Daily Roshni News

روایات کی روشن کرنوں کے نئے زاویوں کے شناسا… ممتاز ادیب و افسانہ نگار اشفاق احمد کے ملفوظات

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )زمین پر انسان کے حاصلات میں افضل اور مفید ترین حاصل Achievement اس ماہ کی کتاب . کتاب ہے۔ کتاب ایسا بیش بہا خزانہ ہے جس کی بدولت انسان نے قدرت کے سربستہ رازوں کو کھولا اور ان پر پڑے پردے اُٹھا دیے۔ اسی کے ذریعہ مختلف دریافتیں ہوئیں۔ کتاب کی بدولت آج دنیا کی وسعتیں انسان کے سامنے سمٹ کر رہ گئی ہیں۔

اکیسویں صدی کی گلوبلائزڈ دنیا کی گہما گہمی میں انسان کا کتاب سے تعلق ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ملک و قوم کی ترقی کے لیے ذوق کتب بینی کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔

اس مقصد کے پیش نظر روحانی ڈائجسٹ میں ہر ماہ کا معیاری، کلاسک کتاب / کتب کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ روایات کی روشن کرنوں کے نئے زاویوں کے شناسا ممتاز ادیب و افسانہ نگار اشفاق احمد کے ملفوظات زاویہ پاکستان کے ایک نامور ادیب اشفاق احمد نے اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اشفاق احمد کی زیادہ تحریروں میں ناول، مختصر کہانیاں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لیے ڈرامے شامل ہیں۔ اشفاق احمد قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے ۔ افسانے ان کی شہرت کا باعث بنے، اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پرو گرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذو معنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا۔ یہ پرو گرام تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔ ستر کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈرامہ سیریز لکھی۔ اسی  کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ ادب اور نشریات کے میدان میں ان کی شاندار خدمات پر انہیں پرائیڈ آف پر فارمنس

اور ستارہ امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ اشفاق احمد نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا انہوں نے ایک خوب صورت شگفتہ نثر تخلیق کی جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ ایک عرصہ وہ پاکستان ٹیلی وژن پر زاویہ کے نام سے ایک علمی بیٹھک پر مشتمل پرو گرام کرتے رہے اس پروگرام میں اشفاق احمد اپنے مخصوص انداز میں بات چیت کرتے تھے ، وہ قصے اور کہانیاں سناتے اور حاضرین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات فراہم کرتے تھے۔ بعد میں تقریباً 90 اقساط پر مشتمل یہ پروا گرام زاویہ کتابی صورت میں تین جلدوں میں ترتیب دیا گیا۔  عالم اسلام میں صوفیوں کے مراکز کے مختلف نام ملتے ہیں، برصغیر پاک و ہند اور گرد و نواح میں فارسی لفظ خانقاہ رائج ہے، پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسے حجرہ ، ڈیرہ، ما نہڑی، مٹھ ، کئی وغیرہ کہا جاتا ہے۔ وسط ایشیائی زبان میں اسے تکیہ tekije کہتے ہیں۔ مشرق وسطی اور عرب ممالک میں انہیں رباط Ribat کہا جاتا ہے۔ مشرقی افریقہ میں یہ زاویہ zawiyya کے نام سے موجود ہیں۔ عربی زبان میں زولی کے معنی مڑنا، ایک طرف کو ہو جانا۔ زاویہ کا مطلب – ہے جہاں انسان گوشہ نشین ہو کر بیٹھ جائے۔ مسجد یا خانقاہ سے منسلک حجرہ کو عموماً زاویہ کہا جاتا ہے۔ اشفاق احمد زاویہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ڈیرے، یہ خانقاہیں یا جن کو تکیے کہہ لیں، یہ اسی مقصد کے لیے ہوتے ہیں کہ دل کا بوجھ جو آدمی سے خود اٹھائے نہیں اٹھتا ، وہ ان کے پاس لے جائے۔ اور ” بابے“ کے پاس جا کر آسانی سے سمجھ میں آنے کے لیے عرض کرے۔اشفاق صاحب کی تحریروں میں بابوں کا تذکرہ تواتر سے ملتا ہے، جس کے باعث اس لفظ کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ اپنی نشست میں بابا کا مطلب سادگی اور خوبصورتی سے سمجھاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”بابا وہ ہوتا ہے جو لینے کے بجائے دینے کے مقام پر ہو۔ بہت سی زبانوں میں باپ کے لیے بابا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ باپ کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ گھر کے اندر دینے والا ہوتا ہے ، لینے والا نہیں ہوتا۔“  زاویہ کی ان نشستوں میں اشفاق احمد نے متنوع موضوعات پر کلام کیا ہے۔ مختلف واقعات اور ذاتی تجربات کو سننے اور پڑھنے والوں کے سامنے اس منفرد انداز میں بیان کیا ہے جو ہمارے فکری جمود میں ارتعاش پیدا کرتا ہے ، ہمارے سوچنے کے انداز کو جھنجھوڑتا ہے اور ہمیں نئے زاویوں سے روشناس کرتا ہے۔

حقوق العباد پر اشفاق صاحب خصوصی طور پر زور دیتے ہیں۔ اپنی ایک نشست میں وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں اور بھی کام ہوتے ہیں، لیکن انسانوں سے متعلق جو کام ہوتا ہے ، اس کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ نا قابل برداشت ہوتا ہے، اٹھایا نہیں جاتا۔“

اشفاق احمد کا کہنا ہے کہ زندگی میں ہمیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہماری زندگی کا صرف ایک حصہ ہوتے ہیں، لیکن ہم اکثر ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے وہ پوری زندگی کے ساتھ جڑے ہوں۔ ہر مسئلے سے انفرادی طور پر نمٹنے کے بجائے ہم اکثر ایک مسلے کو لے کر اپنی زندگی کے ہر پہلو کو گڑ بڑ کر دیتے ہیں۔

بابا اشفاق کہتے ہیں کہ جب ہم دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو یہ اکثر ان جیسا بننے کی ہماری اپنی ادھوری خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔ تنقید اکثر ہمارے حسد کا مظہر ہوتی ہے کہ جو دوسروں نےحاصل کیا ہے وہ ہم حاصل نہیں کر سکے۔ اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ اگرچہ ہم اچھے لوگ ہیں لیکن ہم اکثر اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی تعریف کرنے میں کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شکریہ اور تعریف کا اظہار دوسروں کے لیے آپ کی حمایت کو ظاہر کرتا ہے اور انہیں اپنے اچھے کام کو جاری رکھنے کی ترغیب دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ ہم دوسرے لوگوں کی زندگی میں ان کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے انتقال کے بعد ہی ان کی تعریف اور پہچان پیش کرتے ہیں۔

اشفاق احمد بتاتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے عظیم الشان کام کرنے کی خواہش سے خود کو مغلوب کرنے کے بجائے ہمیں مہربانی کے چھوٹے کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔ کئی بار ہم غریبوں کے لیے ہسپتال بنانے یا یتیموں کے لیے اسکول کھولنے جیسا کوئی اہم کام کرنا چاہتے ہیں لیکن کام کی وسعت کی وجہ سے ہم حوصلہ کھو دیتے ہیں۔ اس کے بجائے ہم پہلا قدم اٹھائیں اور احسان کے چھوٹے کاموں سے شروع کریں۔ چھوٹے قدم کے ساتھ شروع کرنے سے جیسے کہ صرف ایک انسان کی مدد کرنے سے ہم بڑے مقاصد کے حصول کی طرف مزید قدم اٹھانے کے لیے تحریک اور ترغیب حاصل کر سکتے ہیں۔ مہربانی کے یہ چھوٹے چھوٹے اعمال ایک لہر کا اثر پیدا کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جس سے دنیا میں ایک مثبت تبدیلی آتی ہے۔

اشفاق احمد کہتے ہیں کہ لوگ اکثر اپنے ماحول اور بیرونی حالات کے بارے میں شکایت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی عوامل میں تبدیلی خود ان میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ تاہم یہ غلط سوچ ہے ، جیسے پرانی گاڑی کا صرف رنگ بدلنے سے یہ بہتر کام نہیں کرے گی۔ اسی طرح صرف باطن کی صفائی اور تطہیر ہی ہمارے حالات کو صحیح معنوں

میں بدل سکتی ہے۔اشفاق احمد کے مطابق مقابلے کا تصور جو ہمیں سکھایا جاتا ہے وہ ناقص ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مقابلہ تب ہی فائدہ مند ہے جب یہ تقویٰ کے لیے ہو۔ مسابقت کی کوئی بھی دوسری شکل ہماری اور دوسروں کی عزت نفس کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ پیغام ایک ایسے معاشرے میں بہت اہم ہےجہاں ہم اکثر اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں بشمول تعلیم، کیریئر اور یہاں تک کہ ذاتی تعلقات میں ایکدوسرے کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔یہ ایک یاد دہانی ہے کہ دوسروں کو دیکھتے رہنےکے بجائے اپنے آپ کو بہتر بنانے اور دوسروں کےساتھ حسن سلوک پر توجہ دی جائے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2023

Loading