غزہ کے لئے “ٹرمپ پلان” نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پلان کے مطابق 20 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر اور اردن میں پناہ دی جائے گی۔ اس کے بعد امریکہ غزہ کی “ملکیت” سنبھال لے گا اور وہاں پر اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک بین الاقوامی شہر بنائے گا جس کے زریعے رئیل اسٹیٹ اور tourism انڈسٹری کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس پلان کے پیچھے ٹرمپ کا داماد Jared Kushner ہے جو کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے اربوں ڈالر کمانا چاہتا ہے۔ یعنی فلسطینیوں کی نسل کشی کو ایک منافع بخش پراجیکٹ میں تبدیل کیا جارہا یے۔
ایک لحاظ سے یہ عمل 1917 میں ہی شروع ہوگیا تھا جب Balfour Declaration کے تحت برطانیہ نے ہزاروں لاکھوں یہودیوں کو فلسطین میں پناہ دینا شروع کی۔ 1920, 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں یورپ میں یہودیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا جس کا اظہار یورپی فاشزم کے زریعے کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین کے لئے روانہ ہوئی یعنی یورپی ممالک کے جرائم اور فسطائیت کی سزا فلسطینیوں کو بھگتنی پڑی۔
1948 میں بغیر کسی سمجھوتے کے اسرائیل کا اعلان کردیا گیا اور 1950 کی دہائی میں اسرائیل کو تمام یورپی اور امریکی ممالک کی طرف سے امداد ملنا شروع ہوگئی۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ اس خطے کو بادشاہتوں کے ذریعے کنٹرول میں رکھا جائے لیکن یہ حکمت عملی خلیجی ریاستوں کے سوا ہر جگہ ناکام ہوئی۔ مصر میں جمال ناصر کی فوجی بغاوت کے ذریعے عرب مزاحمت کا شاندار سلسلہ شروع ہوا جس میں شام، عراق، لیبیا، شامل ہوئے جبکہ اردن سے لے کر لبنان، یمن اور کئی ممالک میں سامراج مخالف تحریکوں کی لہر دوڑ گئی۔ 1960 کی دہائی میں ہی یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن PLO کا قیام عمل میں آیا جس نے فلسطین کی آزادی کو پوری عرب دنیا کی آزادی کے ساتھ جوڑ دیا۔
یہ خطہ قدرتی وسائل، خصوصا تیل، اور geostrategic value کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ سوویت یونین نے شروع میں اسرائیل کی حمایت کی لیکن جیسی ہی عرب دنیا میں مزاحمت شروع ہوئی اور اسرائیلی چہرہ بے نقاب ہوا، ماسکو نے اپنی حمایت عرب انقلابیوں کو دینا شروع کردی۔ اسی طرح مغرب کے لئے اسرائیل کی اہمیت بڑھ گئی۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ اسرائیلی لابی امریکہ کو کنٹرول کرتی ہے۔ کسی بھی لابی کے لئے سامراج کو کنٹرول کرنا آسان نہیں۔ حقیقت میں اسرائیل کی اہمیت واشنگٹن کے لئے یہ ہے کہ وہ عرب دنیا میں سامراج مخالف قوتوں کو شکست دینی کی صلاحیت رکھتا ہے اور عرب مزاحمت کو 1967 اور پھر 1973 کی جنگوں میں شکست دے کر اس نے سامراجی ایجنڈے کو تقویت پہنچائی۔ امریکی سکالر Max Ajl کے مطابق سامراج اپنے حریفوں کو صرف شکست دینا کافی نہیں سمجھتا بلکہ ان پر ایک شکست خوردہ کیفیت (subjectivity of defeat) طاری کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ دشمن کی غیر مقبولیت کے باوجود اس کی حاکمیت کو قبول کرلیں۔ عرب دنیا میں اس کام کی زمہ داری سامراج نے اسرائیل کو سونپی ہوئی ہے۔
1980 سے لے کر آج تک مجموعی طور پر مشرقی وسطی ایک شکست خوردہ علاقہ رہا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد معاشی اور عسکری امداد بھی ختم ہوگئی، 1993 کے Oslo Accords میں یاسر عرفات نے اسرائیل کے آگے compromise کرلیا، عراق، شام اور لیبیا پابندیوں کی وجہ سے کمزور ہوگئے جبکہ بعد میں ان پر جنگیں مسلط کرکے ان کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ لیکن مزاحمت کے خاتمے کے باوجود کوئی امن قائم نہیں ہوسکتا کیونکہ امن انصاف مانگتا ہے۔ 2007 میں غزہ پر پابنیاں لگائی گئیں اور اس کے بعد ہر کچھ سال بعد شدید بمباری کی گئی۔ اگر مان لیا جائے یہ سب کچھ حماس کے انکار کی وجہ سے ہوا تو West Bank, جہاں پر اسرائیل کی مرضی کی حکومت ہے اور جو USAID کے پیسوں سے چلتا تھا، وہاں پر بھی اسرائیل ہر سال مسلسل غیر قانونی بستیاں بنا کر ہزاروں لاکھوں فلسطینیوں کو بے دخل کررہا یے۔
ٹرمپ پلان کو حقیقت بنانے کے لئے Jared Kushner نے غزہ کو “صاف” کرنے کا عندیہ دیا ہے، یعنی بزاروں سال سے مقیم فلسطینی کو کیڑے مکوڑے تھے جن کی وجہ سے خطے میں “گند” موجود ہے۔ یہ وہ اٹھارویں اور 19 ویں صدی کا طرز گفتگو ہے جس کے زریعے سامراج نے دنیا بھر کے ممالک پر قبضہ کیا، ان کے عوام کو غلام بنایا اور ہر انسانی حق سے محروم رکھا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ Liberal imperialism کا وقت ختم ہوچکا ہے اور اب Nationalist imperialism کا دور ہے جس میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی اداروں کے پیچھے چھپنے کے بجائے سامراج سیدھا سیدھا طاقت کے ذریعے اپنی ضد منوائے گا۔ ٹرمپ اس nationalist imperialism کا نمائندہ جو بین الاقوامی ڈھانچے کو رد کرکے براہ راست امریکی طاقت کو عالمی سطح پر منوانا چاہتا ہے اور غزہ میں جارحیت اسی کی ایک کڑی ہے۔
اس پلان ہر عمل درآمد کرنا بلکل آسان نہیں ہوگا۔ پہلے تو اردن، مصر اور سعودی عرب جیسے امریکہ کے حواری بھی کھل کر اس کی مخالفت کرچکے ہیں کیونکہ یہ بات عرب عوام کو ہضم نہ ہوگی۔ دوسری جانب اردن پہلے ہی فلسطین سمیت پوری عرب دنیا سے تارکین وطن کو پناہ دے چکا ہے جس کے باعث اس کے پاس بھی گنجائش کم ہے۔ دوسری جانب عالمی اداروں سے امریکہ کی دستبرداری سے بننے والی خلا چین، روس اور دیگر ممالک پر کرنی کی کوشش کریں گے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون میں چین کلیدی کردار ادا کررہا ہے اور اگر ٹرمپ کا رویہ یہی رہا تو اس عمل میں بھی تیزی آنے کی توقع کی جاسکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب دنیا سمیت دیگر خطے 1990 کی دہائی کی شکست خوردہ کیفیت سے باہر نکل رہے ہیں۔ عراق میں امریکہ کے خلاف مزاحمت سے لے کر 2006 میں لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست اور حماس کی مزاحمت سے لے کر عرب دنیا میں فلسطین کے حق میں مظاہرے مجموعی رجحان کو بدل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یوکرائن میں امریکی عزائم کو پوٹن کے ہاتھوں شکست، چین کی نا رکنے والی معاشی اور عسکری ترقی، اور لاطینی امریکی ممالک میں بغاوت کے اظہار ایک نئی دنیا کی نوید ہیں جو 300 سالہ مغربی غلبے کو کمزور کررہی ہے۔
پاکستان کے لئے شرم کا باعث ہے اب تک ہم کھل کر ٹرمپ پلان کی مخالفت نہیں کرسکے حالانکہ ہمیں اردن اور مصر کی طرح کی امداد بھی نہیں ملتی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات اب بھی یہ امید لگا کر بیٹھےنہیں کہ اگر امریکہ کے کہنے پر خطے میں ڈالری جنگیں کرنا کا موقع ملے تو اسے ضائع نہ کیا جائے۔ یہ بےشرمی کے ساتھ ساتھ ایک ناقص حکمت عملی ہے جو امریکی کی زوال ہوتی ہوئی طاقت کو سمجھنے سے قاصر ہے اور ماضی کی بری عادتوں کی گرفت میں ہے۔ دوسری جانب ہمارے لبرل ہیں جو انتہا پسندی اور آمریت سے لڑائی کے نام پر کبھی اسرائیل اور فلسطین کو ایک کہہ دیتے ہیں اور کبھی امریکہ اور چین دونوں کو سامراج کہہ کر بے معنی قسم کی انقلابی لفاظی کرتے ہیں۔ اگر بڑی لڑائی لڑنی یے تو پھر پاپولر فرنٹ بنا کر ان تمام قوتوں کو یکجا کرنا ہوگا جو سامراج سے لڑائی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں ورنہ پورا سماج تباہی کی طرف سے دھکیل دیا جائے گا۔ بس خوش آئیند بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے USAID کے فنڈ بند کردئے ہیں جس کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ وہ لبرل جو انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر امریکہ کے جرائم پر پرزہ ڈالتے تھے اب پہلے کی نسبت کھل کر امریکی عزائم اور جرائم دونوں پر کھل کر تنقید کریں گے۔علی جان