Daily Roshni News

صدائے جرس ۔۔۔ تحریر ۔۔۔حضرت خواجہ  شمس الدین عظیمی صاحب۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ

صدائے جرس

تحریر۔۔۔ الشیخ  خواجہ  شمس الدین عظیمی صاحب

انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔صدائے جرس ۔۔۔ تحریر ۔۔۔حضرت خواجہ  شمس الدین عظیمی صاحب۔۔۔ انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی نگران مراقبہ ہال ہالینڈ) قر آن پاک میں ارشاد ہے کہ ہم نے  زمین اور ا ٓ سمانوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ زمین کے اندر جو کچھ بھی مو جود ہے وہ انسان کے لیے مسخر کر دیا گیا ہے ۔

اب زمین کے اندر کیا ہے …. ؟ معدنیات ہیں، لوہا ہے ، تانبہ ہے، سونا ہے اور بے شمار گیسز ہیں۔ جب انسانوں نے زمین پر تفکر کیا تو یور بینیم کو تلاش کر لیا اور اس سے ایٹم بم بنا لیا۔ انسان نے لوہے کے اندر تفکر کیا تو ترین بن گئی۔ انسان نے درختوں کے اوپر غور کیا تو فرنیچر اور دروازے بن گئے۔ انسان نے مزید دھاتوں پر غور کیا، سونا مل گیا، چاندی مل گئی اور مزید غور کیا تو پیٹرول نکل آیا۔ اس میں کوئی شرط نہیں ہے کہ کوئی ایک خاص قوم ہی اللہ کی پر غور کرے گی تو وہی مخصوص قوم فائدہ اٹھائے گی۔ قرآن پاک میں ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہم نے آسان کر دیا ہے۔ جو سمجھنا چاہے اسے سمجھ لے۔ اللہ تعالی پر ہم ایمان رکھتے ہیں، اللہ کے رسول پر ہمارا ایمان ہے ، قرآن ہم پڑھتے ہیں اور فائدہ کون اٹھا رہا ہے ….؟

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ہم نے زمین اور آسمانوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ زمین کے اندر جو کچھ بھی موجود ہے وہ انسان کے لیے مسخر کر دیا گیا ہے۔

غیر مسلم فائدہ اٹھارہے ہیں۔ جس قوم کے پاس علم کا خزانہ ہو، جس قوم کے پاس تسخیر کائنات کی دستاویز ہو لیکن وہ قوم غیروں کی غلام ہو، دوسروں کے بچے کھچے ہوئے پر گزارا کر ناشروع کر دے اور ان کی زندگی سود کے پیسوں پر گزر رہی ہو۔ کیا وہ قوم معزز

ہو سکتی ہے…..؟ مسلمانوں کو اتنا بھی خیال نہیں آتا کہ ان کے اسلاف نے جو ترقی کی اور جو سائنسی دریافتیں کی تھیں وہ غیر مسلم اپنے نام سے متعارف کرارہے ہیں اور مسلمان قوم مجبور بنی ہوئی بے بسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ علم بھی اس کے پاس نہیں ہے۔ علم کے لیے وہ غیر مسلم اقوام کی طرف دیکھتی ہے۔ کیا مسلمانوں کے پاس دماغ نہیں ہے ….؟ ٹیکنالوجی نہیں ہے ؟ لوہا نہیں ہے؟ مسلمانوں کے پاس کیا نہیں ہے….؟ ان کے پاس تسخیر کائنات سے متعلق دستاویز موجود ہے۔ وہ کبھی اس کو کھول کر نہیں دیکھتے۔ بس اسی میں خوش ہیں کہ باہر سے ٹیلیفون، ٹی وی آگیا ہے اسے استعمال کر لیں۔ باہر سے کوئی ٹیکنالوجی آجائے تو اسے استعمال کر لیں اور لیب بنائیں۔ وہاں سے علم طب آ جائے تو آدمی ڈاکٹر بن جائے، وہاں سے انجینئر نگ آجائے تو آدمی انجینئر بن جائے۔ ہم اسی بات پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ قرآن پاک سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جب کوئی قوم اپنی تبدیلی نہیں چاہتی تو قدرت اسے اس کے حال پر

چھوڑ دیتی ہے۔ دور جدید کی چکا چوند میں انسان بالکل برباد ہو چہ پ غور فرمائیں ہر آدمی خوف میں مبتلا ہے۔اس ترقی کے پس پردہ اقوام یہ چاہتی ہیں کہ ساری دنیا پر ان کا اقتدار قائم ہو جائے۔ انہی احکامات کا اقتدار قائم نہ رہے۔ خوف کا عجیب عالم ہے۔ ساری نوع انسانی خوف میں مبتلا ہے۔ جن لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق نظام قائم کریں وہ نہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہیں اور نہ ہی قرآن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ موجودہ دور کی کوئی ترقی ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالی کی تخلیق کردہ وسائل کے بغیر عمل میں آگئی ہو۔ اللہ تعالی نے زمین میں وسائل پھیلائے ہیں ان وسائل میں رد و بدل کر کے اور ان وسائل میں غور و فکر کر کے نئی نئی دریافتیں کی جاتی ہیں۔ تو مسلمان کیوں ان وسائل میں غور و فکر کر کے اپنے نظریات اور اپنی دریافتیں دنیا کے سامنے نہیں لاتا۔ دور جدید کے علوم میں جہاں انسانی شعور بالغ ہوا ہے ، دور جدید کے علوم سے جہاں انسان کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ انسان ایک ایسار و بوٹ ہے جس کے اندر اللہ کی صفات بھری ہوئی ہے وہاں انسان مایوس بھی ہوا ہے۔ کیا کوئی انسان اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ دور جدید کی ترقی کے بعد صحت اچھی ہوئی ہے یا بری ہو گئی ہے۔ بیماریاں بڑھی ہیں یا کم ہو گئی ہیں۔ دور جدید کی ترقی میں جو آرام و آسائش ہمیں مہیا ہوئے ہیں ان سے ہماری نگاہ تیز ہو گئی ہے یا چشمے لگ گئے ہیں۔ پرانے وقتوں میں اسی نوے سال کی عمر میں چشمے کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اب دس بارہ سال کے بچوں کو چشمے لگ گئے ہیں۔

دور جدید کی ترقی بلاشبہ ترقی ہے۔ انسان نے جد وجہد اور تفکر سے اللہ تعالی کی نشانیوں کو ایک نیارنگ اور روپ دیا ہے لیکن دور جدید کی ترقی میں ایک بنیادی خرابی ہے کہ ہر جدید ترقی کے پیچھے مادیت کار فرما ہے۔ ایک روحانی اور مادی آدمی میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اگر ایک روحانی آدمی کوئی علم سیکھتا یا سکھاتا ہے تو اس کے پس پردہ نیت دنیا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے۔ مادیت سے مغلوب سوچ کے تحت جو چیز آپ کو ملتی ہے اس کے پیچھے اللہ نہیں ہوتا۔ حرص، لالچ اور پیسہ ہوتا ہے۔

انسان قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کا امین ہے۔ لیکن اس نے ان صلاحیتوں کو حرص و ہوس ، خود غرضی ، انا پرستی، اور خود نمائی جیسے جذبات کی تسکین کے لئے اپنی ذات تک محدود کر دیا ہے۔ اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا کہ قانی دنیا کے اعمال بھی فانی ہیں۔

یہ دنیا اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات انسان کیلئے بنائی ہے …. جب انسانی قدریں پائمال ہو جاتی ہیں تو انسان اپنے شرف سے محروم ہو جاتا ہے…. اور اس کے اوپر طرح طرح کی بیماریاں …. طرح طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں نازل ہوتی رہتی ہیں …. مستقبل کا خوف، ایک دوسرے پر عدم اعتماد، شکوک و شبہات، وسوسے اور بے یقینی یہ سب بھی

ہمارے تعاقب میں ہیں …. آئیے ! ہم سب استغفار کریں …. دوسروں کی حق تلفی نہ کریں … اللہ تعالٰی سے معافی مانگیں اور عہد کریں کہ ہم اللہ تعالی اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں گے اور اس زمین پر کائناتی سسٹم کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2019ء

Loading