Daily Roshni News

قلندر بابا اولیاء کی ستائیسویں سے کیا اور کیوں منائی جاتی ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔۔ قلندر بابا اولیاء کی ستائیسویں سے کیا اور کیوں منائی جاتی ہے )کئی احباب نے سوال کیا ہے کہ قلندر بابا اولیاء کی ستائیسویں سے کیا مراد ہے ؟ اور کیوں منائی جاتی ہے ان تمام احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ
مشہور روحانی بزرگ اور سلسلہ عظیمیہ کے بانی حضرت حسن اخری سید محمد عظیم برخیا۔ سے منسوب ہے

نام: سید محمد عظیم۔
خطاب: حسن اخریٰ۔
تخلص: برخیا اور مریدین قلندر بابا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
بابا صاحب رشتے میں حضرت بابا تاج الدین چشتی نا گپوری رحمۃ اللّٰه علیہ کے نواسے تھے۔ آپ نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں اور آپ کا خاندانی سلسلہ حضرت سیدنا امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔

ولادت: آپ ۱۸۹۸ء کو قصبہ خورجہ ، ضلع بلند شہر، یوپی ( بھارت ) میں تولد ہوئے۔

*تعلیم و تربیت
قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم محلے کے مکتب میں حاصل کی۔ ہائی اسکول تک بلند شہر میں پڑھا اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت میں درویشی کی طرف میلان پیدا ہو گیا۔ اسی اثناء میں آپ اپنے نانا بابا تاج الدین ناگپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نانا صاحب نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ آپ کے والد محترم کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ ناگپور گئے اور بابا تاج الدین ناگپوری ( یعنی اپنے سسر ) سے عرض کی ’’بابا صاحب !اسے علی گڑھ واپس بھیج دیجئے ، اس کی تعلیم نا مکمل رہ جائے گی۔ ’’بابا صاحب نے فرمایا: اگر اس سے زیادہ پڑھایا گیا تو جتنا یہ اب پڑھ چکا ہے تو یہ میرے کام کا نہیں رہے گا۔ ‘‘ آپ کے والد جب اپنے سسر کے جواب سے مایوس ہوئے تو آپ کو ایک مشفق باپ کی طرح سمجھایا اور جب دیکھا کہ بیٹے کا میلان فقیری کی طرف ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’بیٹا !تم خود سمجھدار ہو جس طرح چاہو اپنا مستقبل تعمیر کرو ‘‘انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔

آپ نے بابا تاج الدین ناگپوری کے پاس ۹ نو سال رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اس زمانے میں ہونے والے واقعات کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب ’’تذکرہ تاج الدین بابا‘‘ میں تحریر کیا ہے۔

*شادی و اولاد
تربیت کے زمانہ میں آپ کی والدہ محترمہ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ آپ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تربیت اور کفالت پر کمر بستہ ہو گئے اور جب بچیوں کی تربیت کے سلسلے میں وقت پیش آئی تو بابا ناگپوری کے ارشاد کے مطابق ان کے ایک عقیدت مند کی صاحبزادی سے دہلی میں آپ کی شادی ہو گئی شادی کے بعد آپ دہلی میں قیام پذیر ہو گئے۔

*بیعت و خلافت
۱۹۵۶ء کو سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ حضرت علامہ ابوالفیض سید قلندر علی سہروردی ( آستانہ عالیہ سہرور دیہ لاہور ) کراچی تشریف لائے۔ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت ہونے کی درخواست کی۔ حضرت ابوالفیض نے رات کو تین بجے آنے کو کہا۔ سخت سردی کے عالم میں آپ گراوٗ نڈ ہوٹل ایم اے جناح روڈ کی سیڑھیوں پر رات دو بجے جا کر بیٹھ گئے۔ ٹھیک تین بجے حضرت ابوالفیض باہر تشریف لائے اور آپ کو اندر بلایا، سامنے بٹھا کر سلسلہ عالیہ سہرور دیہ میں آپ کو داخل فرمایا اور تین ہفتے کے بعد خلافت عطا فرما دی۔
لیکن سلسلہ عظیمیہ کے اسباق طریقت سب سے مختلف ہیں غالبا اس کے حضر ت قلندر بابا موجد ہیں۔ وہ رنگوں روشنیوں اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے روحانی تربیت کرتے تھے ۔ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی آپ کی تعلیمات کو ایک عرصے سے آپ کے تربیت یافتہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی کے زیرادارت عام کر رہا ہے۔ روحانی ڈائجسٹ نے آپ کے پیغام کو کافی وسعت دی ہے اب قلندر شعور اور بچوں کا قلندر شعور بھی باقاعدہ چھپ رہے ہیں ہزاروں انسان آپ کے سلسلہ عظیمیہ سے منسلک ہیں ۔ ملک بھر میں اور بیرون ملک کئی ملکوں میں روحانی لائبریری اور مراقبہ ہال کھل چکے ہیں۔

*صحافت
دہلی میں سلسلہ معاش قائم رکھنے کے لئے مختلف رسائل و جرائد میں صحافت اور شعراء کے دیوانوں کی اصلاح اور تربیت کا کام اپنے لئے منتخب کیا۔

کراچی میں قیام کے کچھ عرصے بعد آپ ’’اردو ڈان‘‘ میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ اس کے بعد عرصے تک ماہنامہ ’’نقاد ‘‘ میں کام کرتے رہے ۔ کچھ رسالوں کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے اور کئی مشہور کہانیوں کے سلسلے بھی قلم بند کئے ۔

*شاعری
آپ ایک نہایت اعلیٰ اور بلند پایہ شاعر تھے۔ شعر و سخن کا ذوق آپ نے بچپن ہی سے پایا تھا۔ آپ نے بہت سی رباعیات کہیں جن میں کائنات کی حقیقت اور انسانی زندگی کا مقصد و مقام اجاگر کیا گیا ہے۔

جس وقت کہ تن جاں سے جدا ٹھہرے گا
دوگز ہی زمین میں تو جا ٹھہرے گا
دو چار ہی روز میں تو ہوگا غائب
آکر کوئی اور اس جگہ ٹھہرے گا

تصنیف و تالیف:
آپ نے مضامین اور کہانیوں کے علاوہ درج ذیل کتب تحریر فرمائیں :

تذکرہ تاج الدین بابا
رباعیات قلندر بابا
لوح و قلم
مرتبہ خواجہ شمس الدین عظیمی

وصال:
قلندر بابا نے ۲۷، صفر المظفر ۱۳۹۹ھ بمطابق ۲۷، جنوری ۱۹۷۹ء بروز ہفتہ بوقت ایک بجکر دس منٹ پر ۸۱ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ خواجہ شمس الدین عظمی نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو ’’عظیمیہ ٹرسٹ فاونڈیشن‘‘ کے شمالی حصہ (نارتھ ناظم آباد کراچی) میں مدفون کیا گیا۔
آپ سے محبت کا تعلق رکھنے والے احباب ہر انگریزی ماہ کی 27 تاریخ کو آپ کا دن کرکے مناتے ہیں جس میں ختم قرآن ختم درود پاک کا اہتمام کیا جاتا ہے اور لنگر تقسیم کیا جاتا ہے اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے

Loading