“لمس جنون”
از۔”زویا علی شاہ”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لمس جنون۔۔۔ از۔۔۔زویا علی شاہ)اس کا گورا نازک ان چھوا جسم آتشی شاہ کو خود پر ٹوٹنے کی دعوت دے رہا تھا۔ لمس چھوڑتے ہوئے شاہ کے دانتوں کی چپن میرب محسوس کر کے سسکیاں بھر نے لگی۔۔
۔ شاکے لبوں کی گستاخیاں بڑھتی جا رہی تھی۔ میرب کی سانسیں تیز ہونے لگی تھی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دبی دبی سسکیاں پورے روم میں گونجنے لگی تھی۔
۔میرب کانپ رہی تھی۔ شاہ کے آتشی لبوں سے بیچ کر میرب یکدم سائیڈ سے نکل کر شاہ سے دور جا کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔
اس کا جسم کانپ رہا تھا اور زپ کے کھلنے سے میرب کی شرٹ بے ترتیب ہو چکی تھی۔۔ جس کو وہ اپنے ہاتھ سے سنبھالنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی شاہ نے نظر اٹھا کر خماری سے بھری ہوئی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
وہ اپنے قدم میرب کی جانب بڑھا رہا تھا وہ ڈرتی ہوئی اپنے قدم پیچھے لے جارہی تھی۔ اور ساتھ میں اپنا سر نفی میں ہلا کر نہ آنے کا اظہار کر رہی تھی۔۔
وہ انگلی کے اشارے سے اسے پاس بلا رہا تھا۔ میر ب۔۔ مجھے اس طرح کی مزاحمتیں بالکل پسند نہیں ہیں۔ شاہ پلیز مجھے جانے دیں وہ دروازے کی جانب لپکی تھی بنا اپنی حالت کی پر واہ کیے۔
میرب شاہ کے انداز سے اس قدر ڈری اور گھبرائی ہوئی تھی کہ اس وقت اسے اپنے لباس کا بھی ہوش نہیں تھا۔ شاہ نے دو ہی قدموں میں فاصلہ طے کرتے ہوئے میرب کے ہاتھ کو تھام لیا۔۔
اسے گھماتے ہوئے واپس اپنی مضبوط باتوں کی گرفت میں لے لیا گیا۔ مجھے عورتوں کی اس طرح کی مزاحمتیں اور سرکشی بالکل پسند نہیں ہے ۔
اتنی سی بات تمہاری موٹی عقل میں کیوں نہیں آتی کیوں میرے دماغ کو غلط ٹریک پر چلا رہی ہو ، لہجہ بے حد سخت اور کھیلا تھا۔
شاہ نے اتنی سختی سے اس کی کمر پر اپنی انگلیاں رکھ کر دیتی ہوئی تھی کہ میرب کی پسلیوں میں درد ہونا شروع ہو گیا۔۔
۔ تم بیوی ہو میری تم پر میرا پورا حق ہے۔ اگر میں وہ حق حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تو تمہیں کس بات کی تکلیف ہے۔
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی اور کہاں ہے تمہارا سر پر چڑھ کر بولتا ہوا عشق ۔ جو مجھے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ آج کیوں میری گرفت سے یوں بھاگ کر میری بے قراریوں کو بڑھا رہی ہو۔۔۔
شام کے یہ الفاظ میرب کو لہولہان کر رہے تھے ۔ میرب شاہ سے ایسی قربتوں کی توقع بالکل بھی نہیں کرتی تھی۔ اسے تو شاہ کی محبت چاہیے تھی
یہ لمس جنون نہیں “شاہ جس طرح سے اس کے قریب آرہا تھا اس میں میرب کو محبت کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔
۔ صرف اس کے وجود کا لمس جنون تھا جو اسے بہکا رہا تھا۔۔ شاہ میں آپ کی بیوی ہوں تو کیا اس طرح زبر دستی مجھے ۔۔۔۔
۔ وہ کہتے کہتے رکی گئی۔۔۔ اس میں زبر دستی کہاں سے آگئی احمق لڑ کی کل تک تو تمہیں میرے قریب آنے سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔۔
آج ایسا کیا ہو گیا ہے
کہ تمہیں یہ سب کچھ زبر دستی لگنے لگا غصے سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا۔۔۔ میر پور شاہ کی لال انکھوں سے خوف آرہا تھا۔۔۔ کیونکہ کل تک مجھے آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار نظر آرہا تھا اور آج مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔۔
میرب شرم سے خود کو سمیٹتے ہوئے شاہ سینے پر زور دے کر پیچھے ہٹی تھی۔ آنکھوں میں آنسوں اور درد تھا۔ آپ مجھے کچھ دنوں کے لیے پلیز جانے دے۔۔
کہاں جانے دوں تمہیں۔۔۔ غصے سے اس کے قریب آیا۔۔ اپنی پاپا کے گھر مجھے کچھ دن کی سپیس چاہیے میں آپ کے اس پل پل بدلتے ہوئے روپ کو نہیں سمجھ پارہی۔۔۔
میں نہیں ہوں اتنی سمجھدار میرب روتے ہوئے بنا اپنے کپڑوں کی پر واہ کیسے صوفے پر جا کر اپنے گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی تھی۔۔۔
۔ شاہ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر کی سائیڈوں پر رکھ کر چھت کی جانب منہ کر کے ایک گہری سانس چھوڑی۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا کہ اس نے یہ کیا کیا ہے۔۔۔
میرب کھلی ہوئی زپ سے صوفے پر گھٹنوں میں سر دیے ہوئے بیٹھی تھی تو اس کی کمر صاف نظر آرہی تھی۔ وہ چلتا ہوا آیا اور میرب کی زب پر ہاتھ رکھ کر بند کرنے لگا تھا، کہ میرب نے دبک کر سر کو اٹھایا تھا۔۔۔۔
کچھ نہیں کرنے لگا جلاد نہیں ہو زپ بند کرنے لگا ہوں ریلیکس ہو جاؤ۔۔۔ شاہ آپ یوں کیسے پل پل اپنے روپ بدل لیتے ہیں۔۔۔۔
میرب نے شکوہ گار آنکھوں سے کہا تھا۔۔ حالات انسان کو بدل دیتے ہیں انسان خود سے کبھی نہیں بدلتا ۔۔۔ انداز میں بہت گہر ا تھا۔۔۔
شاپ پلیز مجھے کچھ دن کے لیے چلے جانے دے۔ میر ب جب سے رخصت ہو کر آئی تھی شاہ نے اسے نہیں جانے دیا تھا۔ میرب نے کبھی ضد بھی نہیں کی تھی۔
بلکہ اس نے اپنی ماما پاپا بھائی سب کو سمجھا دیا تھا کہ میں جب بھی آؤں گی اپنی خوشی اور رضامندی کے ساتھ شاہ کے ساتھ آؤں گی اس لیے اسے کوئی مجور نہ کرے۔
مگر آج میرب بہت منت کرنے والے انداز سے شاہ سے جانے کی اجازت مانگ رہی تھی۔۔ تم۔۔ ابھی نہیں جا سکتی جو اب اٹل انداز سے دیا گیا۔۔۔
وہ زپ بند کر کے پیچھے ہو کر دونوں ہاتھ اپنی کمر پر باندھ کر کھڑا تھا۔ شاہ پلیز مجھے جانے دیں مجھے کچھ دن ماما پاپا اور بھائی کے ساتھ رہتا ہے۔۔۔۔
میں ان سے اداس ہو گئی ہوں پلیز شاہ مجھے جانے دے وہ روتی ہوئی رومان شاہ کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی۔۔۔
میرب تم فی الحال نہیں جارہی کیونکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔۔ شاہ جب مجھے لگے گا کہ میں آپ کی ضرورت پوری کر سکتی ہوں تو میں آجاؤں گی۔۔۔۔
میرب کے انداز میں بہت درد تھا اسے لگ رہا تھا کہ شاہ صرف اس سے اپنی قربتوں کے لیے ہی روک رہا ہے جبکہ ایسا نہیں تھا۔۔۔
میرب اتنا مت مجھے میری ہی نظروں میں گر او معافی نہیں مانگوں گا پتہ ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔۔
جو انداز میں نے تمہارے ساتھ اپنا یا وہ ہر گز ایک محبت کرنے والے شوہر کا نہیں تھا۔۔ میرب کی گردن پر شاہ کی نظر پڑرہی تھی۔ جہاں پر اس کے دیے گئے نشان موجود تھے۔۔۔
اٹھو تمہاری گردن پر آء نمنٹ لگا دوں۔۔ رہنے دے شاہ مت کریں یہ احسان ایک طرف زخموں پر مرہم لگاتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی زخم دیتے ہیں۔۔
۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم وہاں جاکر پر سکون ہو جاؤ گی۔۔۔ میں نے تمہیں جو زخم دیتے ہیں وہ میں تمہیں یہاں رکھ کر بھی دے سکتا ہوں اور وہاں آکر بھی دے سکتا ہوں۔۔۔
کوئی مجھے روک نہیں سکتا نہ ہی میں کسی سے ڈرتا ہوں یہ بات ہمیشہ اپنے دماغ میں فکس کر کے رکھنا رومان شاہ کسی سے نہیں ڈرتا۔۔
۔ شاہ آپ اپنے الفاظوں پر غور کریں آپ کیا بول رہے ہیں کیا کہہ رہے ہیں مجھے تو لگتا ہے آپ کو خود بھی نہیں پتہ کہ آپ کیا بول رہے ہیں۔۔۔
اور آپ کیا چاہتے ہیں۔۔۔ میرے خیال سے مجھے کچھ دیر کے لیے تم سے دور ہی چلے جانے چاہیے۔ اور غصے سے روم کا دروازہ کھولتے ہوئے روم سے باہر نکل آیا تھا۔۔۔۔
کیونکہ میرب کے آخری الفاظ بالکل سچ تھے کہ اسے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔۔
۔ بے شک رومان شاہ وہاں پر بہت مضبوط بن کر کھڑا ہوا تھا اس نے نہ مہک کی جانب نظریں اٹھائیں اور نہ ہی اپنے دوسرے گناہ گاروں کی طرف مگر رومان شاہ کے اندر کا رومیوں تڑپ گیا تھا اپنے گنہگاروں کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر۔۔۔۔۔
وہ اپنی ماں کی ادب کی زنجیروں میں جکڑا ہوا کچھ بھی بول تو نہیں سکا تھا مگر اس کے نسوں میں غصہ زہر کی طرح دوڑ رہا تھا۔
۔ جن لوگوں نے ان کو بے گھر کیا بے آسرہ کیا دھکے دیے مارا رومان شاہ وہ سب کو کیسے بھول جاتا۔
مہک کو دیکھ کر اسے بار بار رومیوں کی یاد ہی آرہی تھی مہک کا یوں بار بار اسے دھتکار نا اس کی ہی نظروں میں گرانا اسے نو کر بلانا اسے ہمیشہ کمترین سمجھنا وہ سب کچھ رومان شاہ کے سینے میں آگ لگا رہا تھا۔۔۔۔
اپنے سب گناہگاروں کے الفاظ اس کے کانوں میں آج بھی گونج رہے تھے۔ وہ نہ تو بھولنا چاہتا تھا اور نہ بھول پارہا تھا۔
اس نے اپنی اس نفرت کو اتنے سالوں تک اپنے اندر پال کر رکھا تھا یوں ہی تو نہیں اس نے رومیوں سے رومان شاہ تک کا سفر طے کر لیا تھا۔۔۔
اپنے گنہگاروں کا سارا غصہ اس نے بے گناہ میرب پر نکالا تھا۔ یہ بھی تکلیف رومان شاہ کے دل کے اندر پیوست ہو گئی تھی۔ کہ اس نے میرب کے ساتھ جو کیا وہ بے حد غلط تھا۔۔۔۔۔
آخر رومان شاہ ایک با ضمیر انسان تھا ایسا نہیں تھا کہ اسے اپنی بیوی کی عزت اور اس کی آبرو کی فکر نہیں تھی۔ وہ غصے میں پاگل ہو نہ جانے میرب کے ساتھ کیسے یہ سب کچھ کر گیا تھا۔۔۔۔
۔ وہ بڑے بڑے قدم بڑھاتا ہوا چھت پر آکر کھڑا ہو گیا تھا۔۔ چھت پر اپنی رکھی ہوئی سگرٹ کی ڈبیا کو اٹھا کر اس نے سگریٹ سلگا کر منہ میں ڈالا۔۔۔
۔ یہ ڈبیا چھت پر رکھنے کا مطلب یہی تھا جب کبھی رومان شاہ اپنے اندر کے دکھی رومیوں سے روبرو ہو کر ملنا چاہتا تو درد اتنا بڑھ جاتا تھا کہ اسے اس دھوئیں کی ضرورت پڑتی تھی۔۔۔
۔ ایک کے بعد ایک سگرٹ وہ سلکائے جا رہا تھا۔ وہ ایک ہاتھ کمر پر باندھے دوسرے ہاتھ سے سگرٹ کے کش لگا رہا تھا۔ اور نظریں کھلے آسمان پر چمکتے ہوئے چاند پر تھی۔۔۔۔
چاند کے داغ کو دیکھ کر اسے میرب کی یاد آئی کہ اس نے بھی اس کی خوبصورت چاند جیسی گردن پر کیسے ظالم بن کر نشان دے دیا۔ جبکہ اس کی کوئی غلطی بھی نہیں تھی۔
وہ پاگل تو مجھ سے اتنا پیار کرتی ہے۔۔ کیوں میں مہک کا غصہ میرب پر نکال رہا ہوں ۔ کیا میرب یہ سب ڈیز رو کرتی ہے وہ خود سے ہی سوال کر رہا تھا۔۔۔
۔ جب اسے اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔۔۔ میرب تم چلی جاؤ مجھے فلحال تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔ میر ا دماغ تھوڑا ٹھنڈا ہو جائے گا تو میں روم میں آکر تم سے بات کروں گا وہ بنا پلٹ کر دیکھے ہوئے بولا تھا۔۔۔
رومیوں میں ہوں ” اتنے سالوں کے بعد بھی اس کی آواز کو پہچاننے میں رومان شاہ غلط نہیں ہو سکتا تھا ۔ یہ مہک کی آواز تھی رومان شاہ نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔
۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو رومان شاہ نے زہریلی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ تم سے ملنے آئی ہوں رومیوں تم نے تو ہال میں مجھے بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔۔۔
وہ فل بلیک کلر کا سوٹ پہنے ہوئے کھڑی تھی ڈیپ گلا پشت پر لٹکتی ہوئی بیک ڈیپ گلے کی ڈوریاں ۔۔۔ ہاف بازو کسی ہوئی قمیض۔۔ تنگ کیپری اور گلے میں دوپٹے نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔۔۔
مہک کا لباس آج بھی ویسا ہی تھا جیسا اتنے سالوں پہلے ہوا کرتا تھا۔ رومیوں کو کل بھی اس کا لباس ناپسند تھا اور آج بھی نا پسند تھا۔۔ ناگواری سے رومان شاہ نے اپنی نظریں اس کے جسم سے ہٹائی جو اس وقت کسی بھی مرد کو لبھانے کا سامان لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
۔ اس کا پورا بدن کالے لباس سے واضح چھلک رہا تھا۔ اس کے انداز سے تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ایسا حلیہ جان بوجھ کر بنا کر آئی تھی رومیوں کو جیتنے کے لیے
کم سے کم کسی غیر مرد کے سامنے آنے سے پہلے اپنے کپڑوں کا تو لحاظ کر لیا کرو اور نہیں تو سر پہ دو پٹہ ہی لے لیتی شاید وہ تمہاری اس بے شرمی والے کپڑوں کو چھپانے میں کار آمد ثابت ہو جاتا۔۔۔۔
سیدھا سیدھا تیز کیا گیا تھا۔۔۔ رومیوں تم میرے لیے غیر تو نہیں ہو لہجہ لبھانے والا تھا۔۔ رومیوں نہیں رومان شاہ کہوں رومیوں تو اسی دن اسی وقت ہی مر گیا تھا۔ جس دن تمہارے باپ تمہاری ماں اور تم نے اور تم نے مل کر مجھے بعزت کر کے نکالا تھا۔۔۔
۔ آج جو تمہارے سامنے کھڑا ہے وہ رومان شاہ ہے گردن اور سینہ تان کر بول رہا تھا۔۔۔ رومیوں پرانی باتیں چھوڑ دونا۔
۔ ہمیں ہمارے کیے کی سزا مل گئی ہے رومیوں مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب تم مجھ پر مرا کرتے تھے تم کتنا پیار کرتے تھے مجھ سے میں ہی پاگل تمہارے پیار کی قدر نہیں کر سکی۔۔۔۔
مجھے آج بھی یاد ہے تمہاری وہ تلاش کرتی ہوئی نظریں جو پورے گھر میں مجھے ڈھونڈتی تھی۔ میں نہیں بھولی وہ وقت جب تم میری ایک جھلک دیکھنے کے لیے سارا سارا دن میرے ہی کالج کے سامنے کھڑے رہتے تھے۔۔۔
بے حد قریب ہو کر چہرہ اوپر کو کر کے اسے دیکھ رہی تھی رومان شاہ کا دل چاہ رہا تھا کہ اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے خود سے دور کرے۔ مگر وہ اس کے گھٹیا پن اور بے غیرتی کا لیول دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔
کہ ایک عورت پیسے کو دیکھ کر کتنا گر سکتی ہے اس لیے مٹھیاں کمر پر نیچے ہوئے چپ کھڑا ہوا تھا۔۔۔ دیکھو میری طرف رومیوں میں آج بھی وہی مہک ہوں جسے تم پاگلوں کی طرح پیار کرتے تھے۔۔۔
بالکل اس کے سینے کے ساتھ چپکی ہوئی کھڑی تھی۔ رحمان شاہ کا کسرتی سینا اور اس کے جسم سے اڑتی ہوئی مہنگے کلون کی خوشبو مہک کو اس کے قریب سے قریب تر لے جارہی تھی۔۔۔۔
میرب جو رومان شاہ کہ اتنے غیر رویے کے باوجود شاہ کے لیے پریشان ہو رہی تھی ۔۔ کہ شاہ پتہ نہیں کہاں ہے کب سے نکلے ہیں وہ شاہ کو ڈھونڈتی ہوئی چھت پر آئی تھی مگر چھت سے آتی ہوئی مد هم آوازوں کو سن کر وہیں پر رک گئی تھی۔۔۔
اور سامنے جو منظر اس نے دیکھا تھا اس سے اس کا سر چکرانے لگا تھا۔ اور جو الفاظ مہک بول رہی تھی وہ سن کر تم میرب کو لگا کس کے کانوں میں کوئی پگھلا ہوا سیسہ انڈیل رہا ہے۔۔۔
میرب کے دل سے سسکی نکلی تھی اس کا دل ٹوٹا تھا۔ دل ٹوٹنے کی آواز سسکی بن کر اس کے منہ سے نکلنے ہی والی تھی اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر دل ٹوٹنے والی سکی کا دم توڑ دیا تھا۔۔۔
۔ وہ دیوار کے ساتھ لگ کر گلے میں آنسوں اتار گئی جھانکتے ہوئے اس نے دیکھا تھا۔ وہ کیسے شاہ کے سینے سے لگی ہوئی کھڑی تھی۔
اور شاہ بھی کچھ بول نہیں رہا تھا میر ب کا دل ٹوٹ گی۔ ارومان شاہ کے لیے اس کے دل میں نفرت سی آگئی تھی۔
۔ جو میرب کبھی اپنا ڈریس رپیٹ نہیں کرتی تھی اس کا شوہر کسی اور کار پیٹ کیا ہوا تھا یہ سوچ کر کہ جسم میں آگ لگنے لگی تھی نہیں غصے سے پھٹنے لگی تھی۔۔۔
وہ دبے قدموں سیڑھیوں سے بڑے بڑے قدم بھرتی ہوئی روم کی جانب بھاگ رہی تھی۔ پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے وہ راستے میں پڑی ہوئی ٹیبل سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔۔
پاؤں کے کہ انگوٹھے کا ناخن ٹوٹ گیا تھا مگر اس کے دل میں جو درد تھا وہ اس درد کے سامنے یہ کچھ نہیں تھا اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ اس کے پاؤں سے خون نکل رہا ہے۔۔۔
وہ گر کر اٹھی پھر سے بھاگتی ہوئی روم کا دروازہ کھول کر اندر آگئی۔۔۔ بیڈ پر آکر اوندھے منہ گری۔ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر سسکیاں بھر رہی تھی۔۔۔
جب کہ اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر روئے۔۔ پورے گھر کو اپنے سر پہ اٹھا لے۔۔ منہ کو زور سے الٹا لیٹے ہوئے تکیے میں گھسایا ہوا تھا تا کہ اس کی سکیاں باہر نہ نھیں
تم جیسی گھٹیا عورت میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تمہاری وجہ سے میرا ہر عورت سے میرا اعتماد اٹھ گیا تھا۔۔
رومان شاہ سے اسے دھکا دیتے ہوئے خود سے الگ کیا تھا۔ دھکا دینے سے وہ زمین پر گری تھی مگر وہ بھی مہک تھی جس میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔۔۔
جو اپنے مفاد کے لیے تو کچھ بھی کر سکتی تھی آخر انسان کی فطرت کبھی نہیں بدلتی یہ مہک کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔۔۔
مہک واپس سے اٹھتی ہوئی رومان شاہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کے سینے سے لگ گئی ۔۔ رومیوں تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے تم مجھ سے پیار کرتے ہو۔۔۔
میں بھی تو آج تم سے بہت پیار کرتی ہوں گھٹیا عورت تم مجھ سے نہیں میرے پیسے سے پیار کرتی ہو رومان شاہ اسے دھتکار کر خود سے الگ کیا تھا۔
نہیں میں تم سے پیار کرتی ہوں اور کہیں نہ کہیں یہ سچ بھی تھا کہ رومان شاہ کی خبر صورت پر سنلٹی کو دیکھ کر مہک اس پر مر مٹی تھی۔۔۔
وہ ہر حال میں رومان شاہ کو حاصل کرنا چاہتی تھی۔۔۔ میں تم سے پیار نہیں کرتا۔ جو تم سے پیار کرتا تھا وہ بے وقوف رومیوں تھا جس سے لوگوں کی پہچان نہیں تھی۔۔۔
اور میں رومیوں نہیں رومان شاہ ہوں جسے تم جیسے چہروں کی بہت اچھی طرح سے پہچان کرنی آتی ہے غصے سے بھری رعبدار آواز کہا۔۔۔
رومیوں بھی مجھ سے پیار کرتا تھا اور رومان شاہ بھی مجھ سے ہی پیار کرے گا تم کل بھی میرے تھے اور آج بھی میرے ہو۔۔۔۔
اس کی ادا میں اپنے حسن کا غرور تھا اسی غرور میں وہ رومان شاہ پر اپنا حق جتارہی تھی۔۔۔ غلط رومان شاہ صرف اور صرف میرب کا ہے۔ اور رومان اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کو خود پر حرام سمجھتا ہے۔۔
جس کا حکم میر ارب بھی دیتا ہے میرے پاس میرا جائز رشتہ ہے مجھے تمہارے منہ لگنے کی ضرورت نہیں۔۔ تمہاری شکل دیکھ کر مجھے نفرت ہوتی ہے نفرت۔ رومان شاہ کے ایک ایک انداز سے مہک کے لیے نفرت نظر آرہی تھی۔