Daily Roshni News

سردی رے سردی۔۔۔تحریر۔۔۔اظہر عزمی

سردی رے سردی

ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں         

پرانے سوئیٹر اور شال پر نوک جھونک

تحریر ۔۔۔۔اظہر عزمی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔سردی رے سردی۔۔۔تحریر۔۔۔اظہر عزمی)اب زمانہ بدل رہا ہے  ۔ ہاتھ سے بنے سوئیٹرز خواب و خیال ہو گئے مگر ان سے جڑی باتیں ہمیشہ مزا دیتی رہیں گی ۔ اولڈ کراچی کے ماں باپ کی پر مزاح ، محبت میں بھری نوک جھونک کا ایک ایک جملہ آپ کو سنا سنا لگے گا ۔

ماں : سنیں ! اب آپ کی عمر وہ نہیں رہی کہ ایک شرٹ میں باہر نکل گئے ۔ سوئیٹر پہن لیا کریں ۔ ہوا لگ جائے گی ۔

باپ : ( ٹھنڈی آہ بھر کر ) وہ دن ہوا ہوئے جب ہوا لگا کرتی تھی ۔ ویسے بھی ابھی ایسی سردی کہاں آئی ہے ۔

ماں : ہاں تو اب آپ کو ٹیلی گرام آئے گا سردی کا کہ میں آگئی ہوں سوئیٹر نکال لیں ۔

باپ : ارے سوئیٹر پر یاد آیا وہ میرا ہاف آستین کا میرون رنگ کا سوئیٹر کہاں ہے ؟

ماں : ( ہنستے ہوئے) وہ تو دو سردی پہلے محروم ہو چکا ہے ۔ویسے ایک بات بتائیں ۔ اس کی سلور جوبلی منانی تھی کیا ؟

باپ : ( یاد کرتے ہوئے ) بڑی یادیں وابستہ اور پیوستہ تھیں اس سوئیٹر کے ساتھ ۔ وہ کسی کا کہنا کہ آپ پر یہ بہت اچھا لگتا ہے ۔

ماں : ( حیرت سے ) اچھا ۔۔۔ یہ کس نے کہہ دیا بھلا ؟

باپ : ( اشارہ کرتے ہوئے ) وہ جو سامنے بیٹھی ہیں ۔

ماں : ( سمجھ جاتی ہیں ) ایسی پاگل تو میں کبھی نہ تھی ۔

باپ : اچھا ۔۔۔ ایک دن وہ جو میری نظر اتاری تھی اس سوئیٹر میں ۔

ماں : آپ ناں ، بادام کھایا کریں ۔ میرا دماغ نہیں خراب تھا جو آپ کی نظر اتارتی ۔ اور ہمارے ابا نے جو شادی کی پہلی سالگرہ پر آپ کو فل آستین کا سوئیٹر دیا تھا ۔ اس کا کوئی ذکر نہیں ۔

باپ : ( کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ) اس کی آستینیں دیکھی تھیں ۔ آستین کے سانپ ایسی ہی آستینوں میں پلتے ہیں ۔ ایک سال میں جھونگدا سا ہو گیا تھا ۔ اماں کہتی تھیں ۔ یہ نہ پہنا کر جھو جھو منیاں لگے ہے ۔

ماں : ہاں تو اس شال کا بھی اب سن لیں جو جہیز میں ملی تھی ۔ پہلے سال بر نکل آیا تھا ۔ پہنتی تو پورے کپڑوں اور سر میں لگ جاتا ۔ ہماری اماں نے بھی کہا تھا ۔ اے بی بی تمھارا ساس نے کیا اپنے جہیز کی شال دے دی ۔

باپ : چلیں دی تو شال ہی تھی ۔۔۔ اور وہ جو تمھارے ابا نے ایک دفعہ سردیوں میں مچھلی کی دعوت کی تھی ۔ فنگر فش کے نام پر اللہ جانے کیا الا بلا کھلا دیا ۔ الٹی آئے جا رہی تھی برابر ۔ پیسے نہیں تھے تو مونگ پھلی لے آتے ہم وہی کھا لیتے ۔ کم سے کم اصلی تو ہوتیں ۔

ماں : کوئی سینے پر مونگ دلنا آپ سے سیکھے ۔ میرے ابا کو مرے عرصہ ہو گیا ۔

باپ : نہیں میری اماں تو جیسے برابر والے کمرے میں آرام کر رہی ہیں ۔

ماں : ہاں تو لڑائی تو شروع آپ نے کی ، میرے ابا کے سوئیٹر سے ۔

باپ : تو کیا کرتا ۔ اسے آکسفورڈ کا سوئیٹر کہہ دیتا ۔

ماں : نہیں تو میں اسے کوہ قاف کی شال کہہ دیتی ۔

باپ غصے میں کمرے سے جانے لگتے ہیں ۔

ماں : اب کہاں چلے ؟

باپ : کوہ قاف جا رہا ہوں ۔

ماں : ( مناتے کے انداز میں ) کیسے جائیں گے ؟

باپ :  ( دونوں ہاتھوں کو پر بناتے ہوئے ) پر لگا کر اڑ جاوں گا ۔

ماں : ( ہنسی آجاتی ہے ) آپ بھی ناں  بے پر کی اڑاتے ہیں ۔ سنیں ! واپسی پر کوہ قاف سے انڈے اور ڈبل روٹی لیتے آئیے گا صبح کے لیے اور 100 روپے کی اصلی مونگ پھلیاں بھی ۔۔۔ راستے میں سردی بہت ہو گی ۔ ذرا رکیں میں سوئیٹر لے آوں ۔

باپ : ( لڑائی ختم ) میرا والٹ بھی لیتی آنا ۔ ایک بار بتا دو جو منگانا ہے ۔ بار بار نہیں جاوں گا کوہ قاف اس سردی میں ۔

Loading