خاموش محبت
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سونا چاہتی تھی پر نیند آنکھوں سے کوسوں دور کہیں گم ہو گئی ہے
کچھ انکہی باتیں
کچھ بھولی بسری یادیں
اور ان سے وابستہ کچھ لوگ
کب کیسے رات آنکھوں میں کٹ گئی پتا ہی نہیں چلا
ملی جلی یادیں کچھ کھٹی کچھ میٹھی
اور کچھ اداس کردینے والی
اسکول کے زمانے میں ہمارے گروپ میں کوئی دس بارہ لڑکے لڑکیاں تھیں
کچھ کزنز کچھ پڑوسی اور سب ہی اسکول اور ٹیوشن فیلو بھی تھے
وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے پلٹ کر دیکھو تو کل ہی کی بات لگتی ہے
بچپن ختم ہو رہا تھا اور ہم سب دوست لڑکیاں لڑکے بڑے ہو رہے تھے
ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے خواب بھی بڑے ہو رہے تھے
پہلے ساری شام کھیل کود کرتے گزرتی تھی
اب ہم دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے اور مستقبل کے خواب بنتے
ان خوابوں کو تعبیر کرنے کے طریقے ڈھونڈھتے
ایک منفرد عزم ہمیشہ دوستی نبھانے کا ساتھ رہنے کا کرتے
اور دیر رات گھروں کو چلے جاتے
سارا دن وہ باتیں ذہن میں گھومتی رہتیں
شام ہوتے ہی پھر وہی قصے اور نت نئے طریقے ڈھونڈھتے اپنے خوابوں کو تعبیر کرنے کے
اور چپکے چپکے بدلتے جذبات انگڑائی لینے لگے سوچنے کے ڈھنگ بدلنے لگے
بات کرنے اور دیکھنے کے انداز بدل گئے
بے تکلفی کی جگہ جھجھک نے لے لی
کبھی جدا نا ہونے والی قسمیں بھی بدل گئیں
سمجھنے لگے کہ ہمیشہ ساتھ رہنے کے لیے دائمی رشتہ ضروری ہے
لیکن کم عمری میں یہ باتیں کسی سے کہہ نہیں سکتے تھے
آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا
روزانہ کا ملنا ہفتوں میں بدلنے لگا جب ملتے تو سب پڑھائی اور کیرئیر کی باتوں کے ساتھ ساتھ سونگز اور موویز کی باتیں بھی کرنے لگے تھے
اب ایک بہت بڑی تبدیلی آگئی تھی کسی کو کسی کا انتظار ہونے لگا تھا اسکے نا ہونے سے محفل سونی لگتی اور اس کے آجانے سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی آنکھوں میں چمک اتر آتی
سہیل اور رافیہ بھی انہیں میں سے ایک تھے
اگر سہیل کو آنے میں دیر ہوتی تو رافیہ بے چین رہتی
اور رافیہ کی عدم موجودگی سہیل پر گراں گزرتی تھی
دونوں نے لفظوں میں تو کبھی کچھ نہیں کہا
لیکن نظروں سے بہت کچھ کہہ دیا تھا
تمام قول و قرار عہد و پیمان کرلئے تھے
سہیل کا گھر رافیہ کی خالہ کے برابر میں تھا رافیہ جب بھی خالہ کے گھر جاتی اپنی ہم عمر کزن کے ساتھ چھت پر چلی جاتی سہیل رافیہ کو آتے دیکھ چھت پر پہنچ جاتا تینوں ملکر مستقبل کی بہت باتیں کرتے
گو کہ یقین تھا کبھی الگ نہیں ہونگے
اچانک سہیل کے والد کا انتقال ہو گیا
سہیل اکلوتا بیٹا تھا یوں کم عمری میں والدہ اور دو بہنوں کی زمہ داری سہیل پر آگئی
سہیل نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم نوکری شروع کر دی
اب ملاقات مہینوں بعد ہی ہوتی اور بہت کم ہوتی
رافیہ کو کزن سے سہیل کی خیریت معلوم ہوتی رہتی
بہت صبر سے دونوں وقت گزار رہے تھے
اس امید پر کہ پڑھائی ختم ہو جائے کوئی بہتر نوکری ملتے ہی ایک دوسرے سے اپنے دل کا حال کہیں گےبزرگوں سے
درخواست کریں گے دوستی کو رشتے میں بدلنے کی
رافیہ کی خالہ زاد سب سمجھ تو رہی تھی لیکن یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ جب بھی ملتے تو اسکی موجودگی میں ملتے اور عام سی باتیں ہوتیں
یوں وہ بھی خاموش رہی
سہیل کو کسی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا کچھ دن کے لئے
اِدھر رافیہ کا رشتہ آگیا
گھر والوں نے ایک ہفتے میں ہی رافیہ کو رخصت کر دیا
وہ کسی سے کچھ بھی نا کہہ سکی
رافیہ کی رخصتی کے ساتھ ساتھ اسکے گھر والوں نے بھی شہر بدل لیا
یوں سہیل کو کوئی خبر نہ ہو سکی
وقت گزرتا گیا چار سال بعد جب سہیل کسی قابل ہؤا تو
اس نے رافیہ کی خالہ زاد سے رافیہ کے والدین کا پتہ معلوم کیا
اور انہیں اپنے انے کی اطلاع دی
کیونکہ بچپن کے دوست تھے تو گھر آنے جانے پر کوئی پابندی بھی نہیں تھی
لیکن دوسرے شہر جانے کے لیے سہیل نے بہانہ کیا کہ آفس کے کسی کام سے اس شہر آرہا ہے تو آپ لوگوں سے بھی ملاقات کرنی کی خواہش ہے
سب گھر والے بہت خوش تھے سہیل کے آنے سے
بہت مؤدب بچہ تھا ہمیشہ کام آنے والا
اتفاق سے اسی دن رافیہ کو بھی والدین کی بہت یاد ستائی اور وہ اپنے ایک ماہ کے بیٹے کو ساس کے حوالے کرکے دو چار گھنٹے میں واپس آنے کا کہہ کر چلی گئی
جب گھر پہنچی تو دعوت کا اہتمام دیکھ کر پوچھا آپ کو کیسے معلوم میں آرہی ہوں
چھوٹی بہن نے کھلکھلاتے ہوئے بتایا باجی یہ آپکے لئے نہیں ہے بلکہ آپکے اسکول فیلو آرہے ہیں انکے لئے انتظام کیا ہے
رافیہ حیران رہ گئی
کون آرہا ہے
دل زوروں سے دھڑک رہا تھا آتی جاتی سانس سہیل ہی پکار رہی تھی
اور کچھ ہی دیر میں والد صاحب کے ساتھ ایک پرکشش وجہہ نوجوان گھر میں داخل ہؤا
دروازہ رافیہ نے ہی کھولا تھا
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ٹھٹھک گئے
بہت بدل گیا تھا سہیل جب جدا ہوئے تھے تو لڑکا تھا اب ایک مرد سامنے کھڑا تھا
سہیل نے فوراً سلام کیا اور گھر کے اندر داخل ہو گیا
گرمیوں کی دوپہر تھی ٹھنڈے مشروب سے توازہ کی
اور کچھ دیر بعد کھانا لگا دیا
سہیل کے چہرے پر خوشی نمایاں تھی
اور کچھ دیر کو رافیہ بھی شادی بچہ سب بھول گئی تھی
یونہی باتیں کرتے وقت گزر گیا پتا ہی نہیں چلا
سہیل نے والد صاحب سے بات کرنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ رافیہ نے کہا ابو مجھے گھر جانا ہے بہت دیر ہوگئی ہے عزیر رو رہا ہوگا
سہیل کچھ سمجھ نہیں سکا کیونکہ اسے رافیہ کی شادی کا معلوم نہیں تھا
جب اسے معلوم ہؤا تو
جیسے کوئی موت واقع ہوگئی ہو یو سہیل کے چہرے کے تاثرات بدلے
وہیں رافیہ بھی چور نظروں سے یہ سب دیکھ رہی تھی
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سہیل نے رافیہ کے والد صاحب
سے اجازت طلب کی
جبکہ وہ کچھ دن ٹھہرنے کے ارادے سے آیا تھا
سب گھر والوں کے اصرار پر بھی نہیں رکا
بیگ کندھے پر اٹھایا اور رافیہ سے پہلے گھر سے باہر چلا گیا
سب گھر والے اسکی اس حرکت پر حیران تھے
صرف رافیہ جانتی تھی
قیامت دونوں پر گزری ہے رافیہ پر دوسری بار
گزری تھی
پھر کبھی دونوں کا سامنا نہیں ہؤا رافیہ خالہ کے گھر گئی تو معلوم ہوا سہیل نے بہنو کی شادی کردی اور اپنی والدہ کے ساتھ کسی دوسرے ملک شفٹ ہو گیا ہے گھر بیچ کر چلا گیا ہے
کیسی ہوتیں ہیں یہ محبتیں
خاموشی سے پنپتی اور خاموشی سے سینوں میں دفن ہوجاتیں ہے
نا کوئی قبر نا کوئی نشان
اک ان کہی داستان
لفظوں میں ڈھل نا اس کی
آنکھوں ہی آنکھوں میں رہ گئی
سیدہ زرنین مسعود