Daily Roshni News

رب العالمیں ،دعا اور انسان۔۔۔تحریر۔۔۔محمد علی سید۔۔۔قسط نمبر2

رب العالمین

دعا  اور انسان

تحریر۔۔۔محمد علی سید

ہالینڈ(ڈیلی روشنی انٹرنیشنل ۔۔۔رب العالمیں ،دعا اور انسان۔۔۔تحریر۔۔۔محمد علی سید)دعا تعلیم کرنے والے کا بھی ایک حق ہے : بات شاید بے ربط سی محسوس ہو آپ کو، لیکن ایک خیال آیا۔ جی چاہتا ہے آپ کو بھی بتاؤں۔ دیکھئے ! اکثر دوست ایسے ہیں جو نماز کے بعد اللہ کے رسول صلی العلیم اور بزرگان دین کی تعلیم کردہ دعائیں پڑھتے ہیں۔ یہ دُعائیں ہماری حاجات کے پورا ہونے کی ضمانت کے ساتھ ساتھ علم اور معرفت کے ان مول، لازوال خزانے ہیں ۔ یہ خزانے ہمیں کتابوں میں نظر آتے ہیں تو ہم انہیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ ان کے ذریعے اپنے مسائل بھی حل کرتے ہیں اور معرفت پروردگار کی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں لیکن اکثر ان مہربان شخصیات کا شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں جنہوں نے علم و عرفان کے یہ خزانے ہمیں عطا کیے ہیں۔ اگر کوئی شخص ، مثلاً کوئی معالج ہمیں کسی لا علاج بیماری کا علاج بتادے ، کینسر کے لب دم مریض کو کوئی دوا کھلا کر اسے کینسر سے نجات دلا دے تو ایسا مریض ساری زندگی اسے یاد رکھے گا اور ہمیشہ اس کا شکریہ اداکرتا رہے گا۔

رسول اللہ ﷺ اور ان کے وارث آئمہ و اولیاء کی تعلیم کردہ دعائیں کفر و شرک جیسے سرطانوں کا علاج ، مایوسی اور غم و اندوہ سے نکلنے کا راستہ، دنیاوی مشکلات سے نکلنے کی راہ، امراض سے نجات کا ذریعہ ، دوزخ کے عذاب کے سامنے ڈھال، جنت الفردوس میں داخل ہونے کا راستہ اور آخرت کی زندگی کا کبھی نہ ختم ہونے والا سرمایہ ہیں۔

ان ہستیوں کی طرف متوجہ رہیں :جن پاکیزہ قلوب سے یہ خزانے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچے ہیں ، ان ہستیوں کا ہم شکرانہ تو ادا نہیں کر سکتے لیکن اس کے لیے کسی حد تک کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ مثلا دعا پڑھتے وقت انہیں ” آن بورڈ رکھیں، ان کی تعلیم کردہ دعا پڑھنے سے پہلے اور پڑھنے کے بعد ان کی خدمت میں کم از کم تین، پانچ سات یا گیارہ مرتبہ درود کا ہدیہ پیش کریں۔ اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے اور آخر میں درود پڑھنا چاہیے ۔ قرآن مجید کی عظیم رحمت و نعمت ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے ملی ہے۔ ہم جب بھی قرآن کھولیں ، محسن اعظم علیہ الصلوۃ والسلام کو یاد کریں اور ان کے لیے درود و سلام کا تحفہ ضرور بھیجیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت، اللہ جل شانہ تک پہنچنے کے دروازے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر دروازے پر اپنی پیشانی ملیں ۔ ہر دورازے سے درودم پڑھتے ہوئے داخل ہوں۔

باب 4

دعا کی درخواست اور ذمہ داریاں

دوسرے سے دُعا کی درخواست کرنا، اچھی بات ہے لیکن یہ درخواست اگر محض رسما اور لفظوں تک محمد و د ر ہے تو یہ ایک بے معنی درخواست ہو گی۔ التماس دعاء دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ یہ جملےبہت سے لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ۔ خصوصاً جب کوئی عزیز ، دوست حج و عمرے یا زیارات کے لیے جاتا ہے تو ہم اس سے کہتے ہیں کہ بھائی ! ان مقامات پر جائیں تو خاص لمحوں میں ، خاص کیفیتوں اور دعا قبول ہونے کے ان مقامات پر ہمیں یاد رکھیے گا۔ ان مقامات کے لیے لوگ عریضے بھی لکھتے ہیں۔یہ سب ، مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ ایسا ہونا چاہیے۔ ان مقامات پر دعائیں یقینا مستجاب ہوتی ہیں ۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ التماس دعا، دعا کی درخواست کرنے اور مقامات مقدسہ میں آئمہ ، اولیاح بزرگان دین کی خدمت میں عریضے ارسال کرنے کے بعد مجھ پر کئی ذمے داریاں بھی عائد ہو جاتی ہیں۔ وہ ذمے داریاں کیا ہیں ، اس کے بارے میں نہ کسی کتاب میں کچھ پڑھنے کو ملتا ہے اور نہ ہمارے منبروں سے اس موضوع پر بات کی جاتی ہے لیکن ہمیں ان باتوں پر غور کرنا چاہیے۔

میں بھی دوسروں کو دعا میں یاد رکھوں مثلاً میں کسی سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرتا ہوں تو میرا اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ میں بھی اس بھائی یا بہن کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھوں ۔ جس طرح میں اپنی مشکل، اپنی بیماری ، اپنے معاشی مسائل، مہنگائی اور اپنے بچوں کی بہتری کے لیے پریشان رہتا ہوں اس طرح وہ بھی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہو سکتا ہے۔ اب میں اس سے تو درخواست کروں کہ دعاؤں میں یاد رکھیے گا اور خود اسے اپنی دعاؤں میں بھول جاؤں تو بات بہرحال خود غرضی میں شمار ہو گی۔

جی ہاں۔ مجھے احساس ہے کہ ان باتوں کو پڑھ کرآپ کے ذہن میں کیا بات آئی ہے ….! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو بہت سارے دوستوں، خصوصاً علماء سے دعا کی درخواست کرتے ہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ کس کس سے کہا تھا۔ اب ان سب کو دعاؤں میں کیسے یادرکھیں !

یہ کام مشکل نہیں :آپ نے صحیح سوچا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن بہت آسان بھی ہے۔ ہم نے آئندہ صفحات پر ایک دعا کاتذکرہ کیا ہے۔ جسے ماہ رمضان میں روزانہ پڑھا جاتا ہے۔ یہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی دعا ہے اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ چھوٹی سی دعا ہے اگر اسے کسی نماز کے بعد روزانہ کتاب سے دیکھ کر پڑھا جائے تو چند ہی دنوں میں یہ دعا زبانی یاد ہو جاتی ہے۔ جب زبانی یاد ہو جائے تو پھر جب چاہیں یہ دعا کریں، یہ دعا اللہ سے مانگیں۔

امام محمد باقر سے کسی نے پوچھا کہ ”سب سے اچھی نماز کون سی ہوتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: جس کا قنوت زیادہ طویل ہو۔ (مفہوم)

قنوت میں دعائیں :عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ قنوت میں بس وہی دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں جو انہیں والدین نے بچپن میں سکھائی تھیں یا جو دعائیں مولانا صاحب جماعت کی نماز میں قنوت کے دوران پڑھتے ہیں۔ نماز با جماعت میں تو آپ امام صاحب کو فالو کر رہے ہوتے ہیں لیکن گھر میں پڑھی جانے والی دعاؤں میں تو وقت ہوتا ہے۔ قنوت میں بہت ساری دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ روزانہ نہیں پڑھ سکتے تو جب یاد آئے اور موقع ہو تو اس دعا کو پڑھیں۔

التماس دعا کی ایک ذمے داری ہمیں خود ہی اپنے او پر عائد کر لینا چاہیے۔ وہ یہ کہ جب کسی دوسرے بھائی سے دعا کی درخواست کریں تو خود بھی ذرا محتاط ہو جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ جب وہ مومن اپنی تنہائی میں نماز کے بعد آپ کے لیے دل سے دعا کر رہا ہو تو عین اسی وقت ہم اپنی تنہائی میں خود کسی گناہ کاارتکاب کر رہے ہوں۔

عریضے ارسال کرنے کے بعد :اس سے بڑھ کر حساس معاملہ ہمارے ان

عریضوں کا ہے جن کے لیے ہماری خواہش ہوتی ہے کہ زائر کسی طرح انہیں بار گاہ تک پہنچادے۔ اب عین اس وقت جب کہ میری درخواست دربار میں پہنچتی ہے میں کسی الٹے سیدھے کام میں مصروف ہوں تو یہ بڑی ندامت کی بات ہو گی۔ ایسے میں مجھے خود ہی تصور کرنا چاہیے کہ وہ میرے لیے دعا کریں گے یا میری

حالت زار پر افسوس۔انبیاء، آئمہ یا اولیاء کی خدمت میں عریضہ لکھنے کو معمولی بات نہ سمجھیں ۔ لکھا ہوا عریضہ تو ہارڈ کاپی ہوتا ہے۔ اس کی سوفٹ کاپی پہلے ہی اُن کے دربار میں پہنچ جاتی ہے۔ اب مجھے اور آپ کو حتی الامکان حالت حضوری میں ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ عریضہ بھیجاتھا …. اور اب مجھے محتاط رہنا ہے۔ہم عریضے بھی بھیجتے رہیں اور خود اپنی شخصیت، اپنے کردار و عمل میں کوئی مثبت تبدیلی نہ پیدا کریں تو سمجھ لیں کہ نہ ہم نے کوئی عریضہ بھیجا تھا اور نہ کوئی عریضہ کبھی وہاں موصول ہو ا تھا۔ نہ ہارڈ کاپی نہ سوفٹ کاپی …سب زنده یا سب مرده :میرے ایک جاننے والے ہیں ۔ انہوں نے اپنے گھر میں ایک جگہ نماز کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔ گھر میں ٹی وی چل رہا ہو تب بھی اس جگہ آواز نہیں آتی۔ آواز آئے تو وہ پنکھا تیز کر لیتے ہیں ۔ اس طرح وہ نماز کے دوران ٹی وی نشریات کی آلودگی سے بچے رہتے ہیں۔ میں اکثر ان کے پاس جاتا ہوں۔ ایک دن میں ان کے گھر گیا تو وہ اس کمرے میں تھے۔ انہوں نے مجھے بھی وہیں بلا لیا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں تنگ کی جگہ میں دو جانمازیں بچھی ہیں ، قرآن اور دعاؤں کی کتابوں کے ساتھ ساتھ سامنے ہی ایک موٹی سی نوٹ بک بھی رکھی ہوئی ہے۔

میں جہاں جاتا ہوں ، وہاں اگر کتا بیں موجود ہوں تو انہیں ٹٹولنا شروع کر دیتا ہوں۔ اتفاق سے میں نے اس نوٹ بک کو کتاب سمجھ کے اٹھا لیا اور فوراً ہی بند کر کے رکھ دیا۔ اس نوٹ بک میں بہت سارےنام لکھے ہوئے تھے۔

میں نے ان سے پوچھا۔ ” یہ اتنے سارے نام کس کے لکھے ہوئے ہیں ؟“ انہوں نے جو کچھ بتایا، اسے سن کر مجھے بہت اچھا لگا۔ انہوں نے کہا۔ ”دیکھو ! میرے ساتھ بہت سارے لوگوں نےنیکیاں کی ہیں ، بہت سے لوگوں کے احسان ہیں مجھ پر ، اب کچھ یہاں ہیں اور کچھ وہاں ہیں۔ یعنی کچھ زندہ ہیں اور کچھ انتقال کر چکے …. لیکن یہ زندہ مردہ کی تفریق تو ہمارے لیے ہے، اللہ کے سامنے تو سب زندہ ہیں یا سب مردہ۔“

اس جملے پر ہم نے ذرا پہلو بدلا تو وہ سمجھ گئے۔ ارے بھائی سب زندہ یا سب مردہ سے مراد یہ ہے کہ مومن یہاں ہو یا وہاں ، وہ زندہ ہوتا ہے۔ کافر یہاں ہو یا وہاں ، وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی دراصل مردہ ہوتا ہے۔ بہر حال میں نے ان لوگوں کے نام اس ڈائری میں لکھ لیے ہیں تاکہ دُعا کے وقت کسی کو بھول نہ جاؤں۔ انہوں نے زندگی کے اس سفر میں جگہ جگہ میری مدد کی ہے۔ تو میر افرض بنتا ہے کہ میں بھی ان کی نیکی کو یاد رکھوں ۔ اس ڈائری میں کچھ ناموں کا اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ کوئی میری مدد کرتا ہے۔ کبھی کچھ عزیز دوست، رشتے دار، ایسے ملتے ہیں جو مجھ سے دعاکے لیے کہتے ہیں تو میں گھر آکر ان کا نام اس ڈائری میں لکھ لیتا ہوں۔کبھی کبھی ہی سہی …

ہر نماز کے بعد نہ سہی، ہر روز نہ سہی، کم از کم شب جمعہ میں ان سب کے لیے ضرور دعا کرتا ہوں ۔ کبھی سب کا نام لینے کا وقت نہیں ملتا۔ سستی اور تھکن غالب آجاتی ہے۔ تو میں ایک عجیب بے بسی اور شرمندگی کے عالم میں اس ڈائری کو ہاتھ میں اٹھا لیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس ڈائری میں جن کے نام ہیں، محمد صلی الله یم اور آلِ محمد کے صدقے میں انہیں اپنی خوشنودی، خیر و برکت، صحت اور سلامتی عطا فرمادے۔“

بہت لوگ ہمارے بھی کام آئے ہوں گے اب اگر ہم اور آپ اپنی زندگی، اپنے شب و روز پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ کئی لوگوں نے ہمارے ساتھ بہت سی نیکیاں کی ہوں گی، ہمارے کام آئے ہوں گے ، ہماری سفارش کی ہو گی، کوئی راستہ دکھایا ہو گا، کسی مشکل میں ہمارے ساتھ آکھڑے ہوئے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی دعاؤں میں انہیں یاد رکھیں، روزانہ نہ سہی لیکن جب جس کی نیکی یاد آئے اسے اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں۔

بغیر بتائے ایک دوسرے کے لیے کی گئی دعائیں، دنیا میں بھی ایک دوسرے کے دل میں ، ایک دوسرے کے لیے انس و محبت پیدا کرتی ہیں ، ایک دوسرے کو، ایک دوسرے پر زیادہ مہربان کر دیتی ہیں ، آپس میں ایک دوسرے کے کام آنے کے جذبے کو زیادہ کرتی ہیں۔ اس عمل سے آخرت میں ہمیں جو حاصل ہو گا، اس کا تصور ہی کوئی نہیں کر سکتا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اپریل 2019

Loading