Daily Roshni News

دجال کون ہے ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر عبدلروف ۔۔۔ قسط نمبر 32

قسط نمبر: 32

کالم : مسیح الدجال

تحریر: ڈاکٹر عبدالروف
تاریخ :
حدیث کی روشنی میں 30 جھوٹے دجال

اس سے قبل ہم نے جن جھوٹے کذابین کا ذکر کیا ان کا تعلق عراق ، ایران ، عرب ، اصفہان ، اور بلاد مغرب سے تھا ۔ آج ھم جس جھوٹے مدعی نبوت کا ذکر کرنے جا رہے ہیں ۔ اس کا تعلق برصغیر کے علاقے جالندھر سے ہے ۔
جالندھر اس وقت بھارتی صوبہ پنجاب میں تقریبا، 34 مربع کلومیٹر پر محیط ایک شہر ہے ۔ جس کی آبادی تقریبا ایک لاکھ کے قریب ھے۔ جالندھر پنجاب کا سب سے قدیم شہر ہے۔ جو اب ایک انتہائی اہم صنعتی مرکز ہن چکا ہے۔ موجودہ پاکستان کی تین اہم تاریخی شخصیات ، جنرل محمد ضیاء الحق ، کلاسیکل شاعری کے بادشاہ نصرت فتح علی خان اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا ۔

بایزید روشن جالندھری

بایزید روشن جالندھری دسویں صدی ہجری کا ایک جھوٹا نبی تھا۔ جو 931 ھ میں جالندھر میں پیدا ہوا ۔
اس کا پورا نام بایزید ابن عبد اللہ انصاری تھا۔ بڑا عالم اور صاحب تصنيف تھا۔ درجنوں کتابیں لکھیں ۔ فلسفہ ، منطق کا یہ ماہر حقائق و معارف بیان کرنے میں یدطولی رکھتا تھا اور لوگوں کے دلوں پر اس کی علمیت، قوت استدلال اور کمالات کا سکہ خوب جما ہوا تھا۔
اس کے دلائل اور علمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ اس کے دعوی نبوت سے پہلے کابل میں ہمایوں بادشاہ کے جانشین مرزا محمد کلیم جو کابل کا صوبہ دار تھا نے اپنے دربار میں کابل کے علماء کے ساتھ اس کا مناظرہ کروا دیا۔ چونکہ اس وقت علمائے کابل کے یہ نام نہاد علماء علوم میں ناپختہ اور بالخصوص علوم عقلیہ سائینس ، ہندسہ، ریاضی ، فلکیات ،علم الکلام ، اور منطق سے بالکل ناواقف تھے ان کی علمی بنیاد سنے سنائے واقعات اور جھوٹی روایات پر قائم تھی ۔ وہ بایزید کے مقابلے پر آئے لیکن بری طرح شکست کھائی ۔ اس کا نقصان یہ ہوا کابل کی عوام کی بڑی تعداد اور خود صوبہ دار مرزا کلیم بھی بایزید کی علمیت اور زور کلام سے اتنا مرعوب ہوا کہ خود ہی اس کا معتقد ہو گیا۔
کذابِ برصغیر بایزید جالندھری نے مغلیہ سلطنت کے خلاف کئی بار بغاوتیں بھی کیں۔ اس کے پیروکار سرحدی علاقے کے قبائل تھے۔ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کے پیرو کار مغل بادشاہ ، شاہ جہاں کے دور تک بھی موجود رہے۔

با یزید نے جب عقیدہ تناسخ کی اشاعت شروع کی تو بایزید کا باپ عبد اللہ جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا بیٹے کے اس گمراہ کن نظریات پر بہت برہم ہوا اور غیرت دینی سے مجبور ہو کر بایزید کو جان سے مارنے کے لیے نکلا ۔ حتی کہ اسے پا کر اس پر حملہ کیا اور چھری کے وار کر کہ بایزید کو بری طرح مجروح کر دیا ۔ بایزید بھاگ کر افغانستان کے علاقے ننگرہار چلا آیا اور قبیلہ مہمند میں سلطان احمد کے مکان میں رہنے لگا۔ جب وہاں کے علماء کو بایزید کی گمراہی اور بدمذہبی کا حال معلوم ہوا تو سب اس کی مخالفت پر متفق ہو گئے اور لوگوں کو بایزید کے عقائد سے آگاہ کرنے لگے اس طرح لوگوں کی اکثریت اس کے خلاف ہو گئی ۔ نتیجتا اسے افغانستان چھوڑنا پڑا۔ پھر یہ پشاور چلا آیا اور پٹھانوں کے ایک قبیلے غوریا خیل نے اس کو پناہ دے دی ۔ یہاں چونکہ کوئی عالم دین اس کی مزاحمت کرنے والا نہیں تھا اس لیے اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی یہاں تک کہ اس علاقے میں یہ کذاب بلا شرکت غیرے من چاہئے عقائد بیان کر کہ بزور منطق و دلیل اپنا جھوٹا سکہ چلانے لگا اور قریب قریب ساری قوم غوریا خیل اس کی اطاعت کرنے لگی۔ بایزید یہاں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد ہشت نگر چلا گیا۔ جہاں اس کی اطاعت اور عقیدت کا بازار مزید گرم ہو گیا۔
اسی دوران ایک سرحدی پٹھان عالم دین اخوند درویزہ (رح) سے بھی بایزید جالندھری ملعون کا مناظرہ ہوا جس میں بایزید جھوٹا ثابت بھی ہوا اور شکست کھائی، مگر اس کے مرید ایسے اندھے ،خوش اعتقاد اور طاقتور تھے کہ اخوند درویزه کی ساری کوششیں بیکار ہو گئیں۔ جب بایزید کی مذہبی شرارتوں ، بد اعتقادیوں کا حال کابل کے گورز محسن خان کو پہنچا جو اکبر بادشاہ کی طرف سے کابل کا حاکم تھا تو وہ بہ نفس نفیس ہشت نگر آگیا اور بایزید کو گرفتار کر کے ساتھ لے گیا اور ایک مدت تک اس کو قید میں بند رکھا۔ قید سے رہائی کے بعد بایزید پھر ہشت نگر آ گیا اور اپنے مریدوں کو جمع کر کے آس پاس کے پہاڑوں میں جا کر رہاہش پزیر ہو گیا اور سلطنت کے خلاف سازشیں کرنے لگا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے آفریدی اور درگزی پٹھانوں کو بھی گمراہ کر کہ اپنا گرویدہ کر لیا اور صوبہ سرحد کے پٹھانوں کے دلوں میں اس کی محبت اور عقیدت خون کی طرح دوڑنے لکی ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص ابلیس کا کارندہ بن جائے تو ابلیس اور محسوس کرے کہ یہ شخص ایک عوامی حلقہ بھی رکھتا ھے تو ابلیس اس شخص کی تربیت کرنے، اسے دلیل فراہم کرنے اور شاطرانہ چالیں چلنے میں اس کی مدد کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے ۔ حتی کہ خواب اور عالم بیداری میں یہ شیطان ان کذابوں اور ملعونوں کو اپنی مختلف شکلیں بھی دکھاتا ہے ۔ انہیں کچھ غیب کی باتوں پر مطلع بھی کرتا ھے ۔ ان کذابوں کے ہاتھوں پر جادوئی کرشمے بھی دکھاتا ھے ۔ یہ کذاب اس ابلیس کو خدا سمجھ کر اپنے تئیں خوش ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے خدا کو دیکھا ہے ۔ اور خدا خود ان کے طریق کی توثیق کر رہا ہے ۔ اس لیے یہ فی الواقع درست راستے پر ہیں اور اللہ کے برگزیدہ اور قریبی ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو یہ کذاب اور دجال مزید قوت استقلال اور اعتماد کے ساتھ اپنے دجل اور کذب کو پھیلاتے ہیں تو دوسری طرف کمزور اور بدعقیدہ عوام بہت جلد ان کی چنگل میں پھنس جاتی ہے ۔ جس سے شیطان کا کام آسان ہو جاتا ہے ۔
جس طرح ابلیس ہندوستان کے ایک اور جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنی جھوٹی نورانی شکلیں دکھایا کرتا تھا اور مرزا گمراہ ہو کر اس کو اپنا معبود برحق سمجھتا تھا اسی طرح بایزید بھی ابلیس کے شعبدے اور اس کی فریبی نورانی شکلوں کو دیکھ کر اس کو (معاذ اللہ) خدائے برتر سمجھ بیٹھا تھا۔ چنانچہ اسے یقین ہو چلا تھا کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے۔ اور وہ تصوف کے میدان میں آگے بڑھ کر اب خدا کا مقرب بندہ بن گیا ہے ۔ اس لیے یہ ملعون دجال دوسروں سے سوال کیا کرتا تھا کہ تم لوگ کلمہ شہادت اشھد ان لا الہ الا اللہ پڑھنے میں جھوٹے ہو کیونکہ جس نے خدا کو نہ دیکھا ہو وہ کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے کیونکہ جو خدا کو نہیں دیکھتا اس کو پہچانتا بھی نہیں۔( نعوذ باللہ من ذالک )

اس ملعون کذاب بایزید جالندھری کا مزید حال اگلی قسط میں ان شاءاللہ

Loading