Daily Roshni News

عید قربان اور گوشت کھانے کی احتیاط

عید قربان اور گوشت کھانے کی احتیاط

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل )عید الاضحٰی کے موقعے پر گھروں میں تازہ اور صحت بخش گوشت وافر مقدار میں میسّر ہوتا ہے،تو اس گوشت کی اہمیت اور اس کے مختلف اجزاء سے متعلق عوام النّاس کو معلومات بھی حاصل ہونی چاہئیں۔

قربانی کے جانوروں  (ان جانوروں میں اونٹ، بیل، گائے، بھینس، دنبہ، بکرا، بھیڑ اور مینڈھا شامل ہیں ) کا گوشت اپنی نوعیت کے اعتبار سے سُرخ گوشت(Red meat) کہلاتا ہے، جب کہ مچھلی، مرغی اور دیگر پرندوں کے گوشت کو سفید گوشت (White meat) قرار دیا گیا ہے۔

مرغی اور مچھلی  کا گوشت سفید ہوتا ہے کیونکہ اس میں میوگلوبن myoglobinکم ہوتا ہے، جو کہ پٹھوں میں آئرن سے بھرپور پروٹین ہوتا ہے جو گوشت کو سرخ رنگ دیتا ہے۔ سفید گوشت، جو مرغی کی  سینے اور پروں سے آتا ہے، میں تقریباً 10 فیصد سرخ ریشے ہوتے ہیں، جب کہ  نسبتا سیاہ گوشت، جو ٹانگوں اور رانوں سے آتا ہے، تقریباً 50 فیصد سرخ ریشے پر مشتمل ہوتا ہے۔میوگلوبن خون سے آکسیجن کو اس وقت تک ذخیرہ کرتا ہے جب تک کہ پٹھوں کے خلیوں کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ وہ عضلات جو زیادہ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں، جیسے ٹانگوں کو، زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے ذخیرہ کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ گہرے گوشت کے پٹھوں میں زیادہ میوگلوبن ہوتا ہے، جو انہیں ایروبک سانس لینے کے لیے زیادہ موثر طریقے سے آکسیجن کا استعمال کرنے دیتا ہے۔ جب پکایا جائے تو میوگلوبن میٹمیوگلوبن میں بدل جاتا ہے، جو گہرے گوشت کو اپنا رنگ دیتا ہے۔

گائے کے گوشت کو سرخ گوشت کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں چکن یا مچھلی سے زیادہ میوگلوبن ہوتا ہے۔ آکسیجن خون میں سرخ خلیات کے ذریعے پٹھوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ گوشت میں پروٹین میں سے ایک، میوگلوبن، پٹھوں میں آکسیجن رکھتا ہے. جانوروں کے پٹھوں میں میوگلوبن کی مقدار گوشت کے رنگ کا تعین کرتی ہے۔سفید گوشت عام طور پر  سرخ گوشت کی نسبت چربی اور کیلوریز میں کم ہوتا ہے، اور اس میں سیر شدہ چکنائی کم ہوتی ہے۔ تاہم، آپ کی صحت اور غذائیت کے اہداف کے لحاظ سے سفید اور گہرا گوشت چکن دونوں صحت مند انتخاب ہو سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر ہماری غذا میں چھے اہم اجزاء شامل ہوتے ہیں۔نشاستہ یا کاربوہائیڈریٹس، لحمیات یا پروٹین، چربی، نمکیات، وٹامن اور پانی۔یہ تمام اجزاء ہماری زندگی کے لیے بہت اہم ہیں کہ جسم کی مشینری کو اپنے افعال انجام دینے کے لیے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ تمام اجزاء کسی نہ کسی درجے میں گوشت میں پائے جاتے ہیں۔یوں گوشت استعمال کرنے کے نتیجے میں یہ تمام اہم غذائی اجزاء ہمارے جسم کو فراہم ہو جاتے ہیں۔

گوشت زندگی کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ اس میں پروٹین کی مقدار سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔

اگرآپ 100 گرام گوشت استعمال کرتے ہیں تو آپ کو 26 گرام پروٹین ملتے ہیں۔ اگر آپ اس کا دال سے موازنہ کرتے ہیں تو 100 گرام دال سے آپ کو صرف نو گرام پروٹین ملتے ہیں۔‘

گوشت میں آئرن کی مقدار ہے جس سے زنک ملتا ہے۔

وٹامن ڈی 12 گوشت میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔

مٹن اور بیف کے استعمال سے آپ کی جلد اور بال اچھے ہوسکتے ہیں۔

مٹن اور بیف کھانے سے خون کی کمی یعنی اینیمیا سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

یہ اعصابی نظام اور دماغی کارکردگی کو بھی بہتر بناتا ہے۔

بلاشبہ گوشت بہت اچھی غذا ہے، مگر اس کے استعمال میں اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ اس ضمن میں ماہرینِ اغذیہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ایک دِن میں کھائے جانے والے گوشت کی مقدار ایک سو گرام تک ہوسکتی ہے، البتہ پورے ہفتے میں یہ مقدار آدھا کلو گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ ہفتے میں صرف دو بار سُرخ گوشت استعمال کیا جائے۔ تاہم ، یومیہ بنیادوں پر گوشت استعمال کرنے کی صُورت میں ہفتے بَھر کی مجموعی مقدار 500گرام یا آدھا کلو گرام سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

عیدالاضحٰی کے تینوں ایّام میں اگر ایک فرد 250گرام گوشت پورے دِن میں استعمال کرتا ہے، تو اس مقدار کو وقتی طور پر قابلِ قبول کہا جا سکتا ہے۔ اتنا گوشت کبھی نہیں استعمال کرنا چاہیے کہ ’’خمارِ لحم ‘‘ کی کیفیت طاری ہو جائے اور انسان عقل و خرد سے بیگانہ ہی ہو جائے۔ اب یہ یہاں سوال سامنے آتا ہے کہ قربانی کا گوشت کیسے اور کب استعمال کیا جائے؟ تو اس حوالے سے ذیل میں کچھ اہم نکات درج کیے جارہے ہیں، جن کا خیال رکھنا ہر فرد کے لیے فائدہ مندہے۔

٭قربانی کے فوری بعد گوشت استعمال کرنا مناسب نہیں۔ کم از کم تین سے چار گھنٹے گوشت کُھلی فضا میں ڈھک کر رکھنا بہتر ہوگا۔٭گوشت اچھی طرح دھویا لیا جائے، تاکہ خون صاف ہوجائے۔

٭گوشت چاہے، جس شکل میں بھی کھایا جائے، مرچ مسالا تیز نہ ہو۔

٭تکّے، کباب ضرور کھائیں، مگراعتدال کے ساتھ۔

٭گوشت کے ساتھ سلاد، لیموں اور دہی کا استعمال ضرور کریں۔

٭ دو وقت گوشت استعمال کرنے کی صُورت میں ایک وقت سبزی لازماً استعمال کی جائے۔

٭دو کھانوں کے درمیان چھے گھنٹے کا وقفہ ضروری ہے۔

٭زیادہ شوربے والے کھانوں کو ترجیح دی جائے۔

٭گوشت کے استعمال کے ساتھ پانی زیادہ سے زیادہ پیئں۔

٭کھانا آہستہ آہستہ اور چبا کر کھائیں۔ ٭گوشت کے پکوان کھانے کے بعد دِن بَھر آرام نہ کریں، بلکہ ہلکی پھلکی ورزش کا سلسلہ جاری رکھیں۔

بعض افراد یہ استفسار بھی کرتے ہیں کہ گوشت کے ساتھ مشروبات کا استعمال ٹھیک ہے یا نہیں؟ تو حقیقت یہ ہے کہ کاربولک اور تیزابی مشروبات کے استعمال سے اجتناب برتنا ہی بہتر ہے۔ کولڈڈرنکس کسی بھی طرح ہماری صحت کے لیے مفید نہیں۔ ان کے بجائے لیموں پانی اور تازہ پھلوں کا جوسز استعمال کیے جائیں۔ نیز، سبز چائے کا زائد استعمال بھی مفید ہے، تو اسپغول بھی نظامِ انہضام کے لیے مددگار اور معاون ثابت ہوتا ہے۔

قربانی کا گوشت تازہ، صحت بخش اور غذائیت سے بَھرپور ہونے کے باعث زیادہ کیلوریز پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا زائد استعمال صحت کے لیے مختلف اعتبار سے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ مثلاً:

٭چکنائی کی زیادتی اور دِل کے امراض: سُرخ گوشت میں چکنائی زائد مقدار میں پائی جاتی ہے، تو اگر گوشت کا استعمال بڑھ جائے، تو ظاہر سی بات ہے کہ جسم میں کولیسٹرول کی مقدار بھی بڑھ جائے گی اور کولیسٹرول کی زیادتی انتہائی خطرناک ہے کہ اس سے دِل کے امراض لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پھر زائد عُمر والوں کو تو خصوصی احتیاط برتنی چاہیے۔ چکنائی کی مقدار بڑھنے سے خون کی نالیوں میں تنگی ہو سکتی ہے اور دِل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔

٭بُلند فشارِ خون: عید الاضحٰی کے موقعے پر بُلند فشارِخون کے مریضوں کے لیے لازم ہے کہ احتیاط اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ عموماً چٹ پٹے پکوانوں میں مختلف مسالوں اور نمک کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے، تو ان پکوانوں کے استعمال سے خون کا دباؤ یقینی طور پر بڑھ سکتا ہے۔

٭عوارضِ جگر: کولیسٹرول کی مقدر بڑھنے سے جگر پر بھی مضر اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں۔ بعض افراد فیٹی لیور کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس مرض میں جگر کے خلیات میں غیر معمولی طور پر چربی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ فیٹی لیور اور جگر کے دیگر امراض میں مبتلا مریض سُرخ گوشت کا استعمال انتہائی احتیاط سے کریں۔

٭نظامِ ہاضمہ کے مسائل: گوشت استعمال کرنے کے بعد ہر فرد کے معدے کا ردِّعمل یک ساں نہیں ہوتا۔ اِسی لیے سُرخ گوشت کے استعمال سے قبض اور اسہال دونوں قسم کی شکایات پیدا ہو سکتی ہیں۔ معدے کی تیزابیت اور جلن کا بھی خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ کئی افراد معدے کی گرانی اور گیس کی زیادتی کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر گوشت صاف ستھرا نہ ہو، تو معدے اور آنتوں کے انفیکشن یاGastroenteritisکا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے، جسے عرفِ عام میں گیسٹرو کہہ دیا جاتا ہے۔ پھر الٹی اور متلی کی شکایات بھی کثرت سے ہوتی ہیں۔ السر کے مریضوں کو تو مسالے دار گوشت سے قطعاً گریز کرنا چاہیے۔

٭یورک ایسڈ کی زیادتی: چوں کہ سُرخ گوشت کے استعمال سے خون میں یورک ایسڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے،لہٰذا گٹھیا یا گوٹ(Gout)اور جوڑوں کے بعض دیگر امراض میں مبتلا افراد کے لیے سُرخ گوشت کا استعمال خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

٭سرطان کا خدشہ: طبّی ماہرین کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ سُرخ گوشت کے زائد استعمال سے مختلف اقسام کے کینسرز جنم لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ افراد، جو پہلے ہی سے کسی قسم کے سرطان میں مبتلا ہوں، اُن کے لیے بھی سُرخ گوشت کا زائد استعمال ٹھیک نہیں کہ یہ مزید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ منجمد یا فروزن گوشت کا استعمال بھی بہت احتیاط سے کرنا چاہیے۔

٭امراضِ گُردہ: سُرخ گوشت کا زائد استعمال امراضِ گُردہ میں مبتلا مریضوں کے لیے مناسب نہیں۔ ان افراد کو گوشت خُوب گلا کر اور کم مقدار میں استعمال کرنا چاہیے۔ دراصل، گوشت میں موجود بعض اجزاء گُردوں پر کام کا اضافی بوجھ ڈال دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی طبّی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

٭مسوڑھوں کے امراض: سُرخ گوشت کا ضرورت سے زائد استعمال مسوڑھوں میں وَرم یا سوزش کا سبب بنتا ہے، جب کہ مسوڑھوں کے دیگر امراض بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔

٭زائد وزن: عید الاضحٰی کے موقعے پر اکثر وہ افراد بھی بداحتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، تو سُرخ گوشت میں موجود مخصوص قسم کی چکنائی وزن میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔ وہ افراد جو غذائی ماہرین کے تجویز کردہ ڈائیٹ چارٹ کے مطابق غذا استعمال کرتے ہیں، اُنہیں عید الاضحٰی کے موقعے پر بھی ماہرین کی ہدایات فراموش نہیں کرنی چاہئیں۔

٭ذیابطیس: دیکھا گیا ہے کہ ذیا بطیس کے شکار افراد اس خوش گمانی کا شکار ہوتے ہیں کہ سُرخ گوشت میں چوں کہ شکر نہیں پائی جاتی، لہٰذا وہ اس کا آزادانہ استعمال کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سُرخ گوشت کا زائد استعمال خون میں شکر کی مقدار بڑھا دیتا ہے۔ 2020ء میں کی جانے والی ایک امریکی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچاس گرام سُرخ گوشت کا روزانہ استعمال ذیابطیس کے خطرے کو گیارہ فی صد بڑھا دیتا ہے۔ نیشنل یونی ورسٹی، سنگاپور نے بھی سُرخ گوشت کے زائد استعمال کو ذیابطیس کے مریضوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

درج بالا تمام خطرات کے باوجود گوشت کا استعمال ہماری جسمانی ضرورت ہے، البتہ ایک مخصوص حد سے تجاوز ہرگز نہ کریں۔ عموماً عیدِ قرباں کے موقعے پر عزیز و اقارب اور مساکین میں گوشت تقسیم کرنے کے بعد بھی خاصی مقدار میں ہمارے پاس موجود رہتا ہے،جسے محفوظ رکھنا ہر گھر کی ضرورت ہے

گوشت محفوظ/فریز کرنے کے ضمن میں چند ایک اصولوں پر عمل کرلیا جائے، تو کئی طبّی مسائل سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ مثلاً:

٭گوشت کے پارچے اچھی طرح دھو کر چھلنی میں رکھیں، تاکہ اضافی پانی نکل جائے۔

٭الگ الگ شفّاف پلاسٹک کی تھیلیوں میں گوشت کے پارچے رکھیں،تاکہ کرجلد فریز ہوجائیں۔

٭فریزڈ گوشت ایک ماہ کے اندر استعمال کرلیا جائے تو بہتر ہے۔ طویل عرصے کے لیے گوشت فریز کرنا صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ بعض افراد عید الاضحٰی کے کئی ماہ بعد تک گوشت استعمال کرتے رہتے ہیں، جو مناسب نہیں۔

٭گوشت پکاتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھیں کہ وہ کچّا پکّا نہ ہو، بلکہ مکمل طور پر پکایا جائے۔

٭اگر فریزڈ گوشت اچھی طرح نہ پکایا جائے،تو اس میں موجود بیکٹیریا ختم نہیں ہوتے اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

٭پکا ہوا سالن فریج میں رکھنا ہو، تو اُسے محض دو سے تین دِن ہی تک رکھا جائے۔

مرتب کنندہ :

#حمیر_یوسف

Loading