قران مجید میں “بیع” کا لفظ 8 مرتبہ مختلف مقامات پر دہرایا گیا ہے جس کے معنی خرید و فروخت کے گئے ہیں، روزہ مرہ زندگی میں پیسوں کے عوض کوئی چیز خریدنا یا چیز کے بدلے چیز کا تبادلہ, بیع, خرید و فروخت کے زمرے میں ہی آتا ہے، معاشرے کے اندر کاروبار یا لین دین کرتے ہوئے پراپرٹی، مال واسباب یا دوسری جائیداد خرید و فروخت دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے
1۔ اقرار نامہ
2۔ بیعنامہ
دونوں فریقین کی لین دین کے متعلقہ تمام شرائط کی تحریر کو اقرار نامہ کہتے ہیں
جب دونوں فریقین اپنی اپنی شرائط پوری کر دیتے ہیں اور چیزوں کا تبادلہ یا منتقلی کا عمل پورا ہوجاتا ہے اسکی تحریر بیعنامہ کہلاتی ہے، شرائط کے تحت منتقلی کا عمل مکمل ہونے کو ” بیعت ” کہتے ہیں
بلکل اسی طرح روحانیت میں دو فریقین کے درمیان علوم کے حصول کے لئے لین دین کا اقرار کیا جاتا ہے اس لین دین میں ایک کو مرشد، استاد، گرو یا مراد کہتے ہیں اور دوسرے فریق کو، سالک، شاگرد یا مراد کہتے ہیں، دونوں کے درمیان ایک ہی شرط ہوتی ہے ” کہ ایک فریق مرشد یا استاد اللہ کا عرفان عطا کرے گا اور دوسرا فریق مرید یا شاگرد صرف اللہ کی ذات و صفات کے علوم کے علاوہ کچھ نہیں مانگے گا ” دونوں فریقین کا یہ اقرار، عہد یا قول جب پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو اس عمل کو بیعت کا مکمل ہونا کہتے ہیں
روحانی علوم کے حصول کے لئے جب کوئی طالب علم یا مرید اپنے روحانی استاد، گرو، مرشد یا مراد کے پاس جاتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک دوسرے کو قبول کرنے کا اصطلاحی نام “بیعت ” رکھا گیا ہے روحانی سلاسل میں بیعت کرنے کے مختلف طریقے ہیں مرشد کا مرید کے سر پر ہاتھ رکھنا، پیشانی پر دم کرنا، گھٹنے کے ساتھ گھٹنا جوڑنا، رومال یا کپڑا پکڑنا یا باندھنا، کانوں میں پھونک مارنا، دل پر ہاتھ رکھنا وغیرہ سب بیعت کرنےکےطریقےہیں، ایک دوسرے کو قبول کرنے کا طریقہ کوئی بھی ہو بیعت ہی کہلاتا ہے، لیکن روحانی نقطہ نظر سے یہ سب بیعت نہیں” اقرار” کہلاتے ہیں جب دونوں طرف سے اقرار کی شرائط پوری ہوجائے تو قانون کے مطابق ” بیعت کا مکمل” ہونا کہلائے گا، اقرار، قول، عہد کو پورا کرتے کئی سال بھی لگ سکتے ہیں، مرشد یا استاد مادی طرزوں کے ان اعمال سے مرید یا شاگرد کے اندر باطنی تصرف کرتا ہے جس سے مرید کے اندر اپنے مراد کے علوم منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں، مرید یا سالک جتنا ذیادہ آپ شیخ یا مرشد کے اندر انہماک و ارتکاز بڑھاتا ہے اسی مناسبت سے روحانی استاد کی طرز فکر اور باطنی علوم منتقل ہوتے ہیں، چونکہ شیخ اور مرید دونوں کا تعلق اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کا عرفان حاصل کرنا ہے جس سے شیخ کی توجہ اور مرید کی طلب بیعت کے مقصد کو پایا تکمیل پر پہنچا دیتی ہے ، جب کوئی سالک یا مرید کسی ایک روحانی ہستی کی بیعت کرلیتا ہے تو وہ کسی دوسرے کی بیعت نہیں کرسکتا لیکن اپنے شیخ کے حکم سے کسی دوسرے سے روحانی فیوض و برکات حاصل کرسکتا ہے، جب کوئی شخص کسی بھی سلسلے میں بیعت حاصل کر لیتا ہے تو وہ اپنی مرضی سے آزاد یا فرار نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ دونوں باہمی رضا مندی سے بیعت کو ختم نہ کر دیں، اس لئے بیعت کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے، انتہائی سوچ سمجھ کر، ناپ طول کر، دیکھ بھال کرلی جائے کہ سامنے والا اس قابل ہے یا نہیں، دنیا میں سینکڑوں روحانی سلاسل ہیں اور ان کے روحانی علوم منتقل کرنے کے مختلف طریقے ہیں لیکن تمام سلاسل کی تعلیمات ایک ہی ہیں جو ” اللہ تعالٰی کی توحید ” کے علاوہ کچھ نہیں، طریقہ تعلیم میں فرق ہوسکتا ہے لیکن تعلیم میں نہیں۔
قران مجید میں تین قسم کی بیعت کا تذکرہ کیا گیا ہے
1۔ بیعت رضوان
2۔ بیعت جان
3۔ بیعت ایمان
بیعت رضوان کا تذکرہ سورہ فتح کے اندر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے
“لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا(18)
بےشک اللہ راضی ہوا مومنین سے جب وہ اس درخت کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا،
مفسرین و مترجمین صاحبان اس آیت کے تناظر میں یہ بات فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے مقام پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایلچی بنا کر سرداران مکہ کے پاس بھیجا تو لیٹ ہونے پر مسلمانوں میں افواہ پھیلا دی گئی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے درخت کے نیچے اس بات کا عہد لیا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بدلہ نہیں لیتے، چونکہ ان کے دلوں میں اقرار یا عہد اللہ تعالٰی کی رضا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حکم تھا جس کے نتیجے میں ان کو اطمنان قلب ہوا اور فتح کی خوشخبری سنائی گئی، اللہ تعالٰی کا مومنین سے راضی ہونا ہے بیعت کی تکمیل ہونا ہے اس لئے اس کو “بیعت رضوان ” کہتے ہیں .
بیعت جان کا تذکرہ قران مجید کی سورہ توبہ میں بیان کیا گیا ہے
” اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖؕ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ العظیم 0
بےشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں اور مریں اس کے ذمہ کرم پر سچا وعدہ توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ قول کا پورا کون تو خوشیاں مناؤ اپنے سودے کی جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اس آیت کے اندر بھی بیعت کا قانون بیان کیا گیا ہے کہ مال اور جان کی بدلہ جنت ملے گی، جنت کا مطلب اللہ تعالٰی کی صفات کو متحرک کرنے کی صلاحیت، علوم روحانیت کے اندر بھی بیعت کا یہی قانون عمل میں لایا جاتا ہے ہے کہ ” اپنی جان مال واسباب کی نفی کرکے آللہ تعالٰی کی ذات و صفات اور اسکی خوشنودی کا حصول ہے ” اگر اقرار یا عہد کرتے وقت یہ قانون سامنے نہ رکھا جائے تو وہ کسی بھی طرح روحانی علوم میں کسی بھی طرح بیعت تصور نہیں کی جاتی۔
بیعت ایمان اقرار یا عہد کا ایسا درجہ ہے جس میں دونوں فریقین ایک دوسرے سے خوش ہیں جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کو مطمئن اور راضی کر دیا ہے
سورہ فجر میں بیعت ایمان کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَینَّةُ()ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً()
اے اطمینان والی جان۔اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔ یہی درجہ، مقام یا منشاء روحانی علوم کے اندر مقصود و مطلوب سمجھا جاتا ہے۔
روحانی علوم میں بیعت کے قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے
” اپنا آپ بیچ کر اپنے مرشد کو خریدنا بیعت کہلاتاہے”