Daily Roshni News

قلندر (مقامِ قلندری)۔۔۔ تحریر۔۔۔حادیہ بانو

قلندر (مقامِ قلندری)

تحریر۔۔۔حادیہ بانو 

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ قلندر (مقامِ قلندری)۔۔۔ تحریر۔۔۔حادیہ بانو )راہ طریقت   میں سلوک کےلیے دو طریقے کار آمد ہیں۔اول طریقہ مجاہدہ وتفکر ہے اوردوئم طریق بہ سوز ِعشق و مستی۔سلوک  کےاول طریق  میں  وسواس  و خطرات   سالک  کو  خود مجاہدات سےرفع کرنے پڑتے ہیں۔  دوئم طریق میں  خطرات اور وسواس خود ہی رفع دفع ہوجاتے ہیں ۔عربی میں ایک مثل مشہور ہے “العشق نار یحرق ما سواءالمحبوب ( عشق آگ ہے اور محبوب کے سوا ہر چیز کو جلا دیتی ہے)۔

 سلوک کے معنی طلب ِ قربِ حق ہے اور قرب جب تک سالک کی اپنی ہستی فنا نہ ہوجائے ممکن نہیں ہے۔ سلسلہ قادریہ و قلندریہ  میں اول مقام فنا ہے، جب اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہوجائے تو  غیر کی خیالی توجہ  فنا ہوجاتی ہے۔ حدیث قدسی ہے  ان فی جسد ابن آدم ا لمضغۃ و فی المضغۃ قلب روح و فی الروح نور و فی النور سر و فی السر انا  (یعنی جسد آدم میں مضغہ ہے اور مضغہ میں قلب ہے اور قلب میں روح اور روح میں نور اور نور میں سِر اور سِر میں انا )۔ اگر ان مراتب کو  نہ سمجھا  اور  پہچاناگیا  تو   انجام  یہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا (یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔سورہ فرقان)۔ چوپایوں کے زمرے سے نکال کے لے جانے والا عشق ہے۔ یہی  عشق ہےجو اپنےمبدا  (وجودِاصلی ) سے ملنا چاہتا ہے اور اس میں  اپنے مبدا سےاتصال کی  ایک  گنا  صلاحیت موجود  ہے۔ پس یہی عشق   جو اپنے مبدا سے  ہے، موصل الی المطلوب ہوتا ہے۔  اس ہی عشق کی نیرنگیاں ہیں جس کو شہود کہتے ہیں۔ قلندری اس ہی حال کا نام ہے۔

 قلندر عشق حقیقی میں مست ہوجانے والے  فقیر کو کہتے ہیں  یعنی وہ شخص جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائقِ دینوی سے بے خبر اور لاتعلق ہو کر ہمہ تن خدا کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو اور تکلیفات رسمی کی قیود سے چھٹکارا پا چکا ہو ۔

 مجذوب اور قلندر یکساں کیفیات کے حامل ہوتے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ “مجذوبیت” مادر ذاد بحکمِ الہیٰ ہوتی ہے۔  مجذوب  وہ شخص ہے   جوروز اول  و عالم ارواح میں  تجلیات ذاتِ حق میں ایسے فنا ہوگیا ہوتا   ہےکہ  جب وہ  عالم ِدنیا میں آتا ہے تو مجذوب ہوکر آتا ہے، جب تک  دنیا میں رہتا ہےمجذوب رہتا ہے اور جب وہ دنیا سے جاتا ہےتومجذوب ہی جاتا ہے۔ مجذوب سے کچھ فیض و فاعدہ نہیں ہوتا ،تعلیم ونصحیت ان سے حاصل نہیں ہوتی کیونکہ مجذوب فاتر العقل ہونے کے سبب شریعت کے مکلف نہیں ہوتے اور دنیا کا اس لیے فاعدہ نہیں کہ فاعدہ دُعا سے ہوتا ہے اورمجذوب دعا کرتے نہیں البتہ کشف کے طور پر کبھی بطور پیشگوئی کچھ کہہ دیتے ہیں۔ باوجود اس کے مجذوب  کامرتبہِ خلافت وہی ہے جو قلندر کا ہے ۔  جبکہ قلندر وہ ہستی ہوتی ہے جس نے کٹھن مجاہدے کے بعد اپنے نفس پر قدرت پا لیا ہو اور سوزعشق و مستی سے تجلیات ذات حق میں محو ہو گیا ہو۔ صوفیاء فرماتے ہیں کہ قلندر وہ عاشق ِ ہےذات سبحانہ  کا جو  بحرِ تجرید  و تفرید   میں یگانہ  ہوتا ہے۔   تجرید خلائق و علائق سے بے تعلقی ہو جانے کانام ہے اور  تفرید  اپنی خودی سےبے تعلق ہونے کو کہتے ہیں۔

  اسی طرح قلندر اور فقیرِ ملامتی میں بھی فرق ہے  گو کہ اُن کا طرز  حال بھی قلندروں جیسا ہوتا ہے۔ ملامتی  صوفیہ کی وہ جماعت ہے جو اخلاص میں بے حد کوشش کرتی ہے ،ریا سے بہت بچتی ہے اور اپنے کمالات ِ باطنی  ( روحانی  درجات )کو ظاہری شکستہ حالی کے روپ میں پوشیدہ رکھتی تاکہ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دوسروں سے ذیادہ کچھ نہیں کرتے۔ وہ اپنے اعمال چھپاتے ہیں اور رندوں کی سی وضع بنائے رہتے ہیں  تاکہ عوام اُن سے قطع تعلق رکھےکیونکہ ہجومِ عوام سے ان کے معمولات میں خلل پڑتا ہے۔

 رسالے غوثیہ میں مذکور ہے قلندر سریانی زبان کا لفظ ہے۔ سریانی زبان میں اللہ تعالیٰ کے ناموں میں ایک نام قلندر ہے۔ بعض صوفیاء  کا مقولہ ہے کہ قلندر اور صوفی ہم معنی الفاظ ہیں۔  بعض کہتے ہیں کہ  قلندر وہ ہے جو حالات اور مقامات وکرامات سے تجاوز کرجائے۔ خواجہ عبید اللہ احرار ؒ فرماتے ہیں کہ کہ موانعات (وہ رکاوٹیں جو وصول الی اللہ میں سد راہ ہوں) سے مجرد  ہوکر اپنے کو گم کردینے کا نام قلندری ہے۔  شاہ نعمت اللہ ولی فرماتے ہیں کہ صوفی منتہی جب اپنے مقصد پر جا پہنچتا ہے قلندر ہوجاتا ہے۔

اصطلاح ِصوفیاء میں وہ جماعت قلندر کہلاتی ہے  جن کے اعمال ظاہرہ تو کم ہوتے ہیں مگر اعمال قلبیہ (روحانی معاملات) بہت ذیادہ ہوتے  ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ درست معاملہ رکھنا، قلب کی نگہداشت رکھنا کہ قلب غیر حق کی طرف متوجہ نہ ہونے پائے، قلب کو ہمہ وقت ذکر میں مشغول رکھنا، حقوق کا وقت پر ادا کرنا، نعمت پر شکر ادا کرنا اور حزن و غم میں دل کو خدا تعالیٰ سے راضی رکھناوغیرہ۔ طریقِ قلندر کے دو  جز ہیں ایک عمل  اور دوسرا محبت۔ قلندری ان دونوں  جزوں کے مجموعے کا نام ہے۔ قلندری میں بہت ذیادہ  نوافل اور وظائف نہیں ہوتے  بلکہ محبت کی خاص رعایت ہوتی ہے یعنی تفکر اور مراقبہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید برآں قلندری  نام ہے خلق سے آزادی کا  کہ قلندر کو دنیا کی وضع اور رسوم کی پرواہ نہیں ہوتی، اس کا دل صاف اور سادہ  ہوتا ہے اس کی بڑی مصلحت یہی ہوتی ہے وہ ایک  اللہ کو لیکر سب کو ترک کردیتا ہے۔ 

عوام الناس کی زبان زد و عام ہے کہ دنیا میں ڈھائی قلندر بھی آئے ہیں- تاریخ میں تین ہستیوں کو  ڈھائی قلندر  کے نام سے نوازا گیا ان میں حضرت رابعہ بصریؒ جن کے مرشد حضرت خواجہ حسن بصریؒ تھے،  حضرت سید عثمان مروندی بن سید کبیر عرف لعل شہباز قلندر  جن کا شجرہ طریقتِ قلندری حضرت امام زین العابدین کے واسطے سے سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے اور حضرت شرف الدین بوعلی قلندرؒ   جنہوں نےحضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ  کےدست حق پر بیعت کی سعادت حاصل کی شامل ہیں۔ چونکہ حضرت رابعہ بصری عورت تھیں اس لئے انہیں آدھی قلندر کہا جاتا ہے۔ ان تینوں ہستیوں میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ انہوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی اور اللہ و حدہ لا شریک کی عبادت میں دن رات مصروف و مشغول رہے-

سلسلہ قلندریہ دو سلاسل سے مروج ہے۔

ایک سلسلہ یہ ہے کہ حضرت عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ  نے بلا واسطہ  دیگر  پیغمبر علیہ السلام سے استفادہ کیا ہے۔ دوسرا سلسلہ علویہ  بواسطہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پیغمبرﷺ سے پہنچتا ہے۔

حضرت شاہ محمد ذوقی  ؒ اپنی تصنیف سرِدالبرآں میں تحریر فرماتے ہیں کہ  یوں تو ہر سلسلے میں قلندر ہوا کرتے ہیں اور ہر سلسلہ کے اکابراولیاء اللہ قلندر گزرے ہیں لیکن ہندوستان میں مشرب قلندریہ  حضرت شاہ خضر رومی ؒ  سے پھیلا۔  حضرت شاہ خضر رومی ؒ اس ملک میں سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں آئے تھے اور حضرت قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر خرقہ حاصل کیا چنانچہ اس سلسلہ کو چشتیہ قلندریہ بھی کہتے ہیں۔

تاریخ تصوف میں یہ بھی درج ہے کہ  شیخ حسن ایرانی ؒ ( متوفی ۷۲۲ ھ دمشق)  نے ملک العادل  کے زمانے میں قاہرہ کے قریب ایک قلندری خانقاہ قائم کی تھی   قلندری راگ مصری موسیقی میں انہیں سے منسوب ہے۔

Loading