Daily Roshni News

سوشل میڈیا کے خودرو صحافی۔۔۔تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم

سوشل میڈیا کے خودرو صحافی

تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم)صحافت ایک معزز پیشہ ہے اگر صحافی ایمان دار اور اپنے پیشے سے مخلص ہو اور باقاعدہ صحافت کی تعلیم اور تجربے کے بعد اس میدان میں کام کرے تو۔چند عشرے قبل تک ایسا تھا لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس کی آمد کے بعد صحافت کی تعریف ہی بدل چکی ہے۔کوئی بھی شخص ہاتھ میں مائیک پکڑ کر اور موبائل یا کیمرہ اٹھا کر کسی بھی جگہ پہنچ جاتا ہے اور بنا کسی اختیار و حق کے لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیتا ہے۔

     ہر ملک اور پیشے کے کچھ قوانین و ضوابط ہوتے ہیں جن کو فالو کرنا تمام شہریوں اور کام کرنے والوں کا فرض ہوتا ہے۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ  روئے زمین پر پاکستان واحد ملک ہے جہاں کوئی قانون ہے نہ اس کی پاس داری۔ یہ سب لکھنے کی وجہ وہ چند ویڈیوز ہیں جن میں ایسے خودساختہ صحافی خواتین و حضرات کسی بھی دکان، فیکٹری حتی کہ گھر میں بھی گھس کر لوگوں سے ایسے سوال جواب کر رہے ہوتے ہیں جیسے پولیس بھی نہیں کرتی الا یہ کہ کوئی شخص ملزم ہو اور اسے گرفتار کر لیا جائے۔لیکن تفتیش کبھی بھی ملزم کے کام کے مقام، پبلک پلیس یا گھر پر نہیں کی جاتی بلکہ تھانے میں کی جاتی ہے۔کیونکہ مجرموں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔پولیس کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مقدمے کے فیصلے سے پہلے ملزم یا مجرم کو سزا دے دے۔

    لیکن یہ یوٹیوب کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل صحافی اس قدر اعلی تعلیم یافتہ، تجربہ کار اور تربیت یافتہ ہیں کہ یہ کسی راہ چلتے شخص کو پکڑ کر اس کی ذات کی دھجیاں بکھیرنے کے قائل ہیں اور اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتے ہیں۔حالانکہ قانون یہ ہے کہ جب کسی شخص پر الزام لگایا جاتا ہے تو اس کے خلاف ایف آئی آر کٹتی ہے۔پولیس اس کے وارنٹ لیتی ہے پھر گرفتار کر کے ریمانڈ لیا جاتا ہے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد مقدمہ چلتا ہے گواہان کے بیانات اور ثبوتوں کی روشنی میں یا تو ملزم مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے یا پھر باعزت بری ہو جاتا ہے۔مگر یہ صحافی تو وہ توپ ہستیاں ہیں جو خود ہی پولیس، عدالت، منصف اور جلاد کے فرائض سرانجام دے لیتے ہیں اور سستی شہرت کی خاطر کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔

     چلیں مان لیا کہ پاکستان میں اس سلسلے میں کوئی قانون نہیں یا اس پر عمل درآمد نہیں اس لیے یہ لوگ کسی کی بھی زندگی میں مداخلت کر لیتے ہیں۔لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب کبھی کوئی قتل ، اغواء،  ڈکیتی کا کیس ہوتا ہے اور مجرم پکڑے جاتے ہیں تو یہ سب یوٹیوبرز تھانے میں کھڑے ہو کر مجرم سے ایسے تفتیش کرتے ہیں کہ شاید پولیس نے بھی نہیں کی ہو گی۔اس سب کا حق انہیں کس نے دیا ہے؟ کیا پولیس کو انہیں مجرم تک رسائی دینی چاہیے؟ کیا یہ اس سے سوال کر کے اسے زچ کر کے مشتعل کر کے اپنے ویوز بڑھانے کے چکر میں نہیں ہوتے؟ کیونکہ ان کے بات کرنے کا انداز اور فضول سوالات و الزامات کسی بھی شخص کو مشتعل کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ایسا تو وہ ججز بھی نہیں کرتے جو کسی قتل کے مجرم کو پھانسی کی سزا دیتے ہیں۔وہ بھی مجرم پر طنز نہیں کرتے اسے طعنے نہیں دیتے اس کے قبیح فعل ہر لعن طعن نہیں کرتے۔

    کچھ چینلز ایسے بھی ہیں جن میں صرف ریپ یا جسم فروشی  کی رپورٹس دکھائی جاتی ہیں۔ ایک دو بار فیس بک پر ان چینلز کی رپورٹس ہیڈنگز  چند سیکنڈز کی ویڈیوز دیکھیں تو یقین مانیے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔خاتون یا مرد اینکر کسی عورت کے گھر پر بیٹھ کر ایسے بے ہودہ سوالات کر رہے تھے اور وہ اس قدر تفصیلی جواب دے رہی تھیں کہ لگا کسی ایڈلٹ مووی کا اسکرپٹ ہے۔چنانچہ فورا رپورٹ کر کے انہیں بلاک کر دیا۔

     آج کل جیو ٹی وی پر ایک ڈرامہ ‘حادثہ ‘ دکھایا جا رہا ہے جو موٹروے ریپ کیس پر بیسڈ ہے۔اس کے ایک سین میں جب متاثرہ خاتون کی فیملی ڈاکٹر سے بات کر رہی ہوتی ہے تو ایک یوٹیوب یونیورسٹی کے سند یافتہ صحافی موبائل پر یہ ساری گفتگو ریکارڈ کر کے ٹی وی چینل پر اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔ان کے اس ایڈونچر کی جو سزا وہ خاتون اور ان کی فیملی بھگتتی ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔یقین مانیے میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اس شخص کو گولی مار دوں۔اگرچہ یہ صرف ڈرامے کا ایک سین تھا مگر آج حقیقی زندگی میں بھی ڈیجیٹل، پرنٹ اور دیگر میڈیمز کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں عذاب بن رہی ہیں۔

     یہ لوگ سستی اور فوری شہرت کے لیے رائی کا پہاڑ بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔اس لیے کسی کے کردار کی دھجیاں بکھیرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔انہی جیسے لوگوں کی وجہ سے آج مشعال خان، سری لنکن مینیجر قتل ، کرسچین کالونی کے جلانے اور خودکشی جیسے واقعات عام ہو رہے ہیں۔ قصور صرف ان خودساختہ صحافیوں کا ہی نہیں ہم قارئین اور ناظرین کا بھی ہے جو سچ اور حق پر مبنی خبروں کی بجائے چٹپٹی مصالحے دار اور فحش خبروں پر زیادہ ریٹنگ دیتے ہیں۔

    حکومت،  پیمرا،  سوشل میڈیا کے ایڈمنز اور صحافی برادری کو اس سلسلے میں کچھ قوانین بنانے چاہیے تاکہ یہ لوگ کسی کی زندگی تباہ نہ کر سکیں۔ میڈیا کی وجہ سے جہاں آگاہی بڑھتی ہے وہاں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے وہ جرم کے نت نئے طریقے بھی سیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کسی بھی سوشل میڈیا اکاوئنٹ، چینل یا پوسٹ پر چیک اینڈ بیلنس ہونا ضروری ہے۔اگر  ارباب اختیار و اقتدار اس کام سے قاصر ہیں تو کم از کم ہمیں ایسے کسی بھی شخص کی رپورٹ کر کے اسے بلاک کروانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔

Loading