Daily Roshni News

زمین پہ زندگی کی کہانی۔۔۔ تحریر۔۔۔ساجد محمود

زمین پہ زندگی کی کہانی

تحریر۔۔۔ساجد محمود

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ زمین پہ زندگی کی کہانی۔۔۔ تحریر۔۔۔ساجد محمود)زمین کی کہانی میں پہلے دو ارب سالوں تک، زندگی کی سب سے نفیس (ترقی یافتہ) شکل جراثیمی خلیوں (bacterial cells) پہ مشتمل تھی۔

بیکٹیریل خلیے بہت سادہ ہوتے ہیں۔ خواہ وہ اکیلے ہوں یا سمندری فرش پہ ایک چادر کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر کالونیوں کی شکل میں یا پھر سائنو بیکٹیریا کی طرح لمبے دھاگوں یا ریشوں کی صورت۔  ان میں سے ہر ایک، اپنی ذات میں ایک بہت ہی چھوٹی چیز ہوتا ہے۔  ایک سوئی کے سرے پر اتنے بیکٹیریا موجود ہو سکتے ہیں جتنے کہ انڈیا اور پاکستان کے بیچ ٹی ٹونٹی میچ کو دیکھنے آنے والے تماشائی — اور پھر بھی کچھ جگہ خالی بچ سکتی ہے۔

ایک خوردبین (microscope) کے نیچے، بیکٹیریل خلیے سادہ اور غیر واضح سی شکل و صورت والے دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن یہ سادگی فریب ہے۔

اپنی عادات اور ماحول کے لحاظ سے، بیکٹیریا انتہائی موافقت پذیر (highly adaptable) ہوتے ہیں۔  وہ تقریباً کہیں بھی رہ لیتے ہیں۔

ایک انسانی جسم میں بیکٹیریل خلیوں کی تعداد اسی جسم میں انسانی خلیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔  اس حقیقت سے قطع نظر کہ کچھ بیکٹیریا سنگین بیماریوں کا باعث بھی بنتے ہیں، ہم ان بیکٹیریا کی مدد لئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ خاص طور پہ وہ بیکٹیریا جو ہماری آنتوں میں رہتے ہیں اور ہمیں اپنا کھانا ہضم کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

انسانی جسم کا اندرونی حصہ اپنے اندر تیزابیت اور درجہ حرارت وغیرہ میں واضح اور بڑے فرق کے باوجود، بیکٹیریا کی زبان میں، ایک جنت نما جگہ کہلاتا ہے۔ ایسے بیکٹیریا بھی ہوتے ہیں جن کے لیے ابلتی کیتلی کا درجہ حرارت، سخت سردی کے دن کی گنگنی دھوپ جیسا ہوتا ہے۔  ایسے بیکٹیریا بھی موجود ہیں جو خام تیل پر، اور ایسے مائع (solvents) پر پروان چڑھتے ہیں جو انسانوں میں کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ اور کچھ بیکٹیریا تو جوہری فضلے (nuclear waste) میں بھی نمو پاتے ملیں گے۔  ایسے بیکٹیریا بھی موجود ہیں جو خلا میں، یا پھر درجہ حرارت یا دباؤ (پریشر) کی شدید ترین انتہاؤں پہ، اور نمک کے دانے کے اندر دفن رہ جانے کے بعد بھی زندہ رہ سکتے ہیں—– اور وہ لاکھوں سالوں تک ایسا کرسکتے ہیں۔

بیکٹیریل سیلز بہت زیادہ چھوٹے ہونے کے باوجود بہت زیادہ سوشل ہوتے ہیں۔ بیکٹیریا کی مختلف  اقسام بارٹر سسٹم کے تحت مختلف کیمیکلز کا لین دین کرنے کے لیے اکٹھے ہو جایا کرتی ہیں۔  ایک سپیشیز کی ناقابل استعمال یا مسترد شدہ مصنوعات (waste products) دوسری سپیشیز کے لیے کھانے کا کام دے سکتی ہیں۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا، زمین پر زندگی کی پہلی نظر آنے والی علامت — یعنی سٹرومیٹولائیٹس (stromatolites)، مختلف قسم کے بیکٹیریا کی کالونیاں تھیں جو مل جل کر رہ رہے تھے۔

یہاں تک کہ بیکٹیریا ایک دوسرے کے ساتھ اپنے جینیاتی میٹیریل (genetic material) کے کچھ حصوں کا تبادلہ بھی کر سکتے ہیں۔  یہی وہ آسان تجارت (یعنی جینیاتی میٹیریل کے کچھ حصوں کا آپس میں تبادلہ) ہے، جس کے نتیجے میں آج بیکٹیریا بہت سی جراثیم کش ادویات (antibiotics) کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے میں بتدریج کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اگر کسی جراثیم کے پاس کسی خاص اینٹی بائیوٹک کے لیے مزاحمتی جین موجود نہیں ہے تو وہ اسے، آسان جینیاتی تجارت کے تحت، اپنی رہائش کے قریب موجود کسی دوسری سپیشیز کے بیکٹیریا سے لے سکتا ہے۔

بیکٹیریا کا رجحان مل جل کر مختلف سپیشیز پہ مشتمل برادریوں/کالونیوں کو تشکیل دینے کی طرف تھا۔ اس چیز نے اگلی عظیم ارتقائی جدت (evolutionary innovation) کو جنم دیا۔

بیکٹیریا، گروپ کی زندگی (group-life) کو اگلے درجے تک لے گئے۔۔۔۔

یعنی نیوکلیئیٹڈ سیل (nucleated cell)۔

#سپیشل_نوٹ: جو لوگ بائیولوجی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے یا اس سلسلے کو صرف ایک کہانی کی طرح ہی پڑھنا چاہتے ہیں وہ خود کو نیچے دی گئی پہلی اصطلاح، “بیکٹیریل سیلز” کی تشریح کے صرف پہلے فقرے تک محدود رکھ سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصطلاحات کی تشریح:

بیکٹیریل سیلز/Bacterial cells: بیکٹیریل سیلز سادہ، یک خلوی (unicellular)، خوردبینی جاندار ہیں جن میں نیوکلیئس نہیں ہوتا۔  یہ ایک خلیاتی جھلی (cell membrane)، سائٹوپلازم (cytoplasm)، ڈی این اے (DNA) اور رائبوزومز (ribosomes) پر مشتمل ہوتے ہیں، جو مختلف ماحول میں مختلف اشکال اور سائز میں پائے جاتے ہیں۔

سائٹوپلازم/Cytoplasm: اسے ہم خلیے کا کچن بھی کہہ سکتے ہیں۔ سائٹوپلازم، خلیے کے اندر جیل کی طرح کا مادہ ہے۔ یہ پانی، لحمیات/پروٹین، نمکیات اور دیگر مالیکیولز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ خلیاتی ڈھانچے کو سہارا دینے، کیمیائی تعاملات میں مدد فراہم کرنے اور خلیے کے اندر مواد کی نقل و حمل (transportation) میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ڈی این اے/DNA:

Deoxyribonucleic acid

یہ ایک مالیکیول ہے جس میں تمام جانداروں اور بہت سے وائرسوں کی نشوونما، کام کرنے، بڑھوتری (growth)، اور تولید (reproduction) کے لیے جینیاتی ہدایات (genetic instructions) شامل ہیں۔ ڈی این اے موروثی معلومات (hereditary information) کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔

رائبوزومز/Ribosomes: اگر ہم کچن کی زبان میں بات کریں تو رائبوزومز، خلیے کے کچن میں موجود چھوٹے چھوٹے ماہر باورچی ہیں جو پروٹین بنانے کے لیے کچھ خاص ترکیبوں/ریسیپیز، (یعنی میسینجر آر این اے mRNA)، کو فالو کرتے ہیں۔ جو کہ خلیے کی عمارت کے بلڈنگ بلاکس کی طرح ہوتے ہیں۔  یہ ماہر باورچی پروٹین نام کی ڈش کو پکانے کے لیے امینو ایسڈز (amino acids) نامی اجزاء (ingredients) استعمال کرتے ہیں۔

پروٹین/Protein: پروٹین چھوٹے چھوٹے کارکنوں (workers) کی طرح ہوتے ہیں جو ہمارے جسم میں بہت سے اہم کام کرتے ہیں۔  یہ امینو ایسڈز سے بنتے ہیں۔  پروٹین ہمارے جسم کی نشوونما، ٹشوز کی مرمت، جراثیموں سے لڑنے اور ہمیں صحت مند رکھنے کے لیے دیگر اہم کاموں کو انجام دینے میں مدد کرتے ہیں۔  آپ گوشت، پھلیاں، گری دار میوے اور انڈے جیسی چیزوں میں پروٹین پا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

پہلی قسط

https://www.facebook.com/share/p/Rx3F8Lr8Fk9XMTwU/?mibextid=oFDknk

دوسری قسط

https://www.facebook.com/share/p/4cfEiDsj5vjzsMdf/?mibextid=oFDknk

تیسری قسط

https://www.facebook.com/share/p/fpvJAN6ByYnY4Rcy/?mibextid=oFDknk

چوتھی قسط

https://www.facebook.com/share/p/S1ymgg5Ra4dRavN5/?mibextid=oFDknk

پانچویں قسط

https://www.facebook.com/share/p/xijJXk5w71bxGVup/?mibextid=oFDknk

چھٹی قسط

https://www.facebook.com/share/p/84WPWQw1arepAyPG/?mibextid=oFDknk

ساتویں قسط

https://www.facebook.com/share/p/3W1u8vu5GYnS6zAz/?mibextid=oFDknk

#ساجد_محمود

#علم #سائنس #زندگی #زمین #جراثیم #بیکٹیریا #بائیولوجی #جیولوجی

Loading