Daily Roshni News

قرآن مجید اللہ تعالٰی کے صفاتی علوم کی الہامی کتاب اور اس کا کلام ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قرآن مجید اللہ تعالٰی کے صفاتی علوم کی الہامی کتاب اور اس کا کلام ہے، جس طرح آللہ  تعالٰی کی ذات اپنی صفات کے ساتھ اکمل و مکمل اور کامل طرزوں میں کائنات کے وجود سے پہلے تھی اسی طرح بعد میں بھی باقی رہے گی اور اس کا کلام بھی ہمیشہ ابدی اور قائم ودائم رہے گا، اللہ تعالٰی کےکلام کی ابتداء اسکے الفاظ ” کن” سے ہوئی اور پوری کائنات” فیکون” ہوکر مظہر بن گئی، اور اسی کائنات کا مطالعہ ہی قرآن ہے، مادی طرزوں میں کتابت یا طباعت کی شکل میں ہمارے گھروں میں جو قرآن مجید ہے وہ اسی کائنات کا Manual یا کتاب ہے، جس طرح کسی گاڑی، کمپیوٹر، فریج، ائرکنڈیشنر  یا موبائل  کو سمجھنے کے لئے اس کا کتابچہ، booklets  ہوتے ہیں بلکل اسی طرح قران کریم کائنات کے مظاہرات کو الفاظ میں بیان کرتا ہے،   سورہ فاتحہ اور  سورہ بقرہ سے لیکر سورہ فلق اور سورہ الناس تک سب کائنات کا ریکارڈ ہے، کائنات کا  کوئی ایسا  شعبہ نہیں جس کی  تفصیل قرآن مجید میں نہ بیان کی گئی ہو، سورہ  نباء میں ارشاد ہے کہ”  وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا ” کل اشیاء کو کتاب کے اندر  رکھ دیا گیا ہے”  اور اسی طرح سورہ اسراء میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں-

وَكُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا اور کل اشیاء کو تفصیلا بیان کردیا گیا ہے”،   قران کریم کوئی ماضی کی کتاب نہیں بلکہ اس کی ذات و صفات کی طرح ہر دور کی کتاب ہے ، جب سے کائنات وجود میں آئی اسی کے ساتھ ہی قرآن بھی نزول میں آگیا تھا ۔

قرآن مجید میں تفکر کی دو طرزیں ہیں

1۔ مادی طرز

2۔ الہامی طرز

مادی طرز یہ ہے کہ ہمیں ماحول اور معاشرے سے جو علم حاصل ہوا  اس کے مادی شعور سے ذہن کی ایک  مخصوص ساخت بن گئی اور یہ ساخت زندگی کے تقاضوں کو اسی کے تحت پورا کرنے لگی یہاں تک کہ انسان اپنا غور وفکر بھی اسی ساخت کے تحت کرنے لگ جاتا ہے ۔

الہامی طرز ایسی ہے کہ انسان سب سے پہلے ذہن کے اندر مادی ساخت کو صاف کرنا یا ختم کرتا ہے پھر وہ ایسی روشنیوں،  انورات و تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے جس سے اسکے دماغ کی ساخت روحانی یا الہامی حالت میں ڈھل جاتی ہے پھر وہ اپنے اسی مشاہدات کو مادی الفاظ میں بیان کرتا ہے، ان الفاظ کو ہر طرز فکر کا حامل  بندہ اپنے ذہن کی ساخت سے معنی و مفہوم اخذ کرتا ہے جبکہ الفاظ کے پس پردہ روشنی اور انوارات کا  ذخیرہ ہوتا ہے،

سورہ قریش کی الہامی طرزیں مادی الفاظ میں اس طرح بیان کی جاتی ہیں کہ قریش کا مطلب ایسے لوگ جو کائنات کے دونوں رخوں، دوحالتوں،  دو قریوں یا دو بستیوں س واقف ہوں،  یعنی قریش دو قریوں کو جاننے والا، گروہ یا  افراد ہیں لِاِیْلٰفِ کا معنی لف ہونا، جڑنا، منسلک ہونا, attached  ہونا، لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا مطلب یہ ہوا کہ دو رخوں سے منسلک یا لف ہونے والے لوگ ۔ انسانی زندگی میں دو رخ پر قائم تین طرزوں کا عمل دخل ہے اور باقی تمام تقاضے انہی سے ملکر وجود میں آتے ہیں

1۔ سردی اور گرمی

2۔ بھوک اور طعام

3۔ امن اور خوف

1۔ کرہ ارض کی تمام غذائی اجناس کا تعلق سردی گرمی سے ہوتا ہے عمومی فصلیں گرمی میں بیجیں جاتی ہیں اور سردیوں میں کاٹیں جاتی ہے اور کچھ فصلیں سردیوں میں کاشت کرکے گرمیوں میں حاصل کی جاتی ہیں، برصغیر میں مقامی طور پر اس کو اصطلاح میں ربیع اور خریف کی فصلیں بولا جاتا ہے۔

2۔ جہاں بھوک ہوگی وہ غذا یا طعام استعمال میں آئےگا، طعام انسانی زندگی کی بقا ہے اور کھانا پینا ایسے تقاضے ہیں جنکے  بغیر کوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتی،  قحط یا بھوک پیاس کی حالت میں موت سب سے  ذیادہ درد ناک سمجھی جاتی ہے ۔

3۔ کسی بھی انسانی معاشرے کی بقا ہمیشہ امن و امان کے اوپر قائم ہیں، کسی بھی قسم کا خوف انسانی معاشرے کی ایسی توڑ پھوڑ کر دیتا ہے کہ زندگی کی تمام طرزیں اذیت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ۔اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیْفِ کی طرز یہ بات واضح کرتی ہے کہ جس طرح سردی کی رحلت یا موت، منتقلی یا سفر کے بعد گرمی آتی ہے اور  گرمی کے بعد سردی  آتی ہے  اور دونوں رخ ایک دوسرے سے منسلک، جڑے ہوئے یا لف ہوتے ہیں، آگر ان میں ایک بھی رخ نہ ہو تو دوسرے رخ کا وجود بھی ختم ہو جائے گا،  قریش کی صلاحیت کا حامل دونوں رخوں سے اسی طرح لف ہونا ہے جس طرح سردی  کے ساتھ گرمی، بھوک کے ساتھ طعام یا غذا، اور خوف کے ساتھ امن جڑے ہوتے ہیں۔

اوپر بیان کردہ تینوں رخوں کا تعلق  اللہ تعالٰی کی صفت ربوبیت کے ساتھ ہے اگر کوئی سالک ان تینوں طرزوں سے عبادات کے ذریعے واقف ہوجاتا ہے تو وہ مقام یا گھر جہاں سے صفت ربوبیت کا نزول ہوتا ہے اسکے اندر رحلت یعنی موت ، سفر ، منتقلی یا فنائیت حاصل کر کے قریش کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے، قران کی یہ سورہ اسی صلاحیت کے حصول پر زور دیتی ہے۔

فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَیْتِ پر  تفکر یہ بات واضح کرتا ہے کے  انسانی زندگی میں گھر کا مقصد  تین ہی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے، کھانا پینا، سردی گرمی یعنی موسموں سے بچاؤ، اور خوف کے عوامل سے حفاظت یا امن ہے یہ مادی گھر کی بات  ہے جبکہ یہاں جس گھر  کی بات  ہورہی ہے  وہ انسانی زندگی کے تینوں تقاضے صفت ربوبیت کے تحت جس مقام سے نزول کرنے ہیں اس کو بیت یا  گھر کہا جا رہا ہے اور نوع انسانی کے تقاضوں کی تکمیل اور بقا صفت ربوبیت کے  اسی مقام یعنی گھر کے اندر داخل ہونے میں ہی ہے۔ قریشی ایک روحانی صلاحیت کا نام ہے جو بندہ سردی گرمی، بھوک پیاس کے  تقاضوں اور خوف کی کی حقیقتوں کے اندر اتر کر  صفت ربوبیت کے تحت عبادات کے ذریعے واقفیت حاصل کر لیتا ہے تو وہ روحانی اصطلاح میں قریشی کہلاتا ہے،  حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت  ” قریشی ” ان کی  اسی  صلاحیت کو بیان  کرتی ہے، اللہ تعالٰی کی ان صفات کے حامل لوگ ہر دور میں موجود ہیں اور  ریاضت و مجاہدات سے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں اور اس سورہ میں اسی صلاحیت والوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس صلاحیت کے حصول پر زور دیا گیا ہے ، سورہ قریش اللہ  تعالٰی کے تخلیقی فارمولوں ، اسکے قوانین اور مقداروں کا انکشاف کرتی ہے، سورہ قریش کے ورد سے ذہنی جسمانی اور روحانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان عبدیت کا مقام حاصل کر کے  اللہ تعالٰی کی صفت ربوبیت کا عرفان حاصل کرتا ہے ۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ(1)اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیْفِ(2)فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَیْتِ(3)الَّذِیْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْ عٍ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ(4)

Loading