہ بھی دھیان سے اتر جاتا ہے کہ میں کیا ہوں۔ چھوٹی بی بی۔ ساجد میاں ہوں یا کاشف بابو ۔ ہیں تو بچے ہی۔ تھوڑی سی دیر کے لیے مجھے انہیں ہی اپنا شامو سمجھ لینے دو۔ میرا حوصلہ بڑھ جائے گا۔ سال بھر کے لیے یہ سوچ کر پھر جینے کا سہارا ہو جائے گا کہ چلو ایک سال اور نمٹ گیا۔

بيبي…! پھول، پھول ہی ہوتا ہے۔ امیر کی کو ٹھی میں ہو یا غریب کی جھونپڑی میں۔ سب ہی اس کی خوبصورتی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ تم اپنے گھر کے پھول پر مجھے بھی خوش ہو لینے دو۔ تمہارا تو کچھ نہ جائے گا۔

اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ دل نے وہ کچھ کہا جسے دماغ پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا۔

میں نے آہستہ سے مٹھائی کا ڈبہ کھولا۔ ایک نہیں کیا۔ لڈو پاس کھڑے ساجد کے منہ میں رکھا اور دوسرا اپنے منہ میں مجھے ایسا لگا کہ میں نے اتنی مزیدار مٹھائی پہلے کبھی نہ کھائی تھی۔ نظریں چرا کر شکیلہ کا چہرہ دیکھا۔

وہ ٹکٹکی باندے ساجد کا شہرہ تک رہی تھی۔ کالے جوتے چہرے پر نور تھا اور آنکھوں میں مامتا کی اتھاہ محبت !

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ2019

Loading