Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔تحریر ۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

صدائے جرس

تحریر ۔۔۔۔۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

بشکریہ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری2024

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔تحریر  ۔۔۔  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب))ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ خوش رہے ، صحت مند رہے، اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو. ہر شخص کہتا ہے کہ میں خوش رہنا چاہتا ہوں۔ ہر دوسرا آدمی تلقین کرتا ہے کہ خوش رہا کرو۔

آدمی کوئی چیز ساتھ نہیں لے جاتا۔ آدمی کپڑے پہنے ہوئے پیدا نہیں ہوتا۔ مرتا ہے تو سلے ہوئے کپڑے اس کے بدن سے اُتار دیے جاتے ہیں۔ زندگی کا فلسفہ یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ نہیں لاتا اور مرتا ہے یہ کہ پیدا ہے تو تو اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جاتا۔ زندگی میں کوئی اختیار نہیں ہے لیکن لیکن ہر آدمی خود کو با اختیار سمجھتا ہے۔ اختیار نہیں ہے تو خوش کیسے رہے گا۔ اختیار ہے تو ناخوش کیوں ہوتا ہے .. ؟ جو شخص کہتا ہے کہ خوش رہا کرو، اس سے قریب ہونے پر معلوم ہوتا ہے وہ تو ہم سب سے زیادہ غمگیں ہے ..

دنیا میں کوئی عمل دوڑ خوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آدمی اگر خوش رہے گا تو نا خوش بھی رہے گا۔ یہ سب الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ لفظوں کا گورکھ دھندا ہے۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ آدمی خوش رہنے سے واقف ہے اور نہ اسے یہ معلوم ہے کہ غم کیا ہے ….؟

اسے پانی کی ضرورت ہے پانی ہر جگہ موجود ہے۔ سردی، گرمی سے بچنے کے لیے بنیادی ضرورت مکان ہے۔ مکان بنانے کے لیے زمین پہلے سے موجود ہے۔ زمین نہ ہو تو مکان تعمیر نہیں ہوں گے۔ زندگی کے لیے بنیادی ضروریات آدمی کی پیدائش سے پہلے اور آدمی کے مرنے کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ ان کے لیے ناخوش ہونا اپنے

اوپر ظلم ہے اور ظلم ہی نا خوشی ہے۔ زندگی میں کام آنے والی بنیادی چیزیں اللہ تعالی نے اس طرح فراہم کر دی ہیں کہ انسان چاہے نہ چاہے وہ چیزیں اس کو ملتی رہتی ہیں۔ دوستو ! غور کیجیے کہ اللہ تعالی زمین نہ بناتے، گیہوں کا دانہ تخلیق نہ ہوتا۔ چاول بیچ نہ بنتا۔ دھوپ نہ نکلتی تو کیا انسانی غذائی ضروریات پوری ہو جاتیں ….؟ اللہ تعالیٰ چوپائے اور پرندے پیدانہ کرتے تو گوشت کھانے کو کہاں سے ملتا ….؟

ہم دودھ کہاں سے پیتے ….؟ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر کی مشینری پر تفکر کرے۔ انسانی مشین چلانے میں آدمی کیا کردار ادا کرتا ہے ….؟

اقتدار کی خواہش انسان کے اندر اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اندر کی مشینری چلتی رہے۔ دل دھڑکتارہے۔ آنتیں چلتی رہیں۔ گردے کام کرتے رہیں۔ دماغ سگنل وصول کرتا رہے۔ دماغی سیلز اعصاب کو متحرک رکھیں۔ آنکھ دیکھتی رہے ڈیلے حرکت کرتے رہیں۔ پلک جھپکتی رہے۔ دماغ پر عکس منعکس ہوتا رہے ۔ دماغ

اطلاعات فراہم کرتا رہے۔ ہمارے اندر بصیرت ہو، عقل بھی ہو لیکن آنکھ نہ ہو تو آدمی دیکھ نہیں سکتا۔ دل نہ ہو تو حرکت کا وجود معدوم ہو جائے گا۔ انسانوں کا آناز مین پر ابھی موقوف نہیں ہوا ۔ … عالم ارواح سے قافلہ چل پڑا ہے۔ اسے دنیا سے گزرنا ہے۔ اس لیے یہاں وسائل فراہم کر دیے گئے ہیں۔ جو چیز موجود ہے اس کے لیے خود کو محدود کر لینا نادانی ہے۔ وسائل کی قدر و قیمت اس حد تک ہو کہ وسائل استعمال کے لیے بنائے گئے ہیں تو آدمی خوش رہتا ہے۔ جب کوئی انسان وسائل کی قیمت اتنی لگا دیتا ہے کہ اس کی اپنی قیمت کم ہو جائے تو آدمی ناخوش ہو جاتا ہے۔ انسان دنیا والوں سے توقعات قائم کر لیتا ہے تو اس کے اوپر خوشی اور غم اس لیے مسلط ہو جاتے ہیں کہ جس سے توقعات قائم کی گئی ہیں۔

وہ خود محتاج، عاجز ولا چار ہے۔ جو انسان خود وسائل کا محتاج ہے وہ دوسروں کو کیا دے سکتا ہے ….؟ یہ کیسی نادانی ہے کہ نہیں سال کا آدمی اکیسویں سال میں داخل ہونے کے لیے پریشان ہے، لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ پیدائش کے پہلے دن سے آج تک اللہ نے ہر ہر طرح میری کفالت کی ہے۔ میں بھوکا نہیں رہا۔ ننگا نہیں رہا۔ ایک تھا ایک سے دو ہوا۔ دو سے آٹھ ہوئے۔ انسان اپنے ماضی پر کبھی غور نہیں کرتا کہ میں کس طرح پیدا ہوا۔ کسی طرح میری پرورش ہوئی۔ بچے ہوئے، بچوں کے بچے ہوئے۔ پیدا ہوا تو میرے پاس جھونپڑی نہیں تھی اور اب میں ساٹھ سال کا ہوں۔ روز گار اور میرے تمام بچوں کے پاس الگ زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔

یہ خیال کیوں نہیں آتا ….؟

اس لیے نہیں آتا کہ آدمی اپنی ذات کے خول میں بند ہے۔ انسان مستقبل کے بارے میں تو سوچتا ہے لیکن گزرے ہوئے زمانے کو یاد نہیں کرتا۔ روحانی نقطہ نظر سے زندگی انسان کی ہو، سیاروں کی ہو، سورج یا چاند کی ہو یا درخت کی ہو یا کسی اور کی ہو …. ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جب کوئی قوم ماضی سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے اور اسلاف کے نقوش قدم پر عمل پیرا ہو کر اپنی حالت سنبھالنے کے لیے عملی اقدام نہیں کرتی …. کوشش، حرکت، عمل اس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں تو ایسی قومیں زمین سے نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ جو قو میں ماضی سے اپنار شتہ مستحکم رکھتی ہیں اور اسلاف کے کارناموں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر عمل کرتی ہیں وہ عروج و ترقی کے محلات تعمیر کرتی ہیں۔ اگر انسان فی الواقع خوش رہنا چاہتا ہے تو روزانہ ماضی کو یاد کرے اور حساب لگائے کہ اللہ نے پچاس ساٹھ سالہ زندگی میں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں۔

انسان اپنے جیسے انسانوں سے توقعات توڑ کر اللہ سے توقعات قائم کر کے جد و جہد کرے تو محدودیت سے نکل جاتا ہے۔ وہ ایسے لا محدود دائرے میں محفوظ ہو جاتا ہے جہاں خوف اور غم نہیں ہے۔ خوشی ایک فطری عمل ہے …. جبکہ ناخوش ہونا اور غمگیں ہو نا غیر فطری عمل ہے۔

نا خوش انسان خود اپنے آپ سے دور ہو جاتا ہے جبکہ خوش رہنے والا انسان اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے …. اوردوسرے لوگ بھی اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں …..

بشکریہ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری2024

Loading