Daily Roshni News

دجال کون ہے ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدلروف ۔۔۔ قسط نمبر 29

قسط نمبر 29

کالم : مسیح الدجال
تحریر : ڈاکٹر عبدالروف
تاریخ: 28 اگست 2022

الدجالون الکذابون
فتنہ قرمطیہ کی شرانگیزیاں ۔۔۔ اور مسلم دنیا پر ان کے اثرات ۔

پچھلی قسط میں ہم اس فتنہ قرمطیہ کے سرغنے غالی النسل اسماعیلی شیعہ حمدان بن اشعث قرمطی کے بارے میں لکھ چکے ہیں ۔ ہم اس بات کو بیان کر چکے ہیں۔ کہ یہ تیسری صدی ہجری کا سب سے بڑا فتنہ تھا جو عرب ، یمن ، عراق، بغداد، مصر ، ترکی ، ایران ، افغانستان اور موجودہ پاکستان کے شہر ملتان تک پھیل چکا تھا ۔
ذکرویہ کی شام میں شکست کے بعد یہ کہہ کر ہزاروں قرامطہ اس کے ساتھ ہو گئے کہ امام زمانہ مہدی کے ظہور کا وقت آن پہنچا ھے۔ ان کے مقابلے میں خلیفہ مکتفی نے ایک بار پھر لشکر بھیجا، مگر اس دفعہ ایک بار پھر اس کے لشکر کو شکست ہو گئی۔ اور قرامطہ آگے بڑھتے ہوئے کوفہ، بصرہ اور بغداد تک جا پہنچے اور لوٹ مار شروع کردی۔ راستے میں مکہ معظمہ سے آنے والے حاجیوں کے تین قافلوں پر زبردست حملے کیے۔ ان حملوں میں تقریباً بیس ہزار افراد قتل کر دئے اور کئی لاکھ دینار بھی قرامطہ نے لوٹ لیے ۔

حاجیوں کی شہادتوں اور لٹنے کی خبر جب بغداد پہنچی تو خلیفہ مکتفی نے تیسری دفعہ لشکر بھیجا ۔ اس دفعہ خلیفہ مکتفی کو فتح ہوئی اور ذکرویہ گرفتار ہو گیا ۔ اور شدید زخموں کی تاب نہ لا کر جھنم واصل ھو گیا ۔ لیکن پھر بھی اس کی لاش کو پھانسی دی گئی۔ ذکرویہ کے مرتے ہی عراق میں قرامطہ کا زور ٹوٹ گیا ۔جو قرامطہ اس معرکہ میں بچ گئے وہ شام کی طرف بھاگ گئے۔ جہاں شام کے حاکم حسین بن حمدان نے ان کو پسپا کرنے کی کوشش کی۔

قرامطہ کا فتنہ عراق اور شام تک ہی محدود نہیں رہا۔بلکہ ان سے زیادہ خوفناک شورشیں بحرین میں ہوئیں، تیسری ہجری کے آخری ربع میں قرامطہ کا ایک داعی یحییٰ بن مہدی قطیف کے علاقے بحرین پہنچا اور یہ دعویٰ کرنے لگا کہ وہ امام مہدی کا رسول ہے اور اب امام مہدی کے ظہور کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ یہ شخص ایک عرصہ تک دیہاتی لوگوں اور اپنے مریدوں سے مختلف طریقوں سے مال سمیٹتا رہا۔ اس کے چلے جانے کے بعد اس کا ایرانی قائم مقام حسن بن بہرام کوفہ میں آن آباد ہوا
چونکہ یہ جنابہ نامی ایک بستی کا رہنے والا تھا اس لیے یہ ابو سعید جنابی مشہور ہو گیا۔ اس نے 288 ہجری تک بحرین کے اکثر دیہات پر اس کا قبضہ کر لیا ۔ اس نے کافی فوج جمع کرلی اور قرامطہ بحرین سے نکل کر بصرہ کے قریب پہنچ گئے۔ عباسی خلیفہ معتضد باللہ نے عباس بن عمرو غنوی کو ان کے مقابلے میں بھیجا۔ لیکن ابو سعید جنابی نے عباس کو گرفتار کر لیا اور اس کی فوج کے بہت سے آدمی مار ڈالے۔
جنابی کے بعد اس کا بڑا بیٹا ابو القاسم سعید اس کا جانشین ہوا۔ تین سال حکومت کے بعد اس کے چھوٹے بھائی ابو طاہر سلیمان نے بغاوت کی اور اسے قتل کر دیا۔ 403 ہجری میں ابو طاہر بحرین کے قرامطہ کا سربراہ بنا۔ 311 ہجری تا 325 ہجری کے درمیان بحرین کے قرامطہ نے بصرہ، کوفہ اور عراق کے دوسرے شہروں میں اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ فساد برپا کر دیا ۔ بعض روایتوں معلوم ہوتا ہے کہ مہدی ‘جو فاطمین کے ظہور کا پہلا امام تھا‘ نے قرامطہ سے اتحاد کرنے کی کوشش کی۔ مہدی نے ابو طاہر کی ولایت کو تسلیم کیا۔ ابو طاہر کو پہلے ہی کافی قوت حاصل ہوچکی تھی۔ مہدی کی تائید حاصل ہوتے ہی اس نے بصرہ پر چڑھائی کر دی اور دس روز تک خون ریزی کرتا رہا اور شہر کے والی کو قتل کر دیا۔ شہر لوٹ کر جس قدر مال حاصل ہوا وہ سب اپنے علاقے میں بھجوادیا۔ جو قیدی ہاتھ لگے انہیں غلاموں کی طرح بیچ ڈالا۔

بیت اللہ کی بے حرمتی اور حجر اسود کی منتقلی

اب تک قرامطہ نے حاجیوں کے قافلوں کو لوٹا تھا، لیکن 317 ہجری میں قرامطہ عراق سے بھاگ کر مکہ معظمہ پہنچے۔ اس سال منصور دیلمی حاجیوں کا امیر تھا۔ یہ لوگوں کو ساتھ لے کر بغداد سے مکہ معظمہ روانہ ہوا۔ مکہ میں قرامطہ نے اچانک ان پر حملہ کرکے ان کا مال و اسباب لوٹ لیا۔ ان میں سے کئی آدمیوں کو بیت اللہ اور مسجد الحرام میں قتل کیا۔ حجر اسود کو اس کی جگہ سے نکال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ آج بھی حجر اسود کی جگہ پر اس کے محض چند ٹکڑے نصب ھیں ۔
مکہ کے گورنر نے کئی لوگوں کو ساتھ لے کر یہ کوشش کی کہ قرامطہ اپنے کرتوتوں سے باز آجائیں۔ مگر ان کی یہ کوششیں ناکام رہیں۔ اس کے بعد بیت اللہ کا دروازہ اور محراب بھی اکھاڑ کر ساتھ لے گئے اور مقتولین کے لاشے زم زم کے کنوئیں میں پھینک گئے اور کچھ بغیر غسل و کفن کے مسجد الحرام میں دفن کیے گئے۔ اور اہل مکہ پر بہت ظلم کیا گیا ۔ اس حادثے کی اطلاع جب مہدی کو پہنچی تو اس نے قرامطہ کے رہنما ابو طاہر پر بہت لعنت ملامت کی اور حجر اسود کی واپسی کے لیے لکھا۔ مہدی کے بعد اس کے بیٹے اور جانشین قائم نے بھی ایک خط ابو طاہر کو لکھا۔ ابو طاہر نے 339 ہجری میں یہ کہہ کر حجر اسود واپس کیا۔ کہ ہم اسے حکم سے لے گئے تھے اور حکم سے ہی واپس کرتے ہیں۔ تقریباً بائیس سال حجر اسود قرامطہ کے پاس رہا اور اس دوران قرامطہ مکہ پر قابض رہے۔ حجر اسود پر جو ٹوٹ پھوٹ کے نشانات نظر آتے ہیں وہ اس کے اکھڑے جانے سے ہو گئے۔
تیسری صدی کے اخری عشرے تک قرامطہ تو زوال پذیر ہو گئے
تعجب یہ ہے کہ قرامطہ اتنے عرصہ تک کیسے ثابت قدم رہے۔
اس کی وجوہات شاید یہ تھیں

1. وہ اپنی دھن کے پکے تھے۔ ایک مقام پر شکست کھاتے تو دوسرے مقام پر وہ پھر سر اٹھاتے۔
2. یہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اپنی جانوں تک کو نچھاور کرنے سے دریغ نہ کرتے۔
3. یہ ہر وقت مہدی کی امید میں رہتے اور اسی کا انتظار کرتے، کبھی ایک شخص کو مہدی سمجھتے کبھی دوسرے کو۔
4. ان کے سرغنے انتہائی خود غرض تھے۔ ہر طرح سے پیسہ جمع کرتے ۔
5. بہت سے غریب اور پسے ہوئے عربوں نے ڈر ، قتل ھو جانے اور لوٹ مار کے لالچ میں ان کا ساتھ دیا۔
6. اس کے علاوہ ان کے ساتھ کچھ شیطانی قوتیں بھی ضرور تھیں ، جو اس قدر کثیر التعداد جماعتوں کو قبضے میں رکھتیں
7. ان کی عورتیں بھی لڑائیوں میں حصہ لیتی تھیں۔
8. قرامطہ کا مذہبی جوش اور لوٹ کا پیسہ ان کو اس بات پر آمادہ کردیتا تھا کہ وہ تعداد میں تھوڑے ہوتے تھے لیکن عباسیوں کے ٹڈی دل لشکروں کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔
9. ان کے سفید جھنڈوں پر قران کریم ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔
10. مہدی کا انتظار اور اس کے ظہور کی امید ان کے جوش کو بڑھادتی تھی۔ حتی کہ عباسیوں کے بہترین سردار بھی ان کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے۔
11. قرامطہ کی فوج دو ہزار سات سو سے زیادہ نہیں تھی ۔ مگر ہمارے اسی اسی ہزار کے لشکروں پر غالب آ جاتی۔
12. یہ اپنے بچوں کو بھی عسکری تعلیم دیتے ۔
جاری ہے

Loading