Daily Roshni News

زرینہ

زرینہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)شادی کے ایک ہی مہینے  بعد اگر بیوی گم ہو جاے تو میرا خیال ہے کہ انسان کی حالت بہت بری ہو جاتی ہے ایسا ہی ایک خاوند میرے پاس آیا جس کی بیوی شادی کے ایک مہینہ بعد گم ہو گٸ تھی

اس کے دل میں یقینأ غصہ بھی ہو گا لیکن اس کے چہرے پر اس وقت شرمندگی تھی وہ سوچتا ہو گا کہ سننے والے کیا کہیں گے کہ اس کی بیوی نے اس شخص کو اپنے قابل نہیں سمجھا تھا

میرے پاس تھانے میں جو آدمی رپورٹ دینے آے تھے ان میں ایک گم شدہ لڑکی کا خاوند ایک خاوند کا باپ اور لڑکی کا باپ تھا لڑکی کو لاپتہ ہوے دو روز گزر گیے تھے

لڑکی کی شادی اس کے خاوند کے ساتھ ایک میہنہ پہلے ہوٸی تھی وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ لڑکی اغوا ہوٸی ہے جب میں نے پوچھا کہ لڑکی کو کس نے اغوا کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ان کو یہ تو معلوم نہیں پر لڑکی اغوا ہی ہوٸی ہے میں نے کہا کہ آپ کو کسی پر شک تو ہو گا ؟

تب بھی انہوں نے کہا کہ شک بھی کسی پر نہیں ہے

وہ ایک گاوں تھا گاوں اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا اور اتنا بڑا بھی نہیں تھا زیادہ تر آبادی مسلمانوں کی تھی کچھ سکھ اور ہندو بھی اس گاوں میں آباد تھے

یہ لوگ جن کی بہو لاپتہ ہو گٸ تھی ایک مسلمان اور خوشحال زمیندار گھرانہ تھا لڑکی والے بھی انہی کے ٹکر کے لوگ تھے

میں نے لڑکی کے سسر سے پوچھا لڑکی لاپتہ کس طرح ہوٸی ہے ؟   تو انہوں نے بتایا کہ لڑکی کے سسرال کا مکان ایک کشادہ حویلی ہے صحن کی طرف دو برآمدے ہیں رات کو لڑکی جس کا نام زرینہ اور اس کا خاوند اقبال ایک برآمدے میں سوتے تھے گمشدگی کی رات بھی دونوں میاں بیوی اسی برآمدے میں سوے تھے

گھر کے باقی افراد دوسرے برآمدے میں سوتے تھے صبح منہ اندھیرے زرینہ کے سسر اور ساس اٹھے وہ روز اسی وقت اٹھا کرتے تھے اور بھینسوں کا دودھ دوہتے تھے اس روز بھی وہ منہ اندھیرے اٹھے تو دیکھا کہ ڈیوڑھی کا بڑا دروازہ کھلا ہوا تھا

ساس سسر کے سوا اتنی سویرے کوٸی اور نہیں اٹھا کرتا تھا سسر نے اندر جا کر دیکھا تو اس کی بہو زرینہ اپنے بستر پر نہیں تھی سسر نے اپنی بیوی کو بتایا انہوں نے کچھ وقت انتظار کیا لیکن زرینہ واپس نہ آٸی اور صبح ہو گٸ پھر سورج نکل آیا مگر زرینہ واپس نہ آٸی !

زرینہ کا میکہ گاوں ڈیرھ میل دور تھا وھاں جا کر پوچھا انہوں نے کہا زرینہ ادھر نہیں آٸی کسی کو بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جا کر زرنیہ کو ڈھونڈیں تین چار گھروں میں جا کر دیکھا وہ سارا دن انہوں نے زرنیہ کے انتظار میں گزار دیا مگر زرینہ واپس نہ آٸی

رات کو زرینہ کا باپ اور سسر اپنے پیر کے پاس چلے گیے پیر نے اپنا حساب کتاب دیکھا اور بتایا کہ لڑکی دور نکل گٸ ہے لیکن واپس آ جاے گی پر بہت زور لگانا پڑے گا بڑی سخت پڑھاٸی کرنی پڑے گی

پیر نے ان کو ایک مٹھی کالے ماش اس سے آدھی مقدار سفید نمک پسا ہوا ایک انڈہ اور کچھ اوٹ پٹانگ چیزیں لانے کو کہا وہ لوگ یہ ساری چیزیں اپنے پیر کو دے آے

پیر نے کہا کہ کل شام تک لڑکی خود اڑتی ہوٸی آے گی زرینہ کے باپ اور سسر نے پیر کو ڈبل نذرانہ پیش کیا اور اپنے پیر سے یہ بھی کہا کہ لڑکی اگر کل شام سے پہلے پہلے واپس آ جاے تو وہ پیر کی جھولی پیسوں سے بھر دیں گے زرینہ کے باپ نے پیر کو ایک بکرا دینے کا بھی وعدہ کیا

ان لوگوں نے زرینہ کی گمشدگی کو چھپانے کی بہت کوشش کی لیکن دیہاتوں میں کسی کا پردہ نہیں رہ سکتا !

گاوں کے ایک سکھ کو بھی پتہ چلا گیا کہ یہ لوگ لڑکی کی واپسی کے لیے پیر کے پاس گیے تھے سکھ نے ان لوگوں کو کہا اوے بیوقوفو  پولیس کو بتاو یہ پیر لوگ لڑکیاں اغوا تو کرا سکتے ہیں مگر اغوا ہو جانے والی لڑکی واپس نہیں لا سکتے !

سکھ نے ان کی عقل کے دروازے کھولے تو یہ لوگ میرے پاس تھانے آ گیے

میں نے ان سے پوچھا کیا لڑکی گھر سے کچھ لے کر گٸ ہے کوٸی زیور یا روپیہ پیسہ وغیرہ ؟

سسر نے کہا وہ کچھ بھی لے کر نہیں گٸ ہم نے سب کچھ دیکھ لیا ہے سب کچھ اپنی جگہ پر موجود ہے اسی لیے تو ہم کہہ رہے ہیں کہ اس کو کسی نے اغوا کیا ہے

میں نے پوچھا آپ کی کسی کے ساتھ کوٸی بھی کسی قسم بھی دشمنی ہے ؟

سسر نے کہا نہیں جی !  چھوٹے موٹے لڑاٸی جھگڑے تو ہو ہی جاتے ہیں پر قتل اور اغوا والی دشمنی کسی کے ساتھ نہیں ہے میں نے زرینہ کے خاوند سے کہا تم بتاو تم سوے تھے مرے ہوے تو نہیں تھے اغوا کاروں نے جب لڑکی کو اٹھایا ہو گا تو لڑکی نے زرا سی آواز تو نکالی ہو گی

وہ زندہ سلامت ایک لڑکی تھی کوٸی لکڑی تو نہیں تھی کہ کوٸی آیااور اٹھاکر لے گیا

خاوند نے کہا مجھ کو کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس طرح گٸ میں نے کہا تو پھر میں تم سب کو یہ بتا دوں کہ لڑکی اغوا نہیں ہوٸی وہ خود گٸ ہے اگر میں تم لوگوں سے یہ پوچھوں کہ لڑکی کا چال چلن کیسا تھا تو تم سب یہی کہو گے کہ وہ پاک صاف لڑکی تھی اب تم بتاو تم میں سے سچ کون بولے گا میں نے تینوں کی طرف دیکھا لیکن کسی نے بھی کوٸی جواب نہ دیا

پھر زرینہ کا سسر بولا جناب !  ہم تو یہی کہیں گے کہ لڑکی ایسی نہیں تھی وہ تو بلکل چپ چاپ سی لڑکی تھی آپ بے شک کسی اور سے پوچھ لیں

انہوں نے دو دن ضایع کر دٸیے تھے اس لیے یہ معلوم کرنا ناممکن ہو گیا تھا کہ لڑکی خود گٸ ہے یا اٹھاٸی گٸ ہے

میں نے زرینہ کے سسر سے کہا تم نے اپنے پیر کو بتایا نہیں کہ لڑکی شام تک واپس نہیں آٸی ؟

زرینہ کے سسر نے کہا بتایا تھا جی !  پیر جی کہتے ہیں کہ لڑکی پر بڑے ہی سخت تعویز کیے گیے ہیں واپس آ جاے گی مگر بہت دن لگ جاییں گے

میں زرینہ کے سسر خاوند اور باپ کے ساتھ زرینہ کے سسرال چلا گیا گھر کے اندر برآمدے میں وہ جگہ دیکھی جہاں لڑکی سوٸی ہوٸی تھی اس کے خاوند کی چارپاٸی اس کی چارپاٸی کے ساتھ ملی ہوٸی تھی باہر کی دیوار اتنی اونچی تھی کہ کوٸی ادھر سے اندر نہیں آ سکتا تھا چھت کی طرف سے بھی آنا مشکل تھا

میں نے مکان کو بڑی اچھی طرح دیکھا اور مجھ کو یہی ایک بات سمجھ میں آتی تھی کہ لڑکی خود گٸ ہے

ایک شک اور بھی میرے دماغ میں آیا کہ لڑکی کے خاوند نے کسی وجہ سے لڑکی کو قتل کر دیا ہو گا اور لاش کہیں پھینک آیا ہو گا لیکن یہ شک کچھ کچا سا معلوم ہوتا تھا کیونکہ اگر لڑکی کے خاوند نے اس کو قتل کیا ہوتا اور لاش کہیں پھینک آیا ہوتا تو لاش اب تک کسی نہ کسی کو نظر آ ہی جاتی !

البتہ یہ ہو سکتا تھا کہ اس نے لاش کو کہیں دفن کر دیا ہو زرینہ کے خاوند پر شک اس لیے بھی تھا کہ وہ بلکل چپ تھا اس کا باپ ہی بولتا تھا ہر سوال کا جواب بھی وہی دے رہا تھا

زرینہ کے سسر نے مجھ کو کہا جناب میرے ناقص دماغ میں ایک بات آ رہی ہے وہ یہ کہ لڑکی اگر خود جاتی تو پیسے اور زیور بھی ضرور ساتھ لے جاتی !

میں نے کہا میں اس کو ضروری نہیں سمجھتا ہو سکتا ہے کہ لڑکی کا یارانہ کسی ایسے آدمی کے ساتھ ہو جس کو روپے پیسے کی ضرورت نہ ہو

میں نے زرینہ کے خاوند کو الگ کر کے کہا کہ وہ خود مجھ کو بتاے گا یا میں پہلے دوسروں سے پوچھوں کہ یہ کیا  معاملہ ہے اس نے جو جواب دیا اس سے میری تسلی نہ ہوٸی بلکہ شک اور گہرا ہو گیا….

……………..

مکمل کہانی میری صفحہ پر اپلوڈ کی جائے گی۔

مجھے فالو کریں اور فوری نوٹیفکیشن کے لیے دوست بھیجیں۔ Asif line’s

Loading