Daily Roshni News

عشق کیا ہے؟۔۔۔قسط نمبر2

عشق کیا ہے؟

قسط نمبر2

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری2022

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ عشق کیا ہے؟ )مرد اور عورت کے درمیان ہوتی ہے مگر ایسا ہر تعلق میں ضروری نہیں۔ انسیت کسی کو کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخص کو پودوں سے پیار ہے مگر اپنے اگائے ہوئے پودوں میں وہ کسی خاص پودے سے زیادہ انسیت رکھتا ہے، یعنی اُس کے لیے اپنا وہ پودا باقی پودوں سے ممتاز اور منفرد ہو جاتا ہے، ایک ماں کے دس بچے ہیں مگر ممکن ہے اُن میں سے کسی ایک سے اسے کچھ زیادہ انسیت ہو جائے، وہ باقی بہن بھائیوں کے مقابلے ماں کو زیادہ محبوب ہو جائے۔ دوستوں زیادہ میلان میں سے کسی دوست کی ط دوست کی طرف طبیعت : رکھتی ہو۔ ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں، اسی طرح ہم اگر صرف مرد اور عورت کے درمیان ہونے والی انسیت کا ذکر کریں تو بھی یہ اپنی خاصیت اسی طرح برقرار رکھتی ہیں۔ انسیت جب بڑھ جاتی ہے تو وہ محبت کہلاتی ہے۔

محبتRomance: محبت کئی قسموں کی ہو سکتی ہے۔ یہ محبت کسی خاص ہستی، شخص یا رشتے سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ معمولی ہو سکتی ہے اور شدید بھی۔ پیار اور محبت میں فقط یہ فرق ہے کہ پیار ایک طرفہ ہو سکتا ہے مگر محبت دو طرفہ ہوتی ہے۔ پیار ایک سے زیادہ انسانوں یا ایک سے زیادہ پرندوں، پودوں وغیرہ سے ہو سکتا ہے مگر محبت ہر ایک سے مساوی نہیں ہوتی۔ محبت کرنے والوں میں میں احساس ملکیت بھی ہوتا ہے۔ محبت )Possessiveness( ایک دائرہ کار میں محدود رہتی ہے ابتدا سے اختتام تک

کہیں نہ کہیں پابند سلاسل نظر آتی ہے۔ پیار کی کوئی وجہ Reason ہوتی ہے…..

جبکہ محبت تقاضہ اور توقعات Returns سے وابستہ ہوتی ہے۔شوہر کو بیوی سے یا بیوی کو شوہر سے محبت ہوتی ہے تو جانبین ایک دوسرے کے جذبات و احساسات، ضروریات ، آراء و مشوروں کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ خیال اس وجہ سے بھی رکھا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا جذبہ سدا بہار رہے۔ جب تک ایک دوسرے سے جڑی توقعات پوری ہوتی رہتی ہیں محبت قائم رہتی ہے۔ دو محبت کرنے والوں کی ایک دوسرے سے وابستہ تو اقعات ٹوٹنے لگیں تو محبت پر مبنی تعلق بھی متاثر ہونے لگتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ توقعات مرد یا عورت میں سے کسی کی لاپر واہی یا غیر ذمہ داری کی وجہ سے پوری نہ ہوئی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ توقعات غیر مناسب ہوں یا احساس کے تحت Sense Of Possession ملکیت بالکل ہی غلط ہوں۔

مذکورہ بالا یا دیگر بے شمار وجوہات میں سے کچھ بھی وجہ ہو حاصل کلام یہ کہ توقعات ٹوٹنے سے اکثر یہ ہوتا ہے کہ محبت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں کچھ عرصے تک ایک دوسرے کی محبت کا دم بھرنے والے ایک دوسرے کے لیے جان تک دے ڈالنے کے دعوے دار مرد اور عورت ایک دوسرے کی قربت تو کیا صورت سے  بھی بے زار دکھائی دیتے ہیں۔

Ishq عشق:اب آتے ہیں عشق کی طرف !محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے، عشق ان سب سے الگ ایک اعلیٰ ترین جذبہ ہے۔ اس اعلی ترین جذبے میں نہ توقعات ہوتی ہیں اور نہ کوئی احساس ملکیت۔ یہ جذبہ متحرک ہونے کے لیے کسی جسمانی حسن یا کشش کا ضرورت مند نہیں ہوتا نہ ہی اس کے لیے کوئی وقت یا ماحول مخصوص ہوتا ہے۔

عشق کیا نہیں جاتا عشق ہو جاتا ہے۔ کشش، انسیت، محبت میں عقل انسان کو مسلسل گائیڈ کرتی رہتی ہے، عشق میں عقل وجدان کے تابع ہو جاتی ہے۔ محبت میں دو ہستیاں ہوتی ہیں ایک محب اور دوسرا محبوب۔ عشق میں صرف ایک ہی ہستی ہوتی ہے۔ اسی ہستی کا جلال عشق کو سوز عطا کرتا ہے۔ اسی ہستی کا جمال عشق کو آسودگی بخشتا ہے اور وہ ہستی ہے

معشوق

محبت میں دوئی ہوتی ہے۔ میں اور تو ہوتے ہیں۔ عشق میں وحدت ہوتی ہے۔ عشق میں ، میں نہیں ہوتا۔ صرف تو ہوتا ہے۔ ہر طرف تو ہی تو ہے۔ عاشق کو اس دنیا میں ہر طرف، ہر نظارے میں اپنا معشوق نظر آتا ہے۔

ایک دوسرے کے ساتھ انسیت یا محبت کی ڈور میں بندھے ہوئے دو افراد میں سے کوئی کسی کے لیے تھوڑا سا بھی ایثار کرتا ہے، ذرا سی تکلیف بھی اٹھاتا ہے تو کہتا ہے یا کہتی ہے کہ دیکھ میں نے تیرے لیے یہ کیا وہ کیا۔ راہ عشق کا مسافر بڑے سے بڑی تکلیف گہرے سے گہر از خم کھا کر بھی کہتا ہے یہ تو میں کچھ بھی نہ کر سکا حتی کہ راہِ عشق میں جان تک دے ڈالنے کےباوجود وہ سوچتا ہے کہ حق ادانہ ہوا۔ عشق کی یہ تعریف Definition اور عشق کے یہ انداز کوئی خیالی اور تصوراتی باتیں نہیں ہیں۔ یہ اس مادی دنیا کے کسی فکلیٹی کا پیش کردہ نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ تعریف ہے اور عشق کے یہ وہ انداز ہیں جو حقیقت کے متلاشی لوگوں نے تاریخ کے صفحات سے اخذ کئے گئے ہیں۔

اس کی نمایاں ترین مثال اللہ کے دوست، ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور آپ کے عظیم المرتبت صاحبزادے حضرت اسمعیل علیہ السلام ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ عشق کے ایک نہیں کئی انداز سے مزین ہے۔

اللہ کی وحدانیت کی دعوت دینے کی پاداش میں بادشاہ کے حکم پر انہیں تیز و تند بھڑکتی ہوئی آگ میں پھنکوادیا گیا لیکن حضرت ابراہیم نے اف تک نہ کی۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق پڑھاپے میں ملنے والی اولاد اسمعیل کو ان کی نوجوانی کے دور میں اللہ کے اشارے پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اس کام کے لیے خود اپنے بیٹے اسمعیل کی مرضی معلوم کی

اسمعیل نے مثبت جواب دیا …. باپ بیٹے کا یہ حیرت انگیز قصہ عشق کا ایک اور زریں باب ہے۔

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی عشق کا ایک انداز دنیا کو حضرت سمیہ نے سکھایاکہ کس طرح مشرکین مکہ کے مظالم سہتے سہتے ابو جہل کی برچھیوں کو اپنے نازک بدن پر جھیل کر اسلام کی پہلی شہید ہونے کی سعادت پائی ..

حضرت بلال حبشی ؓنے اپنے عمل سے بتایا کہ کس طرح تپتے انگاروں پر لیٹ کر احد احد کی لاہوتی صدا بلند کی جاتی ہے …

عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر کہلاتا ہے تو کوئی باب العلم۔

عشق دم جبرئیل ، عشق دل مصطفى عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام عشق کی تقویم میں، عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام اسی عشق کی خاطر حضرت امام حسین نےدشتِ کربلا میں شہادت پائی۔ عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بہت کدہ تصورات صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق عشق ایسا جذبہ ہے، ایسی قوت ہے کہ جس کے ذریعے حقیقت کا طالب بڑے بڑے مشکل مسئلے بہت آسانی سے طے کر جاتا ہے۔ اویس قرنی، حسن بصری، رابعہ بصری بایزید بسطامی، جنید بغدادی، معروف کرخی، ذوالنون ، شبلی، منصور حلاج، امام غزالی، ابو حسن خرقانی، عبد القادر جیلانی، گنج بخش، خواجه معین الدین، بختیار کاکی ، گنج شکر، نظام الدین ، نظام الدین اولیاء، صابر کلیاری، امیر خسرو، ابن عربی، شمس تبریز، رومی، شیخ سعدی، عطار، رازی، بو علی سینا، ابوالحسن شاذلی، جامی، شہاب الدین سہر وردی، بہاء الدین زکریا، لعل شہباز، بھٹائی ، سچل سرمست، غلام فرید، بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، سبھی راہِ عشق کے مسافر ہیں۔

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے آہ سحر گاہی فی زمانہ، جس چیز کو انسان عشق کے نام سے جانتا ہے وہ مجازی اور محدود عشق ہے جو ع د عشق ہے جو عشق حقیقی کی ایک محدود جھلک ہے۔

حقیقی عشق ایک وجودی اصل ہے جو بنیادی اور مستحکم – ا ہے اور تبدیلیوں اور تغیرات پر مشتمل نہیں۔ محبت کی عام سطح روز مرہ زندگی، جنسیت، دوستی اور دوسری کشتوں میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ بعض دانشور عشق کو جذباتیت، حساسیت اور رجائیت کا نام دیتے ہیں، یہ جو بعض جگہ کچھ عامیانہ اور گھسے پٹے سے شعر لکھے نظر آتے ہیں۔ کسی ویب سائٹ پر، کسی بلاگ پر، کسی رکشے پر ، اور انہیں عشق سے منسوب کیا جاتا ہے یہ حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ بعض جگہ لکھے گئے کچھ اشعار شغل کے طور محبت میں گرفتار ہونے کی کیفیت کا اظہار تو کرتے ہیں مگران سے عشق کی حقیقت کو سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی بنجر زمین پر زعفران کی فصل کاشت کرنا۔ اکثر لوگ غلطی سے جنسی جذبے اور حیاتی جنسیت کو محبت کی اعلی ترین شکل سمجھ لیتے ہیں، جب کہ یہ حقیقت میں محبت کی بھی کم ترین شکل ہوتی ہے۔ عشق اضطراری کیفیت، ہیجان، جنسی ہوس کا نام نہیں ہے۔ عشق کی کیفیت کی وضاحت کرنا ممکن نہیں ہے، یہ تو ایک ایسا جذبہ ہے جس کا پتہ تجربے سے ہی چلتا ہے۔

عشق ایک عطیہ الہی اور نعمت ازلی ہے۔ اسےبعض نے فطرت انسانی کے لطیف ترین حسی پہلو کا نام دیا ہے۔ اور بعض نے روح انسانی پر الہام و وجدان کی بارش یا نور معرفت سے تعبیر کیا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری2022

Loading