Daily Roshni News

‏زندگی کی قیمت۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

‏زندگی کی قیمت

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔‏زندگی کی قیمت۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )انسان امیر ہو یا غریب اس کی زندگی انمول ہوتی ہے۔محاورہ ہے جان ہے تو جہان ہے۔غربت اور مسائل ہوں یا امارت اور عیش سب انسان کی آخری سانس کے ساتھ یہیں رہ جاتے ہیں۔خواہ یونانی ساحل پر ڈوبنے والے غریب ہوں یا ٹائٹین سب میرین کے مسافر ارب پتی شہزادہ داؤد  ان کے بیٹے اور دیگر بزنس مین۔سب اپنے خاندان کے اہم اور پیارے رکن تھے۔

      ہمارا خاندان ہمیں پیسے کے ترازو میں نہیں تولتا بلکہ ان کے ساتھ ہمارا تعلق دل کا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جیسے بوٹ کے سواروں کے اہل خانہ دکھی ہیں ویسے ہی شہزادہ داود کے ہیں۔

اولپر اور ترنگ دودھ کے مالک سیٹھ داؤد کے بیٹے شہزادہ داؤد 1975 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے 1998 میں بکھنگم یونیورسٹی سے LLB کیا وہ اینگرو کارپوریشن کے وائس چئیرمین تھے۔ داؤد فاونڈیشن کے تحت پاکستان میں تعلیم سے محروم بچوں کی پڑھائی کا بندوبست کرتے تھے اور لاتعداد اسپتالوں میں ان کی خدمات پیش پیش تھیں۔ کراچی میں دو کمپنیاں جن میں تقریباً چھ ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔ 860 ملین ڈالر 2020 میں صرف ایک کمپنی کی آمدن تھی۔ یعنی انہوں نےکئی پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر رکھے تھے۔ پاکستان میں کاروبار کر رہے تھے۔ چھوڑ چھاڑ کر بھاگے نہیں تھے اس لیے جیسے ہم ہیں ویسے وہ بھی پاکستانی ہی تھے۔ پاسپورٹ بھی پاکستانی ہی تھا۔

     شہزادہ داؤد ایک امیر بزنس مین والد تھے اور ہر والد کی طرح اپنی اولاد کی خواہشات پوری کرنے کے لیے کوشاں تھے۔یہی وجہ ہے کہ اڑھائی لاکھ ڈالر ادا کر کے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ٹائیٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے گئے۔بدقسمتی سے اس سب میرین کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا اور یہ لاپتہ ہو گئی۔اگرچہ

امریکا اور کینیڈا کے حکام نے آبدوز کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ناکامی کے بعد ان مسافروں کو مردہ قرار دے دیا۔

     یونان کے ساحل پر ڈوبنے والوں کی خبر کے ساتھ جب شہزادہ داود کے موت کی خبر چینلز پر چلی تو پاکستانیوں کے دماغ کا کیڑا بیدار ہو گیا اور وہ بوٹ کے مسافروں کی غربت اور شہزادہ کی امارت کا موازنہ کر کے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگے کہ شہزادہ داؤد کی موت بوٹ کے مسافروں کی موت سے کمتر تھی۔وہ اسی کے مستحق تھے کیونکہ انہوں نے پانچ لاکھ ڈالر اپنے بیٹے کی خواہش کی نذر کر دئیے۔جب کہ انہیں یہ پیسہ غریبوں کی مدد پر خرچ کرنا چاہیے تھا۔

     باپ امیر ہو یا غریب اپنی اولادکو مقدور بھر دنیاوی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر ایک امیر شخص اپنی محنت سے یا وراثت کی وجہ سے امیر ہے تو دولت اس کی ذاتی ملکیت ہے وہ اسے خرچ کرنے سے پہلے کسی کی اجازت کا محتاج ہے نہ ہی کسی کو جوابدہ۔جس ملک میں وہ مقیم تھے اور جس ملک میں وہ سفر کر رہے تھے دونوں پاکستان کے برعکس ٹیکس کی ادائیگی کے معاملے میں امیروں کے لیے کچھ زیادہ سخت قوانین رکھتے ہیں۔اس لیے یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ ان کی آمدنی حلال نہیں تھی۔

    دوسرے یہ اللہ تعالٰی کی تقسیم ہے کہ اس نے کچھ لوگوں کو غریب اور کچھ کو امیر بنایا ہے۔اس پر کڑھنے جلنے اور حسد کرنے کی بجائے دعا کا حکم ہے کہ اللہ تعالٰی مجھے بھی اس شخص کی طرح رحمت سے نواز نہ کہ یہ بد دعا کرنے کا کہ اللہ تو نے مجھے نہیں دیا تو ان سے بھی چھین لے۔جب کہ ہمارے ہاں عمومی رویہ دوسری قسم کا ہی ہوتا ہے۔

     شہزادہ داود نے تو اپنی جیب سے ذاتی رقم لگا کر ایک تفریح کرنی چاہی لیکن ان غریبوں نے تو ادھار لے کر اور زمین جائیداد بیچ کر جمع پونجی لٹائی۔لیکن مقدر دونوں فریقین کا موت ہی ٹھہری۔اصل بات یہ ہے کہ یہ سب  پیسے دے کر وہاں پہنچے جہاں ان کی موت لکھی تھی۔بالکل ویسے ہی جیسے حدیث میں اس شخص کا قصہ مذکور ہے جس کہ موت ہندوستان میں لکھی تھی جب کہ وہ سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر تھا۔نہ شہزادہ داؤد کی دولت نہ ان کے تعلقات انہیں بچا سکے نہ ہی بوٹ کے مسافروں کی بے چارگی ان کے کام آئی۔

    ان دونوں حادثات میں ہمارے لیے کچھ اسباق ہیں کہ ہمیں کسی پر جج مقرر نہیں کیا گیا نہ ہی ہم کسی کے دل کا حال جانتے ہیں اس لیے دوسروں کے بارے میں جانے بغیر ججمنٹ پاس کرنے سے گریز ہی بہتر ہوتا ہے۔کوئی بھی حرام طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کا نتیجہ برا ہی نکلتا ہے اس لیے ہمیشہ حلال کو ترجیح دینی چاہیے۔والدین اگر کسی کام سے منع کریں تو وہ کبھی بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ دنیا کو ہم سے بہتر جانتے ہیں اور تجربہ کار ہوتے ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ کوئی امیر ہے تو وہ حرام ہی کھاتا ہو گا اور کسی قسم کا صدقہ خیرات نہیں کرتا ہو گا۔

    اللہ کی رضا میں راضی رہنے میں ہی سکون ہے۔اللہ تعالٰی نے جو رزق انسان کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس سے کوئی چھین نہیں سکتا اور جو نہیں لکھا وہ کوئی اسے دے نہیں سکتا۔اللہ تعالٰی اپنے ملک میں بھی رزاق ہے اور کسی اور ملک میں بھی وہی روزی دیتا ہے۔اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ کے لالچ میں آ کر تھوڑی بھی نہ گنوائیں۔دعا اور کوشش تقدیر بدل سکتی ہیں اس لیے دونوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

Loading