Daily Roshni News

قرآن  کی ہر آیت کسی معجزہ سے کم نہیں بس ہمیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

قرآن  کی ہر آیت کسی معجزہ سے کم نہیں بس ہمیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)قرآن  کی ہر آیت کسی معجزہ سے کم نہیں بس ہمیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تو ہم نے اس سلسلے کا آ غا ز کیا ہے  جس میں قرآن پاک کے بارے میں دلچسپ اور حیران کن حقائق کا تذکرہ کیا جائے گا

جدید ترین ریسرچ کے مطابق  قرآن حکیم  کے حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے۔

اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے۔ جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔

1968ء میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات  ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کر دیا۔

رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ 1972ء میں یہ ایک باقاعدہ اسکول بن گیا۔

ریسرچ کا کام جونہی آگے بڑھا اُن لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔

قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل اِدراک کیلئے اُس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔

کلام اللّه میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیا ہے۔ جہاں اللّه تعاليٰ نے فرمایا:

دوزخ پر ہم نے اُنیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب العالمین ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے۔ کہ 19 کے عدد کا تعلق اللّه تعالیٰ کے کسی حفاطتی انتظام سے  ہے۔

پھر ہر سورة کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت بِسم اللّه   کو رکھا گیا ہے۔  گویا کہ اس کا تعلق  بھی قرآن کریم کی حفاظت سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بِسم اللّه کے کُل حروف بھی 19 ہی ہیں۔

 پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اِضافہ ہوتا ہے کہ بسم الله میں ترتیب کے ساتھ  چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اِسم  پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔

 لفظ  الرَّحمٰن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو (3×19) کا حاصل  ہے۔

اور  لفظ الرَّحِیم   114 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ جو (6×19) کا حاصل ہے اور

 لفظ اللّه پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ جو (142×19) کا حاصل ہے۔ لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اللّه کی ذات پاک کسی حِساب کے تابع نہیں ہے وہ یکتا ہے۔

قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ہے۔ جو (6×19) کا حاصل ہے ۔

 سورہ توبہ کے آغاز میں بِسم اللّه نازل نہیں ہوئی۔ 

لیکن سورہ نمل  آیت نمبر 30 میں مکمل بِسم اللّه نازل کرکے  19 کے فارمولا کی تصدیق کردی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔

اب  آئیے حضور اڪرم صلي الله عليه وآله وسلم پر اُترنے  والی پہلی وحی کی طرف :

یہ سورہ علق کی پہلی 5 آیات ہیں۔

اور یہیں سے 19 کے اِس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے۔

ان 5 آیات  کے کل الفاظ 19 ہیں

اور ان 19 الفاظ کے کل حروف  76 ہیں۔ جو ٹھیک (4×19) کا حاصل ہیں۔

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جب سورہ علق   کے کل حروف کی گنتی کی گئ تو عقل تو  حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کُل حروف 304 ہیں۔

 جو (4×4×19) کا حاصل ہیں۔ 

 اور قاریئن کرام !

عقل یہ دیکھ کر حیرت کی انتہائی گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ہے۔ کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب  کے مُطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورة ہے۔ اب  اگر قرآن مجید کی آخری سورة اَلنَّاس کی طرف سے گِنتی کریں تو آخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے۔

اور اگر قرآن کریم کی اِبتدأ سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورة سے پہلے 95 سورتیں ہیں۔ جو ٹھیک (5×19) کا حاصلِ ضرب ہیں۔ جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ  سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ  اللّه تعالیٰ کے حِسابی نظام کا ہی ایک حِصّہ ہے۔

 قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورة ، سورۂ نصر ہے۔

 یہ سن کر  آپ پر  پھر ایک مرتبہ  خوشگوار حیرت  طاری ہوگی کہ اللّه پاک نے یہاں بھی 19 کا نِظام برقرار رکھا ہے۔

پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے۔ یوں کلام اللّه تعالیٰ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حِسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔

سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورة سورۂ بقرہ کی کُل آیات 286 ہیں۔ اور اگر 2 ہٹا دیں تو مکّی سُورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔  6 ہٹا دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔

86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کُل سورتوں کی تعداد 114 سامنے آتی ہے۔

آج جب کہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے   یہی قرآن پاک پھر اپنا چیلنج  دہراتا ہے ۔۔۔۔۔

 حسابدان، سائنسدان، ہر خاص وعام ، مومن، کافر  سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کِسی کِتاب میں ایسا حِسابی نظام  ڈالنا انسانی بساط سے باہر ہے۔

طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کے مطابق  ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل  ناممکن ہوگی ۔

لیکن چودہ سو سال پہلے  تو اس کا تصوّر ہی محال ہے۔ لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ قرآنِ کریم  کا حِسابی نظام اللّه تعالیٰ کا ایسا شاہکار معجزہ ہے جس کا جواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا

(جاری ہے)

Loading