Daily Roshni News

عبداللہ عبداللہ کی کتاب سے: میں کون ہوں؟

عبداللہ عبداللہ کی کتاب سے: میں کون ہوں؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )1905 میں البرٹ ائنسٹائن نے سپیشل تھیوری اف ریلیٹیوٹی کے نام سے ایک نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور اس نظریے نے وقت کے بارے میں اس وقت تک موجود تمام نظریات کو باطل قرار دے دیا۔ پچھلی ایک صدی سے زائد عرصے میں آئن سٹائن کا یہ نظریہ بہت سارے عملی تجربات میں سے کامیابی کے ساتھ گزر چکا ہے اور شاید یہ سائنس کا وہ خاص نظریہ ہے جس پر بہت زیادہ افسانہ نویسی بھی کی گئی ہے۔ اس ایک نظریے سے متاثر ہو کر ٹائم ٹریول کے موضوع پر لاتعداد ناول لکھے گئے ہیں متعدد فلمیں بنائی گئی ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق روشنی ایک ایسی چیز ہے جس کی رفتار ہر جگہ ہر قسم کے حالات میں یکساں رہتی ہے اور روشنی کی یہ رفتار تقریبا تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔

زمین اور سورج کے مابین تقریبا 15 کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ موجود ہے اس طویل فاصلے کی وجہ سے سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 8.3 منٹ لگتے ہیں۔ اگر ابھی اور اسی وقت سورج تباہ ہو جائے تب بھی سورج کی تباہی کی اس خبر کو ہم تک پہنچنے میں 8.3 منٹ لگ جائیں گے جبکہ اس دوران سورج کی وہ کرنے ہم تک پہنچتی رہیں گی جنہوں نے 8.3 منٹ پہلے سورج سے زمین کی جانب اپنے سفر کا اغاز کیا ہوگا تباہ ہو جانے کے باوجود سورج اگلے 8.3 منٹ تک ہمیں بالکل ٹھیک ٹھاک نظر آتا رہے گا یعنی ہم سورج کو ہمیشہ اس کے ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے لمحہ موجود اور سورج کے لمحے موجود میں 8.3 منٹ کا فرق موجود ہے لمحہ موجود کا یہی فرق بڑھتے بڑھتے 25 لاکھ سال کا ہو جائے گا۔ اگر ہم زمین سے سورج کی جانب نہیں بلکہ M- 31 کہکشاں کی جانب دیکھ رہے ہوں ایم M-31 کہکشاں کا زمین سے فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریبا 25 لاکھ سال لگ جاتے ہیں اگر اج ہم M- 31 کا دوربین کی مدد سے مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں وہ مناظر نظر آئیں گے جو M- 31 پر آج سے 25 لاکھ سال پہلے موجود تھے۔ اب ان پچھلے 25 لاکھ سالوں میں اس کہکشاں پر کیا گزری ہوگی۔

یہ کہکشاں اپنی جگہ پر موجود ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر تباہ برباد ہو چکی؟

ان سبھی باتوں کو جاننے کے لیے ہمیں مزید 25 لاکھ سال انتظار کرنا ہوگا مختصر یہ کہ ہم اجرامِ فلکیہ کو ہمیشہ ان کے ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں ہم آسمان میں جتنا زیادہ دور دیکھیں گے۔ ہماری نگاہیں اتنا ہی ماضی بعید کی جانب سفر کرتی رہیں گی جبکہ دوسری جانب روشنی کی اس محدود رفتار کے وقت پر بھی کچھ دلچسپ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہماری زمین سے تقریبا 74 نوری سال کے مسافت پر ایک ستارہ موجود ہے جسے 84 ceti کہتے ہیں۔ اب چند لمحات کے لیے تھوڑا غور و فکر کریں اور سوچیں کہ اس ستارے پر موجود کوئی شخص اگر ٹیلیسکوپ کی مدد سے زمین کا مشاہدہ کرے گا تو اسے کیا نظر ائے گا؟

وہ شخص زمین کا ماضی دیکھ رہا ہوگا اور اسے اج تقریبا 74 سال پہلے کی زمین اور زمینی مناظر نظر آئیں گے۔ اگر زمین پر اس وقت 2020 ہے تو ceti 84 پر موجود شخص کو زمین پر 1946 کے آس پاس کے مناظر دکھائی دیں گے اس شخص کے نقطہ نظر سے ابھی پاکستان بنا بھی نہیں ہوگا۔ اس شخص کے نقطہ نظر سے شاید ابھی آپ پیدا بھی نہ ہوئے ہوں  84 ceti پر موجود شخص اگر زمین کا مسلسل مشاہدہ کرتا رہے تو آپ کی زندگی کے گزر جانے والے تمام لمحات کا مشاہدہ کرنا اس شخص کے لیے ممکن ہوگا، عین ممکن ہوگا۔

 یعنی آپ کا ماضی آپ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ اس وقت بھی موجود ہے۔ آپ کا ماضی کہیں کھویا نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کسی اور شخص کے لیے آپ اس وقت بھی ایک چار سال کے بچے کی حیثیت رکھتے ہوں گے اور شاید آج آپ سکول نہ جانے کی ضد کر رہے ہوں ائن سٹائن کے اس نظریے کے مطابق وقت میں ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی بھی حقیقی تقسیم موجود نہیں ہے یہ تینوں وقت ،ہر وقت موجود رہتے ہیں بالکل کسی DVD پر موجود فلم کی مانند۔

ڈی وی ڈی پر پوری فلم ہر وقت موجود ہوتی ہے یہ ہم ہیں جو اس فلم کو لمحہ با لمحہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس فلم کے کچھ مناظر ہمارے لیے ماضی کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں تو کچھ مناظر مستقبل کی اس طرح یہ وقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے ہمارا ماضی حال اور مستقبل ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔

 یہ ہم ہیں جو اس وقت میں سے گزر رہے ہیں لیکن ڈی وی ڈی پر موجود مناظر کو تو ہم اپنی مرضی سے جب چاہیں اگے یا پیچھے بھی کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی من چاہے منظر پر ویڈیو کو روکنا بھی ہمارے لیے ممکن ہوتا ہے۔

(حصہ اول)

عبداللہ عبداللہ کی کتاب سے: میں کون ہوں؟

Loading