صدائے جرس
دوستی، محبت اور کشش کی لہریں۔
تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس عظیمی صاحب
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔صدائے جرس۔۔۔ دوستی، محبت اور کشش کی لہریں۔۔۔تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس عظیمی صاحب) محبت پر سکون زندگی اور اطمینان قلب کا ایک ذریعہ ہے ۔ کوئی انسان جس کے اندر محبت کی لطیف ہر میں دور کرتی ہیں وہ مصائب و مشکلات و پیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے چہرے میں ایک خاص کشش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے بر خلاف نفرت کی کثیف شدید اور گرم لہریں انسانی چہرہ کو جھلسا دیتی ہیں اور دماغ کو اتنا بو جھل اور تاریک کر دیتی ہیں کہ زندگی میں کام کرنے والی لہریں مسموم اور زہریلی ہو جاتی ہیں۔ اس زہر سے انسان طرح طرح کے مسائل اور قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
کبھی کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا آتا ہے کہ ہم اس چہرے کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور کوئی چہرہہمارے سامنے ایسا بھی آتا ہے کہ ہم اس چہرے میں سے نکلنے والی لہروں سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے دل نور سے معمور ہوتے ہیں اور جن لوگوں کے دماغ میں خلوص، ایثار ، محبت ، پاکیزگی اور خدمت خلق کا جذ بہ ہوتا ہے ایسے لوگوں کے چہرے بھی خوشنما، معصوم اور پاکیزہ ہوتے ہیں۔ ان ہروں میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ ہر شخص قریب ہونا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ جو احساس گناہ اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ ان کے چہروں پر خشونت، خشکی، یبوست ، بے آہنگی اور کراہت کےهروتاثرات پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ تاثرات دوسرے آدمی کے دل میں دور رہنے کا تقاضہ پیدا کرتے ہیں۔ انسان کی شخصیت کی تشکیل اور اُس کے اخلاق و عادات کو سنوارنے میں محبت کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ایک ساتھی دوسرے ساتھی کے اوصاف سے متاثر ہوتا ہے ۔ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ جو کوئی کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہے تو نمازی بن جاتا ہے۔ کسی تاش کھیلنے والے سے دوستی کرنا چاہے تو تاش کھیلنا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی کھلاڑی سے دوستی کرنا چاہے تو اس کھیل میں د چپسی محسوس کرنے لگتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی شیطان کی قربت کا خوگر ہو تو شیطان کے اوصاف پسند کرتا ہے اور اگر رحمان سے قربت چاہے تو اس کی عادات وصفات اختیار کرتا ہے۔ اس لیے دانا لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ کسی کے اخلاق کو دیکھنا ہو تو اس کے دوست کو دیکھو۔ جیسا دوست ہو گا ویسا ہی وہ خود بھی ہو گا کیونکہ صحبت کا اثر ضرور پڑتا ہے۔
میرے ذہن میں یہ خیال بار بار آنے لگا کہ مجھے اپنے پیر و مرشد سے بڑی محبت ہے ۔ جتنی محبت میں اپنے پیر و مرشد سے کرتا ہوں، میرے برابر اتنی محبت کوئی نہیں کر سکتا ۔ ایک روز حضور قلندر بابا اولیاء نے مجھ سے فرمایا خواجہ صاحب! آپ نے Magnet دیکھا ہے ؟“ میں نے کہا جی ہاں! دیکھا ہے۔
کہنے لگے “لوہا دیکھا ہے ؟ عرض کیا جی ہاں دیکھا ہے۔اور یہ بھی دیکھا ہے کہ لوہے نے Magnet ھینچ لیا ہو۔ عرض کیا نہیں! پھر مرید پیر سے محبت کیسے کر سکتا ہے ؟ محبت کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ پیر مرید سے محبت کرتا ہے اس محبت کا جب عکس مرید کے اندر داخل ہوتا ہے مرید یہ سمجھتا ہے میں محبت کرتا ہوں۔ میگنٹ لوہے کو کھینچتا ہے لوہا سمجھ رہا ہے میں اپنے قدم سے چل کر میگنٹ کی طرف جا رہا ہوں۔ پیر و مرشد مرید سے محبت کرتا ہے، ایثار کرتا ہے، مرید یہ سمجھتا ہے کہ میں پیر و مرشد کی طرف بھاگا چلا جارہا ہوں۔ ایک مرتبہ میں نے اپنے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء سے یہ سوال کیا تھا کہ اللہ والوں کی پہچان کیا ہے ؟…. اس کے جواب میں حضور قلندر بابا اولیاء نے ارشاد فرمایا ” آپ پندرہ منٹ اس کے پاس بیٹھیں اگر ان پندرہ منٹ میں سے بارہ منٹ تک آپ کو دنیا کا خیال نہ ستائے ، وسوسے اور پریشانی کا دھیان نہ آئے تو سمجھ لیں کہ وہ بندہ اللہ والا ہے“۔”
حضور قلند ر بابا اولیاء نے ایک دن فرمایا … ”دوستی کی تعریف بیان کرو۔
“ میں نے عرض کیا ”دوستی ایثار ہے۔ کسی کو کچھ دینے کے لیے .. کچھ بنانے کے لیے .. سنوارنے کے لیے اپنا بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ فرمایا.. ” “بات صحیح ہے لیکن عام فہم نہیں ہے۔“ فرمایا … ”دوستی کا تقاضہ ہے کہ آدمی دوست کی طرز فکر میں خود کو نیست کر دے۔ اگر تم کسی نمازی سے دوستی چاہتے ہو تو نمازی بن جاؤ۔ شرابی کی دوستی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کے ساتھ مے نوشی کی جائے۔ وسیع دستر خوان سخی کی دوستی ہے۔
“پھر فرمایا: ” خواجہ صاحب! اللہ سے دوستی کرنی ہے۔“ میں نے عرض کیا .. ”جی ہاں“ فرمایا: ”ایسی دوستی کرنی ہے کہ اللہ پیار کرے۔ عرض کیا .. ”بالکل ایسی دوستی کرنی ہے۔“ یہ جواب سن کر انہوں نے سوال کیا کہ ”خواجہ صاحب! بتائیے اللہ کیا کرتا ہے۔“ میری سمجھ میں اس کا جواب نہیں آیا۔ حضور قلندربابا اولیاء نے فرمایا .. ”خواجہ صاحب ! اللہ یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ اگر آپ کو اللہ سے تعلق قائم کرنا ہے اور اس سے پکی دوستی کرنی ہے تو آپ بے غرض ہو کر اللہ کی مخلوق کی خدمت کیجیے۔
“ دوستوں کی صحبت میں بیٹھ کر وہی رجحانات اور خیالات پیدا ہوتے ہیں جو دوستوں میں کام کر رہے ہیں۔ قلبی لگاؤ اسی سے بڑھانا چاہیے جس کا ذوق افکار و خیالات اور دوڑ دھوپ اسوۃ حسنہ کے مطابق ہو۔ دوستوں پر اعتماد کیجئے، انہیں افسردہ نہ کیجئے ۔ ان کے درمیان ہشاش بشاش رہیے۔ دوستی کی بنیاد خلوص، محبت اور رضائے الہی پر ہونی چاہیے نہ کہ ذاتی اغراض پر ۔ ایسا رویہ اپنائیے کہ دوست آپ کے پاس بیٹھ کر مسرت زندگی اور کشش محسوس کرے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2024ء