قسط نمبر 27
کالم : مسیح الدجال
تحریر : ڈاکٹر عبدالروف
تاریخ: 26 اگست 2022
الدجالون الکذابون
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنّه سَيَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ الدجالون الکَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنّه نَبِیٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ.
’’میری امت میں تیس (30) دجال کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب : ماجاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219.
امت کا مجموعی عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے خواہ کسی معنی میں ہو۔ وہ کافر، کذاب، مرتد اور خارج اَز اسلام ہے۔ ایسے شخص کو رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اپنے وقت کے دجال سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔ یہ عقیدہ خود قرآن مجید اور متعدد احادیث مبارکہ سے ماخوذ ھے ۔
ہماری گزشتہ چند اقساط تاریخ کے انہی چند بڑے کذابین کے ذکر میں گزری ہیں ۔ جنہوں نے تصوف کا لبادہ اوڑھ کر اور بہت بڑے بڑے شعبدے دکھا کر اپنے مریدین میں ہوشربا اضافہ کیا اور نبوت کے دعوے کیے ۔ ان میں سے بعض تو بہت بڑے بڑے فتنوں کا باعث بنے اور حکومتوں پر قابض ھو کر کئی کئی سال اپنے دجل کا پرچار کرتے رہے ۔
ان جھوٹے دجالوں میں ایک فتنہ قرامطہ بھی تھا ۔ جسے فرقہ باطنیہ بھی کہا جاتا ھے ۔ بظاہر ان کا نعرہ انسان کے باطن کی پاکیزگی تھا ۔ انہیں مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ۔ مثلا ایران میں سبعی ، بغداد اور حلب کے علاقوں میں قرامطہ بصرہ میں روندیہ کوفہ میں مبارکیہ اس کے علاؤہ خلقی ، باطنی، جنابی ، تعلیمی ، سعیدی، اور ہمدانی بھی کہا جاتا تھا ۔ آج اہل تشیع کے جس فرقہ کو اسماعیلی کہا جاتا ھے وہ بھی یہی قرامطہ ھیں ۔ ان کا یہ نام مصریوں کے ہاں مشہور ہوا ۔
کذاب حمدان بن اشعث قرمطی
فرقہ باطنیہ یا فرقہ قرامطہ کا بانی یہ شخص حمدان بن اشعث تھا۔ یہ پست قامت شخص دنیا کا بہت بڑا فسادی ثابت ہوا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مفہوم میں یہ بات بھی ملتی ہے دجال دراز قد اور بڑی جسامت کا مالک ہو گا ۔ اور اس کی سواری کے دونوں کانوں کے درمیان ستر ہاتھ کا وقفہ ہو گا۔ جبکہ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں یہ بات بھی موجود ہے کہ دجال پست قامت ھو گا۔ اور اس کے دونوں پاؤں کے درمیان وقفہ کم ہو گا ۔ ایک حدیث مبارکہ میں دجال ممسوح العین ہے جبکہ ایک میں سرخ آنکھوں والا ہے ان احادیث کے درمیان تطبیق کرنا بظاہر ناممکن ہے ۔
بعض علماء نے ان احادیث میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی کہ شاید دجال ایسا جادو سے کرے گا ۔ لیکن جب ہم تیسری صدی کے اس دجال حمدان بن اشعث قرمطی کو دیکھتے ہیں اور اس کا حال پڑھتے ہیں تو یہ ان احادیث کا مصداق ٹھہرتا نظر آتا ہے ۔
قرمط کا معنی ہوتا ہے پست قد ۔ ایسا شخص جس کے دونوں پاؤں کے درمیان وقفہ بہت کم ہو فرقہ قرامطہ یا قرمطیہ کے بانی اس کذاب کا قد چھوٹا اور پاؤں کے درمیان وقفہ کم تھا ۔ چھوٹے چھوٹے قدم لیتا ۔ اور آنکھیں سرخ تھیں ۔
تاریخ پرنظر ڈالیں تومعلوم ہوتاہےکہ امت مسلمہ کوجہاں کئی مسائل کاسامنا کرنا پڑا وہیں کئی فتنے بھی ظاہر ہوئےجن میں فتنہ ارتداد، فتنہ منکرین زکواة، فتنہ خوارج اور فتنہ دعویٰ مہدویت نےامت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا مگر جب خلافت اسلامیہ کے زوال کادور شروع ہوا تو اس کےبعد ان تمام فتن میں بہت تیزی آئی ۔ اس میں نہایت ہی خوفناک ،کرب انگیز ،وحشت ناک اور سفاکیت سے بھرپور کردار قرامطہ کا ہے جنہوں نےاسلام ، تزکیہء نفس اور تصوف کےلبادہ میں مارِآستین کے مصداق بن کر اسلام کی اینٹ سےاینٹ بجاڈالی۔ یہ فرقہ مشرق سے لیکر مغرب تک عالم اسلام کے انتشار ، ان کی تباہی وبربادی اورمسلمانوں کےلئے خونریزی ، بربریت ، سفاکی اور خوف کی علامت بن گیا۔ اس فتنےکے ہاتھوں عام لوگ ہی نہیں بلکہ علماء و فضلاء، موحدین اور مجاھدین کا قتل عام ہوا ، اپنے کفریہ عقائد کے خلاف چلنے والے ہر کو قتل کر دینا انکے ایمان کا حصہ تھا ۔ اپنے علاؤہ سب کو جانور خیال کرتے ۔ اور اس کا خون کرنا ان کے ہاں حلال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امت کوسب سےزیادہ نقصان فتنہ قرامطہ کیوجہ سے ہوا
اس فتنے کی جڑوں میں اہل تشیع شامل تھے ۔ اس فرقے کا بانی خود حمدان بن اشعث اسماعیلی شیعہ تھا ۔ اس فتنہ کی ابتداء اگرچہ مصر سے ہوئی لیکن اس نے آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ بصرہ ، کوفہ ،بغداد ، شام ، ایران اور ترکی کے بعض علاقے حتی کے یہ فتنہ موجودہ پاکستان کے شہر ملتان تک پھیلا۔ اور اس نے لوگوں کو متاثر کیا۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا ۔
قرامطہ کی حکومت کا آغاز فاطمی فرقہ سے ہوا جس کا بانی ابو محمد بن عبیداللہ تھا جس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ اور بعد میں اس کے کارندے یہاں سے پوری اسلامی ریاست میں پھیل گئے اور یہ کارندے فاطمی داعی کے نام سے پکارے جانے لگے۔ شروع سے آخر تک ان کی تمام کارروائی آج کے دور کی فری میسن کی طرح انتہائی صیغہ راز میں رہتی تھی اور ایک دم یہ کسی جگہ خروج کر کے اس علاقے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بزور طاقت قائم کر لیتے اور اپنے عقائد کا پرچار کرتے تھے ۔
ان کے عقائد، طریقہء واردات ، دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کے کارندوں اور کرامات کا ذکر ان شاءاللہ آئیندہ قسط میں ہو گا ۔
جاری ہے