Daily Roshni News

زمین پہ زندگی کی کہانی۔۔۔تحریر۔۔۔ساجد محمود

زمین پہ زندگی کی کہانی

ستارےکی موت

تحریر۔۔۔ساجد محمود

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ زمین پہ زندگی کی کہانی۔۔۔ تحریر۔۔۔ساجد محمود)ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دیو ہیکل ستارہ مر رہا تھا۔ لاکھوں کروڑوں سالوں تک جلتے رہنے کے بعد اب اس کے مرکز میں موجود فیوژن کی بھٹی ( Fusion Furnace) میں جلنے کے لیے مزید ایندھن نہیں بچا تھا۔  ستارے نے ہائیڈروجن ایٹموں کو فیوز (کمبائن combine) کرکے ہیلیم بنائی اور چمکنے کے لیے درکار توانائی پیدا کی۔

فیوژن سے پیدا ہونے والی توانائی نے ستارے کو تو چمکایا مگر ایندھن کو یوں دونوں ہاتھوں سے خرچنے کا ایک نقصان بھی ہوا۔ یہ انرجی ستارے کی اپنی کشش ثقل (Gravity) کی اندرونی کھینچ (pull) کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت ضروری تھی۔ جب دستیاب ہائیڈروجن کی سپلائی کم ہونے لگی تو ستارے نے ہیلیم کو کاربن اور آکسیجن جیسے بھاری عناصر کے ایٹموں میں فیوز کرنا شروع کر دیا۔ تب تک، ستارہ ایندھن میں استعمال ہونے والی چیزیں مسلسل استعمال کے باعث ختم کر بیٹھا تھا۔

وہ دن آ گیا جب ایندھن مکمل طور پر ختم ہو گیا۔  کشش ثقل نے جنگ جیت لی: ستارہ پھٹ گیا۔ لاکھوں کروڑوں سالوں تک جلتے رہنے کے بعد، اس انہدام نے بس سیکنڈ کا ہزارواں حصہ ہی لیا تھا۔ اس نے اس قدر دھماکہ خیز ریباؤنڈ پیدا کیا جس نے کائنات کو روشن کر دیا — یہ ایک سپرنووا نظارہ تھا۔

اس ستارے کے اپنے سیاروں کے نظام میں اگر زندگی کی کوئی قسم رہی بھی ہو گی تو اس دھماکے کے بعد وہ  ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اس ستارے کی موت کی وجہ بننے والی اس ہولناک تباہی نے ایک نئی چیز کے بیج بو دیئے۔ ستارے کی زندگی کے آخری لمحات میں کچھ مزید بھاری کیمیائی عناصر — سیلیکون، نکل، سلفر اور آئرن — بنے، جو اس دھماکے سے دور دور تک پھیل گئے۔

لاکھوں سال بعد، سپرنووا دھماکے کی گریویٹیشنل شاک ویو

(Gravitational shock wave)

 گیس، دھول اور برف کے ایک بادل (نیبولا) سے گزری۔ گریویٹیشنل شاک ویو کے کھنچاؤ (pull) اور دباؤ نے بادل کو اپنے ہی مرکز میں سکڑنے پر مجبور کر دیا۔  جیسے جیسے یہ سکڑتا گیا یہ گھومنا شروع ہو گیا۔  کشش ثقل کی کشش نے بادل کے مرکز میں گیس کو اتنا سکیڑ دیا کہ ایٹم آپس میں ملنا شروع ہو گئے۔

 ہائیڈروجن کے ایٹموں پہ موجود دباؤ سے، وہ ہیلیم میں فیوز ہو گئے، اور پھر بہت زیادہ روشنی اور حرارت پیدا ہوئی۔ ستارے کا لائف سائیکل مکمل ہو چکا تھا۔  ایک قدیم ستارے کی موت سے ایک اور، تروتازہ اور نیا ستارہ ابھرا — ہمارا سورج۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوسٹ کے تناظر میں ایک نوٹ:

ستارے ایک مخصوص عمل کے ذریعے چمکتے ہیں جسے نیوکلیئر فیوژن کہتے ہیں۔

ستاروں میں نیو کلیئر فیوژن کیسے ہوتا ہے؟

 ستاروں کی کور یعنی مرکز میں، ہائیڈروجن ایٹم مل کر ہیلیم بناتے ہیں، جس کے نتیجے میں روشنی اور حرارت کی شکل میں بہت زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ روشنی اور حرارت کی صورت میں توانائی کا یہی اخراج ستاروں کو آسمان میں چمکتا دکھاتا ہے۔

(جاری ہے)

#ساجد_محمود

#علم #سائنس #زمین #جیولوجی #بائیولوجی #زندگی

Loading