Daily Roshni News

تراشنے میں لگے، جن کو، زمانے اپنے۔۔۔شاعر۔۔۔ ناصر نظامی

غزل

شاعر۔۔۔ ناصر نظامی

تراشنے میں لگے، جن کو، زمانے اپنے

بن گیا آج خدا، درد نہ، جانے اپنے

جن کو انگاروں سے، ہے پھول بنایا ہم نے

لگے ہیں، پھول وہی ہاتھ، جلانے اپنے

ہاتھ راہزن کے کہاں، آئے، خزانے اپنے

ہم کو تو لوٹ لیا، راہنما نے، اپنے

اپنی خود داری کا، ہم نے کیا نہ سودا کبھی

سر کبھی ہم کو نہیں، آئے، جھکانے اپنے

علم اٹھاتے ہیں جو لوگ حق نمائی کا

ایک دن پڑتے ہیں سر، ان کو، کٹانے اپنے

جن کو ناموس محبت عزیز ہوتی ہے

خون دل ان کو ہی آتے ہیں، بہانے اپنے

جو ان کے گھر کا پتا، پوچھتے پھرتے ہیں ہم

ان کے کوچے میں، ہیں پھرنے کے، بہانے اپنے

نگاہ ٹھٹھکی کبھی، لرز گیا ہاتھ اپنا

خطا گئے ہیں سبھی یارو، نشانے اپنے

اپنے ہی شہر میں لگتے ہیں اجنبی خود کو

لوگ کتنے تھے کبھی، جانے پہچانے اپنے

ہم اپنے گھر کا کسی کو پتہ بتائیں کیا

قدم قدم پہ بدل جاتے ہیں۔۔۔ ٹھکانے اپنے

اب تو آوارگی بھی تھک گئی ہے چل چل کے

پوچھے کیا ہوں گے کبھی گھر کو بھی، جانے اپنے

لاکھ مشکل میں ہو جاں،پھر بھی مسکراتے ہیں

آگئے ہم کو بھی دکھ درد، چھپانے اپنے

ہم نے چپ چاپ سہے ستم ظریفوں کے ستم

ہم کو آئے نہ کبھی شکوے، سنانے اپنے

در بدر پھرنا تھا یوں، کو بہ کو گھومنا تھا

لکھا نصیب ہی ایسا تھا، خدا نے، اپنے

دل میں ہی دم نہ رہا اور جیتے رہنے کا

دئیے بجھائے کہاں تیز ہوا نے اپنے

اپنے ہی حال میں گم رہتے ہیں ہم تو ناصر

ہم کو آئے نہیں احوال، بتانے اپنے

ناصر نظامی

Loading