Daily Roshni News

عیدالاضحی کا نفسیاتی پیغام”۔۔۔ تحریر۔۔۔ندا اسحاق

“عیدالاضحی کا نفسیاتی پیغام”

تحریر۔۔۔ندا اسحاق

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔“عیدالاضحی کا نفسیاتی پیغام”۔۔۔ تحریر۔۔۔ندا اسحاق)کسی بھی مذہب کی روسومات یونہی بےجا نہیں بنتی، ان رسومات کے پسِ پشت گہرے نفسیاتی پیغام ہوتے ہیں، مذہبی رسومات آپ کے جذبات اور نفسیات کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔ مذہبی رسومات میں علامات ہوتی ہیں جنہیں سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

نفسیات اور مختلف مذاہب کو پڑھنے کی وجہ سے میرا مذہبی رسومات کو سمجھنے کا تصور بڑی حد تک تبدیل ہوا اور عیدالاضحی بھی ان میں سے ایک ہے جس سے مجھے دو نفسیاتی پہلو کو سمجھنے اور اسے عملی زندگی میں شامل کرنے کا موقع ملا۔

پہلا نفسیاتی پہلو: (لاتعلقی ) (Detachment)

والدین سب سے زیادہ جذباتی طور پر اپنے بچوں سے جڑے ہوتے ہیں، یہ فطرت کی طرف سے ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی توسیع سمجھتے ہیں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ اکثر ہمارا اپنے بچوں سے جذباتی لگاؤ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم کے لیے اپنے ہی بیٹے کی قربانی دینا کوئی آسان فیصلہ نہیں رہا ہوگا، لیکن انکا حکمِ الٰہی کو ماننا یہ بتاتا ہے کہ وہ یقیناً آگاہ تھے اور اسی آگاہی کی وجہ سے ان کے لیے اس کٹھن فیصلے پر عمل کرنا ممکن رہا ہوگا۔ حکمِ الٰہی یا پھر کائنات کی قوت کہہ لیں، ہمیں ایسے مقام پر لاکر کھڑا کرتی ہے جہاں حالات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اپنی گرفت اور لگاؤ کو چھوڑ اس چیز کو جانے دیں جس سے ہمیں شدید لگاؤ ہے، لیکن زیادہ تر لوگ نہیں کرپاتے ایسا جذباتی لگاؤ کی وجہ سے۔ اور جب ہم یہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تب ہم اس چیز کے ساتھ اس ایک مقام پر پھنس کر رہ جاتے ہیں اور زندگی بھر اذیت میں رہتے ہیں۔ کائنات/حکمِ الٰہی کا ٹیسٹ دنیا کے سارے ٹیسٹ سے مشکل ترین ہوتا ہے، اچھے اچھے ہار مان جاتے ہیں۔

دوسرا نفسیاتی پہلو: (Right vs Good)

مجھے بہت الرجی ہے لفظ “اچھا” سے، اچھے کام کرو، اچھا محسوس کرو، اچھے لوگ، اچھائیاں….. یہ انتہائی بیکار سی باتیں لگتی ہیں۔ زندگی میں سب سے اہم فرق ہے “اچھا” اور “صحیح” کا فرق۔

اور ایک بات یاد رکھیے گا کہ دنیا کی تمام اچھی چیزیں، اچھے کام، اچھے لوگ ضروری نہیں کہ “صحیح” بھی ہوں!

اور ضروری نہیں کہ سارے “صحیح “ کام اچھے ہوں۔

زیادہ تر صحیح کام بظاہر برے، بیکار، فضول، بورنگ اور تکلیف دہ لگتے ہیں۔ لیکن انکا انجام ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کام جو بظاہر بہت اچھے محسوس ہوتے یا لگتے ہیں انکا انجام درست نہیں ہوتا عموماً۔

حضرت ابراہیم کو بھی ایک باپ ہونے کی حیثیت سے یقیناً اچھا تو نہیں محسوس ہوا ہوگا حضرت اسماعیل کی قربانی دینے کا سوچ کر، لیکن وہ یہ ضرور جانتے تھے کہ حکمِ الٰہی ہے تو غلط نہیں ہوسکتا، یہ صحیح ہے اور یہ صحیح کام ضروری ہے…. اور کائنات کی لازوال قوت حضرت ابراہیم کا ٹیسٹ ہی تو لے رہی تھی، اگر وہ جڑے رہتے جذباتی طور پر، اور سوچتے کہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا اپنے بیٹے کو یوں “جانے دینا” (let go) کرنا، تو شاید وہ اس ٹیسٹ میں پاس نہیں ہوتے اور یقیناً نتائج آج کچھ اور ہوتے۔

مہابھارت پڑھتے وقت اس بات کا اندازہ ہوا جب کرشنا “بھیشما” (اس وقت کا منسٹر) کو موت کے گھاٹ اتارنے سے پہلے کہتا ہے کہ اگر وہ اپنے بیٹے “دریودھن” کی محبت میں اسکو بادشاہ نہیں بناتا یا پھر اپنے بیٹے کو طاقت کا غلط استعمال کرنے سے روکتا تو مہابھارت کی جنگ نہ چھڑتی اور تباہ کاریاں ہونے سے بچ جاتی۔

بھیشما کہتا ہے کرشنا سے کہ اسے اپنے بیٹے سے محبت تھی اور اس نے اپنا فرض پورا کیا ایک باپ ہونے کے ناطے…. کرشنا جواب دیتا ہے، “تم جذباتی لگاؤ کا شکار تھے، تم نے اپنے بیٹے کو سنگھاسن تو دے دیا لیکن اسے نظم و ضبط، “صحیح اور اچھے” میں فرق کرنا نہیں سکھایا جو کہ تمہارا فرض تھا ایک باپ ہونے کے ناطے، جسکا درد اب تم اور تمہارا بیٹا دونوں برداشت کرو گے۔”

درد صرف جسمانی نہیں ہوتا… سب سے خطرناک درد جذباتی اور نفسیاتی درد ہوتا ہے، چونکہ جذباتی درد دکھتا نہیں تبھی ہمیں لگتا ہے کہ صحیح کام نہ کرنے والے کو اسکا انجام نہیں ملا۔ خود کو اور اپنے بچوں کو “آزادی” اور “نظم و ضبط” دونوں کے درمیان کا رقص سکھائیں، زندگی رقص ہے آزادی اور نظم و ضبط کے درمیان۔

لاتعلقی اور صحیح کام کرنا ہمیں روحانیت کی جانب لے کر جاتا ہے۔ اس عید الاضحی پر محض گوشت بانٹ کر ہی لاتعلقی کا اظہار نہ کریں بلکہ آپ کے پچھتاوے، ماضی کی غلطیاں، لوگ، آپ کی اولاد، اپنی کامیابی، شخصیت، خوبصورتی یا چیزوں سے جو لگاؤ ہے اسکو بھی “جانے دیں” بلکل آسٹریلیا کے کپتان کی طرح جو ورلڈ کپ کی کامیابی کو حاصل کرنے اور اسکا جشن منانے کے بعد اسکو محض اپنی ٹانگوں کو آرام دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عیدالاضحی ایک ایسا تہوار ہے جو آپ کو روحانی نشونما کی تلقین دیتا ہے اور روحانیت “عمل” کرنے سے ملتی ہے محض آیتیں پڑھنے سے نہیں۔

Loading