Daily Roshni News

قطب زماں ابوالفیض سید قلندر علی سہروردیؒ

قطب زماں ابوالفیض سید قلندر علی سہروردیؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دین اسلام کی بنیاد دو چیزوں ”شریعت اور طریقت“ سے مشترک ہے۔ دین کی اصل بنیاد شریعت اور اس پر تعمیر ہونے والی عمارت طریقت ہے۔ شریعت اور طریقت کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر مرشد کامل کی نگرانی میں انسان مقرب خدا بن جاتا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے“ حضرت ابوالفیض سید قلندر علی سہروردیؒ مادر زاد ولی تھے۔ قبلہ سید قلندر علی کی تاریخ پیدائش 4 جنوری 1895ءہے مگر پیر بھائی فضل الرحمن خان سہروردی نے 18 نومبر 1895ءتاریخ ولادت بیان فرمائی ہے جو ان کے کشف پر مبنی ہے۔ بہرحال ولادت کا سال 1895ءمتفقہ علیہ ہے۔

آپ گیلانی سادات ہیں اور23 ویں پشت پر حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانیؒ سے جا ملتا ہے۔ قبلہ حضور نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حافظ مولانا رسول بخشؒ سے حاصل کی جو خود بہت بڑے عالم باعمل تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہو گئے۔ آٹھویں تک تعلیم گائوں میں مکمل کی پھر 1910ءمیں لاہور آ کر دارالعلوم النعمانیہ میں داخل ہوئے اور 1914ءمیں سند حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لئے مدرسہ دیوبند میں داخلہ لیا مگر پہلے ہی دن ایک حدیث کی وضاحت پر استاد سے بحث ہو گئی۔ اس سے دلبرداشتہ ہو کر دارالعلوم بریلی میں داخلہ لیا۔ یہاں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ‘ مولانا نعیم الدین مراد آبادیؒ‘ مولانا وصی احمد پیلی بھیت‘ مولانا ہدایت اللہ جیسے نابغہ روزگار اساتذہ سے علم حاصل کیا اور قریباً اڑھائی سال زیر تعلیم رہ کر علوم تفسیر‘ قانون‘ فقہ‘ علم کلام اور حدیث شریف کی سند حاصل کی۔ یہاں سے 1919ءمیں فارغ التحصیل ہو کر واپس اپنے گا¶ں سیالکوٹ تشریف لے آئے۔ ظاہری تعلیم کی تکمیل کے بعد باطنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ ظاہری تعلیم کے ساتھ ساتھ باطنی تعلیم یعنی تزکیہ نفس کی تعلیم بہت ضروری اور اہم ہے۔ اس کے بغیر انسان کی تکمیل ہی نہیں ہوتی اس لئے حضرت قبلہؒ مرشد کامل کی تلاش میں سرگرم عمل ہوئے۔نقشبندی سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت میاں شیر محمد شرق پوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر وہاں بھی بات نہ بنی۔ وہاں سے مایوس ہو کر اپنے قریبی عزیز بزرگ فیروز الدین کے ہمراہ حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ چشتیؒ کی خدمت میں گولڑہ شریف حاضر ہوئے۔ حضرت سید پیر مہر علی شاہؒ نے فرمایا کہ میرے ماموں جان جو اپنے وقت کے جید ولی کامل بزرگ تھے ان کے مزار مبارک جو گولڑہ میں ہی ہے اس پر جا کر مراقبہ کریں اور مراقبہ کی حالت میں جو صاحب مزار سے حکم ارشاد ہو اس پر عمل کریں۔ وہاں سے باطنی حکم ہوا کہ آپ کا حصہ ”سلسلہ سہروردی“ میں ہے۔ آپ حضرت میاں غلام محمد سہروردیؒ بمقام حیات گڑھ گجرات ‘ وہاں جا کر ان کی بیعت کر لو۔ آپ گولڑہ شریف سے سیدھے حیات گڑھ گجرات حضرت میاں غلام محمد سہروردی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی حضرت میاں صاحبؒ نے فرمایا قلندر علیؒ تیرے دادا قاضی سید جمال دین‘ؒ‘ نانا سید قادر بخشؒ اور میرے پیرو مرشد حضرت بابا جنگو شاہ قلندر آج رات مجھے ملے ہیں اور مجھے فرمایا ہے کہ یہ لڑکا آ رہا ہے اسے سنبھالنے کی کوشش کرنا اور اسے سنبھال کر رکھنا اس سے میرا نام ظاہر ہو گا۔

حضرت بابا جنگو شاہ قلندر نے حضرت میاں غلام محمدؒ کو جو سبق تلقین فرمایا تھا وہ سہروردیہ اور قادریہ کا مخلوط سبق تھا۔ حضرت قبلہ میاں غلام محمد سہروردیؒ نے حضرت قبلہ کو مرید کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے دوسرے مرید سلسلہ سہروردیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے لہٰذا اس سلسلہ کی میں تمہیں تلقین کرتا ہوں۔ حضرت قبلہؒ کو بیعت فرما کر سلسلہ سہروردیہ کا سبق تلقین فرما دیا۔ آپ واپس اپنے گا¶ں کوٹلی لوہاراں سیالکوٹ تشریف لے آئے اور روحانی مجاہدہ میں مشغول ہو گئے۔

حضرت سید قلندر علی سہروردی نے 1934ءتک امامت و خطابت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعدازاں آستانہ عالیہ پر ہی خلق خدا کو ہی فیض یاب کرتے رہے۔ آپ صاحب قلم بھی تھے۔ آپ نے مندرجہ ذیل کتب بھی تصنیف فرمائیں۔ سیاح لامکاں‘ موعظتہ اللمتقین‘ الفقر فخری‘ جمال رسول‘ جمال الٰہی۔ ان کتب کے علاوہ دینی رسائل بھی تصنیف فرمائے۔

آپ کا وصال 1958ع میں ہوا

Loading