رہنمائی کی تلاش
طلب اتنی طاقتور چیز ہے کہ وہ
خود راستے بنا لیتی ہے۔۔۔
انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی (آسٹریا)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو ز انٹرنیشنل ۔۔۔ رہنمائی کی تلاش۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد آفتاب سیفی عظیمی (آسٹریا) انسان کا سفر ضرورت سے جڑا ہوا ہے اورضرورت کا کمال یہ ہے کہ آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس کی وجہ ضرورت ہے۔ اگر چاند پر صبح کا نہانہ ہوتاتو اس کے بھی راستے بن جانے تھے ہم نے صبح اٹھ کر سب سے پہلے نہانے کے لیے چاند پر جاناتھا اور آنا ۔ انسا ن کبھی چلو میں پانی پیتا تھا جب تسلی نہ ہوئی تو اس نے گلاس بنا لیا ، اگر چلو سے گلاس تک کے سفر کو لیا جائے تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح انسان نے اپنی آسانی کےلیے اور بہت ساری اشیاء بنا لیں لیکن ان چیزوں کے ساتھ ساتھ انسان کو ہمیشہ رہنمائی کی ضرورت رہی ۔ قدرت نے ہر زمانے میں کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا کئے جن کافہم ، جن کی عقل ، جن کی سمجھ اور جن کی دانش زمانے سے بہتر تھی وہ اپنے فہم اور فکر میں اتنے بلند تھے کہ اس وقت کو بھی دیکھ رہے ہوتے تھے جس وقت کو زمانہ نہیں دیکھ رہا ہوتا تھا ۔ ہر دور میں ان کی سنگتیں ، ان کی محفلیں ، ان کی گفتگو اور ان کی تبلیغ لوگوں تک پہنچتی رہیں ۔ یہ سارا سلسلہ چلتے چلتے آگے بڑھا میٹریل چیزیں بنتی رہیں لیکن کبھی بھی اس چیز کی اہمیت ختم نہیں ہوئی کہ رہنمائی کیا ہے ، رہنما کیا ہے، استاد کیا ہے، مرشد کیا ہے اور مربی کیا ہے۔
جس طرح گلاس کے سفر پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اسی طرح رہنما اور رہنمائی کے سفر پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں کیو نکہ یہ انسان کا ذاتی سفر ہے اس سفر میں بے شمار چیزیں شامل ہوئیں جیسے کلچر ، مذہب ، علاقائی رسم و رواج ، لوگوں کے تجربات ، جہالت وغیر وغیرہ۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب بادشاہ وقت کو سجدہ لازم تھا لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ جس دور میں رسول پاکﷺ نے فرمایا:” (مفہوم) اگر تمہارے احترا م سے لوگ کھڑے ہو رہے ہیں اور تمہارے دل کو اس سے راحت محسوس ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ تم جہنمی ہو گئے” ۔ یہ سارے سیکھنے اور سکھانے کے انداز ، ادب کے ، تعلقات کے ، یہ چلتے چلتے جب اس دور میں آتےہیں تو معلومات اور علم کی اتنی بھر مار ہے کہ رہنمائی کے لیے دانشور استاد کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ۔
حضرت امام بن حنبلؒ ایک دفعہ سفر کر رہے تھے پیسے ختم ہو گئے تو سوچا کہ کسی مسجد میں جاکر رک جاتےہیں ، مسجد میں گئے رات کے پچھلے پہر میں مسجد کے رکھوالے نے انہیں باہر نکال دیا ، باہر بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہا آپ میرے ساتھ چلیں میرے گھر میں ٹھہر جائیں ، جب دونوں گھر چلے گئے توآپؒ نے دیکھا کہ وہ بندے مصلے پر بیٹھا گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہاہے جب وہ دعا سے فارغ ہوا تو آپ ؒ نے پوچھا تم کیا اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے تھے اس نے جواب دیا کہ میر ی بہت خواہشیں تھیں وہ سب اللہ تعالیٰ نے پوری کردیں بس ایک خواہش رہ گئی ہے جو آج تک پوری نہیں ہو ئی آپ ؒ نے پوچھا وہ کیا خواہش ہے اس نے کہا میری خواہش یہ تھی کہ وقت کے امام حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کبھی ان سے میر ی ملاقات ہو جائے ، آپؒ نے رو کر کہا کہ تمہاری طلب اتنی سچی تھی کہ گھسیٹ ک مجھے تمہارے تک لا دیا گیا ۔ یہ معاملہ جتنی سچی طلب سے جڑا ہوا ہے کسی اور چیز سے نہیں جڑا ۔ حضرت مولانا روم ؒ کلاس میں بیٹھے در س دے رہے ہوتےہیں پیچھے ان کی لکھی ہوئی کتابیں رکھی ہوتی ہیں اسی دوران ایک درویش آتا ہے اور کہتا ہے تم کیا پڑھا رہے ہو اور یہ کتابیں کیسی ہیں مولانا روم ؒ فرماتے باباجی چھوڑیں آپ کو کیا پتا یہ کیا ہے یہ صرف و نحو کی باتیں ہیں آپ جائیں ، درویش جلال میں آتا ہے اور کتابوں کو تلاب میں پھینک دیتا ہے جس سے کتابوں کی سیاہی پانی میں گھلنے لگ پڑتی ہے مولانا روم ؒ رونے لگ پڑے اور کہا آپ نے میری زندگی کی کمائی ضائع کر دی درویش نے کہا گھبراؤ نہیں ، انہوں نے پانی میں ہاتھ ڈالا خشک کتابیں جاڑیں اور واپس رکھ دیں مولانا رومؒ نے کہا یہ کیا ہے درویش نے جواب دیا تم صرف و نحو کی باتیں کرو یہ میرا کام تھا یہ کہہ کر درویش چل پڑا اور غائب ہوگیا ، مولانا روم ؒ اس درویش کو تلاش کرنے لگ پڑے یہاں تک کہ تین سال گزر گئے پھر جا کر کہیں وہ درویش ملے تو حضرت مولانا جلال الدینؒ پاؤں پڑ گئے اور کہا مجھے معافی دے دیں اور کہنے لگے کہ مجھے تین سال آپ کو تلاش کرنے میں لگ گئے درویش نے مڑ کر کہا تمہیں تو صرف تین سال لگے ہیں مجھے تمہارے جیسا سچا شاگرد تلاش کرنے میں تیس سال لگ گئے ہیں ۔ طلب اتنی طاقتور چیز ہے کہ وہ خود راستے بنا لیتی ہے۔
محمد آفتاب سیفی عظیمی
ویانا آسٹریا ۔