Daily Roshni News

عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرنا۔۔۔ تحریر۔۔۔ حمیراعلیم

عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرنا

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرنا۔۔۔ تحریر۔۔۔ حمیراعلیم)نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى صحيح اور مرفوع حديث ثابت نہيں، حتى كہ فضائل ميں بھى ثابت نہيں، بلكہ اس كے متعلق كچھ تابعين سے بعض مقطوع آثار وارد ہيں، اور ان احاديث ميں موضوع يا ضعيف احاديث شامل ہيں جو اكثر جہالت والے علاقوں ميں پھيلى ہوئى ہيں.

ان ميں مشہور يہ ہے كہ اس رات عمريں لكھى جاتى ہيں اور آئندہ برس كے اعمال مقرر كيے جاتے ہيں.

اس بنا پر اس رات كو عبادت كے ليے بيدار ہونا جائز نہيں اور نہ ہى پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا جائز ہے، اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا بھى جائز نہيں ہے، اكثر جاہل لوگوں كا اس رات عبادت كرنا معتبر شمار نہيں ہو گا “

واللہ تعالى اعلم

الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ

اگر كوئى شخص عام راتوں كى طرح اس رات بھى قيام كرنا چاہے ـ اس ميں كوئى اضافى اور زائد كام نہ ہو اور نہ ہى اس كى تخصيص كى گئى ہو ـ تو جس طرح وہ عام راتوں ميں عبادت كرتا تھا اس ميں بھى جائز ہے.

اور اسى طرح پندرہ شعبان كو روزے كے ليے مخصوص كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر وہ اس بنا پر روزہ ركھ رہا ہے كہ يہ ايام بيض يعنى ہر ماہ كى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كو روزہ ركھنا مشروع ہے، يا پھر وہ جمعرات يا سوموار كا روزہ ركھتا تھا اور پندرہ شعبان اس كے موافق ہوئى تو اس اعتبار سے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں اس كا اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ اس سے اسے اجروثواب زيادہ حاصل ہو گا.

كيا اللہ سبحانہ وتعالى نصف شعبان كى رات آسمان دنيا پر نازل ہو كر كافر اور كينہ اور بغض ركھنے والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے ؟

يہ ايك حديث ميں ہے، ليكن اس حديث كى صحت ميں اہل علم نے كلام كى ہے، اور نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى حديث صحيح نہيں ملتى.

اور موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اللہ تعالى نصف شعبان كى رات جھانك كر مشرك اور كينہ و بغض والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے “

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1390 ).

مشاحن: اس شخص كو كہتے ہيں جو اپنے سے دشمنى ركھے.

” الزوائد” ميں ہے: عبد اللہ بن لھيعۃ كے ضعف اور وليد بن مسلم كى تدليس كى بنا پر يہ حديث ضعيف ہے.

اور اس حديث ميں اضطراب بھى جسے دار قطنى رحمہ اللہ نے ” العلل ( 6 / 50 – 51 ) ميں بيان كيا ہے، اور اس كے متعلق كہا ہے: يہ حديث ثابت نہيں.

اور معاذ بن جبل، عائشہ اور ابو ھريرہ اور ابو ثعلبہ خشنى وغيرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى حديث بيان كى گئى ہے، ليكن يہ طرق بھى ضعف سے خالى نہيں، بلكہ بعض تو شديد ضعف والے ہيں.

ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” نصف شعبان كى رات كے فضائل ميں متعدد احاديث ہيں، جن ميں اختلاف كيا گيا ہے، اكثر علماء نےتو انہيں ضعيف قرار ديا ہے، اور بعض احاديث كو ابن حبان نے صحيح قرار ديا ہے”

ديكھيں: لطائف المعارف ( 261 ).

اور پھر اللہ تعالى كا نزول نصف شعبان كى رات كے ساتھ خاص نہيں بلكہ بخارى اور مسلم كى حديث ميں ثابت ہے كہ اللہ تعالى ہر رات كے آخرى حصہ ميں آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے، اور نصف شعبان كى رات اس عموم ميں داخل ہے.

اسى ليے جب عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ تعالى سے نصف شعبان كى رات ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے سائل كو كہا:

اے ضعيف صرف نصف شعبان كى رات! ؟ بلكہ اللہ تعالى كو ہر رات نزول فرماتا ہے “

اسے ابو عثمان الصابونى نے ” اعتقاد اھل السنۃ ( 92 ) ميں روايت كيا ہے.

اور عقيلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نصف شعبان ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق احاديث ميں لين ہے، اور ہر رات ميں اللہ تعالى كے نزول والى احاديث صحيح اور ثابت ہيں، اور ان شاء اللہ نصف شعبان كى رات بھى اس ميں داخل ہے.

ديكھيں: الضعفاء ( 3 / 29 ).

واللہ اعلم .سوال 01

کیا شعبان کی 15 تاریخ کو لوگوں کی تقدیروں اور موت حیات وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں ؟

جواب:

جی نہیں، قرآن و حدیث سے ایسا کچھ ثابت نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اسکی زندگی اور موت وغیرہ کے فیصلے لکھ دیے ہیں.

الله تعالیٰ نے فرمایا :

” الله کے حکم کے بنا کوئی جاندار نہیں مر سکتا, مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے.”

(سورة آل عمران آیة : 145)

اور

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

” الله تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے 50 ہزار سال قبل ہی سب کی تقدیریں لکھ دی تھیں۔”

(صحیح مسلم ، کتاب القدر ، حدیث : 4797)

سوال 02

کیا 15 شعبان کو خاص طور پر اعمال نامہ الله کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ؟

جواب :

جی نہیں ، ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس میں صرف 15 شعبان کو اعمال پیش ہونے کا ذکر ہو ۔ بلکہ ہر روز اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

” رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اللہ کی طرف چڑھتے (پیش ہوتے) ہیں۔”

(صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث : 447)

سوال 03

کیا اللہ تعالیٰ صرف 15 شعبان کی رات پہلے آسمان (آسمانِ دنیا) پر نزول فرماتا ہے ؟ اور کیا ہمیں صرف 15 شعبان کی رات عبادت کرنی چاہیے ؟

جواب :

جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف 15 شعبان کی رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :

” ہمارا رب بلند اور برکت والا ہر رات جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو دنیا کے آسمان (پہلے آسمان) کی طرف نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے : “کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تا کہ میں اسکی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے مانگے تا کہ میں اسے عطا کروں ، کون ہے جو مجھ سے بخشش طالب کرے تا کہ میں اسے معاف کر دوں۔”

(صحیح بخاری ، کتاب التہجد ، حدیث : 1145)

سوال 04

کیا خصوصی طور پر 15 شعبان کو روزہ رکھنا ثابت ہے ؟

جواب :

جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث میں صرف 15 شعبان کو روزہ رکھنے کا ذکر نہیں ، بلکہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم ماہِ شعبان کے اکثر ایام روزے سے گزارتے تھے ۔

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ مطہرہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں :

“میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں اتنے (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔”

(صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، حدیث : 1969)

سوال 05

کیا 15 شعبان کی رات فوت  شدگان کی روحیں گھروں کی طرف لوٹتی ہیں ؟ اور کیا اس رات خصوصی طور پر قبرستان جانا چاہیے ؟

جواب :

جی نہیں ، جب کوئی بندہ فوت ہو جاتا ہے تو اسکی روح اس دنیا سے عالم ارواح منتقل ہو جاتی ہے اور دنیا سے اسکا رابطہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے.

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

” یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ، مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں اس (دنیا) میں نیک کام کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ، (اللّه فرماۓ گا) ہرگز نہیں،  یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ (حسرت سے) کہنے والا ہے ، اور ان سب (روحوں) کے آگے اس دن تک ایک برزخ (آڑ) ہے جس دن وہ (قبروں سے) اُٹھائے جائیں گے۔”

(سورة المومنون آیة : 99 – 100)

اور

15 شعبان کی رات خصوصی طور پر قبرستان جانے کے حوالے سے کوئی صحیح حدیث نہیں ، ویسے بھی قبرستان جانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ وہاں جا کر صرف اہل قبرستان کے لئے دعا کی جاۓ ، کیوں فوت شدگان کے لئے مغفرت کی دعا تو مسجد میں اور گھر بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہے ، بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد موت کو یاد کرنا ہوتا ہے.

رسول اللّه صلی اللّه علیہ و سلم نے فرمایا :

” قبروں کی زیارت کیا کرو ، یہ موت یاد دلاتی ہیں۔”

( صحیح مسلم )

Loading