Daily Roshni News

لندن کی فصاؤں سے ۔۔۔تحریر۔۔۔ فیضان عارف

انگلینڈ(ڈیلی روشنی انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فصاؤں سے ۔۔۔تحریر۔۔۔ فیضان عارف) وہ پتھر قابل  رشک  ہوتے ہیں جنہیں کوئی ایسا سنگ تراش میسر آ جائے جو اُن میں پوشیدہ مجسموں کی تراش خراش کر کے انہیں ایک شاہکار بنا دے وگرنہ ایسے اَن گنت مجسمے پتھروں میں ہی چھپے رہ جاتے ہیں جنہیں کوئی فنکار یا ہنر مند اپنی تخلیق کے سانچے میں نہیں ڈھالتا۔مجھے یہ خیال لندن میں جگہ جگہ نصب اُن مجسموں کودیکھ کر آتا ہے جو دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ برطانوی دارلحکومت میں پتھروں اور دھات سے بنے ہوئے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مجسمے مختلف مقامات پر نصب (ایستادہ اور آویزاں) ہیں۔ نامور اور تاریخی شخصیات کے یہ مجسمے نہ صرف اپنے بنانے والوں کے ہنر کا ثبوت ہیں بلکہ یونائیٹڈ کنگڈم کے بہت سے تاریخی، سیاسی، دفاعی اور شاہی حوالوں کی یادگار بھی ہیں۔ لندن کی سیر و سیاحت کو آنے والے غیر ملکی اِن مجسموں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اِن کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز بنا کر اپنی سیاحتی یاداشتوں میں محفوظ کر لیتے ہیں، لندن شہر کو اپنے شاندار پارکوں، عجائب گھروں، آرٹ گیلریز اور تاریخی عمارات کے علاوہ اِن مجسموں کی وجہ سے بھی خاص انفرادیت حاصل ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر لگے ہوئے سنگِ مرمر کے مجسمے ہوں یا کسی گرجا گھر (چرچ) میں نصب پتھر کے بت ان کی حفاظت اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اسی لئے سیکڑوں سال قدیم مجسمے آج بھی نہ صرف اصلی حالت میں موجود ہیں بلکہ اپنے بنانے والوں کی مہارت کے شاندار حوالے کے طور پر محفوظ ہیں۔ یو کے اور خاص طور پر لندن میں مجسمہ سازی کا سلسلہ سیکڑوں برس سے جاری ہے اور ہر سال یہاں مختلف مقامات پر نئے مجسموں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے لندن میں قدیم ترین مجسمہ الفریڈ دی گریٹ کا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بنانے کا آغاز دوسری صدی عیسوی میں کیا گیا تھا۔ 2.6 میٹر بلند یہ مجسمہ ساؤتھ ایسٹ لندن کے علاقے سدک میں ٹرینٹی چرچ سکوائر میں نصب ہے۔ برطانیہ میں سب سے زیادہ مجسمے ملکہ وکٹوریہ کے ہیں لندن کی سٹیچو گیلری مجسمے بنانے اور مجسموں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے اس گیلری میں 39 مجسمے نصب ہیں جو مختلف فنکاروں کی کاریگری کا شاہکار ہیں۔ برطانیہ کے مجسمہ ساز فنکار اور کمپنیاں اپنے کام کی نفاست اور انفرادیت کی وجہ سے عالمی شہرت کی حامل ہیں۔ دو برس پہلے لندن کے جن 23 مجسموں کو مقبول ترین قرار دیا گیا اُن میں ویسٹ منسٹر برج پر بوڈیکا کا مجسمہ، سینٹ پال کیتھڈرل کے باہر کوئین این کا مجسمہ، الفریڈ دی گریٹ کا مجسمہ، پکاڈلی سرکس میں دی شافٹس بری میموریل فاونٹین، ٹرافالگر سکوائر میں ایڈمرل نیلسن کا مجسمہ، کنزنگٹن گارڈن میں پیٹرپین کا مجسمہ، بکنگھم پیلس کے باہر کوئین وکٹوریہ میموریل، ہائیڈ پارک کارنر میں کرسٹوفر کولمبس کا مجسمہ، لیسٹر سکوائر میں ولیم شیکسپیئر کا مجسمہ، بکنگھم پیلس کے باہر اینجل آف پیس،پارلیمنٹ سکوائر میں ونسٹن چرچل کا مجسمہ، سینٹ جیمز میں فلورنس نائٹ انگیل کا مجسمہ اورکنزنگٹن گارڈنز میں پرنسس ڈیانا کا مجسمہ خاص طور قابل ذکر ہیں۔ انسانی مجسموں کے علاوہ لندن میں گھوڑوں، شیروں اور دیگر مخلوقات کے مجسمے اور شکلپ چر بھی نصب ہیں۔ وسطی لندن کی تاریخی عمارتوں کے مرکزی دروازوں اور ستونوں پر جگہ جگہ پتھر کے چھوٹے بڑے مجسمے عہدِ رفتہ کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برطانوی پارلیمنٹ سکوائر میں نیلسن مینڈیلا اور موہن داس کرم چند گاندھی کے مجسمے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ سنٹرل لندن میں چونکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے اس لئے شہر کے مختلف مصروف مقامات پر مسٹر بین، چارلی چپلن، بیٹ مین، ہیری پورٹر، پیڈنگٹن بیئر، میری پوپنز، لوریل اینڈی ہارڈی، بگزبنی، آسکروالڈ، اگاتھاکرسٹی اور دیگر مشہور شخصیات اور کرداروں کے مجسمے نصب کئے گئے ہیں۔ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی سیکڑوں مجسمے ایسے ہیں جو بالکل بے لباس ہیں اور اُن کی ستر ڈھانپنے کا بھی تردد نہیں کیا گیا اور اِن مجسموں کے نقوش اس طرح بنائے بلکہ ابھارے گئے ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہونے لگتا ہے۔ لندن آنے والے بہت سے سیاح ایسے نیوڈ مجسموں پر ایک نظر ڈال کر شرماتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور بہت سے منچلے اِن بتوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے مختلف زاویوں سے تصاویر اور ویڈیوز بنواتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند برس پہلے سید مجاہد علی نے ناروے کے دارلحکومت اوسلو میں ایک عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا تھا جس میں پاکستان، امریکہ اور یورپ سے اُردو کے نامور شاعروں اور شاعرات کو مدعو کیا گیا تھا۔ مشاعرے کے بعد اگلے روز ہمیں اوسلو شہر کے مشہور مقامات کی سیر و سیاحت کے لئے لے جایا گیا۔ جن صاحب کو ہمیں شہرگھمانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی وہ ہمیں (VIGELAND PARK) میں لے گئے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا سکلپ چرپارک ہے جو 80ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے، نارویجن کیپٹل میں آنے والے سیاح سب سے زیادہ دلچسپی اسی پارک کو دیکھنے میں رکھتے ہیں کیونکہ اس پارک میں تقریباً دو سو برہنہ (ننگے) مجسموں کو نمائش کے لئے نصب کیاگیا ہے، مختلف عمر کے مردوں، عورتوں اور بچوں کے اِن مجسموں کو اس مہارت سے تراشا گیا ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ یہ مجسمے انسان کی مختلف حالتوں، پوزیشنز اور کیفیتوں کے اظہار کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ اِن مجسموں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ ہر مجسمے کو صرف ایک ہی پتھر سے تراشا گیا ہے یعنی ایک 7 فٹ کے مجسمے میں ماں نے اپنے بچے کو گود میں اُٹھا رکھا ہے اور اِن دونوں کے مجسمے کو ایک ہی پتھر سے بنایا گیا ہے۔ اس پارک کی بنیاد ناروے کے بے مثال مجسمہ ساز (GUSTAV VIGELAND) (11 APRIL 1869 – 12 March 1943) نے رکھی تھی اور یہ تفریحی مقام انہی کے نام سے موسوم ہے۔ ہم جب اس پارک داخل ہوئے تو چند مجسموں کو دیکھنے کے بعد شاعرات کی حیا نے انہیں مزید مجسمے دیکھنے کی اجازت نہ دی اور وہ پارک کے باہر کافی ہاوس میں جا بیٹھیں اور شاعر حضرات کا انتظار کرنے لگیں۔ ننگے مجسموں کے اس پارک کو سیاحوں کی اکثریت اس لئے دیکھنے آتی ہے کہ کھلے آسمان تلے نصب کئے گئے پتھر کے یہ مجسمے آرٹ او فن کا منفرد نمونہ اور ہنر مندی کا بے مثال شاہکار ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں مجسموں، مورتیوں اور بتوں کو پوجنے کی بجائے ایک ہنر اور فن کے اظہار کے لئے تخلیق کیا اور انہیں آرٹ گیلریز اور سیاحوں کے لئے پرکشش مقامات کی زینت بنایا گیا ہے۔ویسے تودنیا بھر میں سب سے مشہور اور پہچانا جانے والا مجسمہ نیویارک کا مجسمہ آزادی ہے جبکہ عہدِ حاضر میں مذہبی اور سماجی رہنماؤں کے منفرد اور بلند و بالا مجسمے بنانے کو بھی فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کا بلند ترین مجسمہ گجرات (انڈیا) کا سٹیچو آف یونیٹی ہے، دریائے نرمادا کے کنارے والا بھائی پٹیل کا یہ 182 میٹر بلند مجسمہ 2018 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دوسرا بلند ترین مجسمہ چین کے سپرنگ ٹیمپل میں ہے، بدھا کا یہ مجسمہ 128 میٹر اونچا ہے۔ پاکستان اور دیگر کئی مسلمان ممالک میں بت اور مجسمے بنانے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں بت پرستی تو ختم ہو چکی ہے لیکن اس کی جگہ شخصیت پرستی نے لے لی ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے سیاسی، مذہبی اور روحانی قائدین اور رہنماؤں کی اس انداز سے شخصیت پرستی کرتی ہے کہ بت پرستی کرنے والے بھی ششدر اور حیران رہ جاتے ہیں۔ بتوں کی اس لئے بھی پوجا ہوتی ہے کہ وہ خاموش رہتے ہیں، بولتے نہیں ہیں مگر ہمارے لوگ اپنے جن رہنماؤں کی ”پرستش“ کرتے ہیں وہ تو دِن بھر بولتے (بلکہ بکواس کرتے اور نفرتوں کا زہر اگلتے) رہتے ہیں مگر اس کے باوجود عقل و شعور سے عاری اُن کے پیروکار انہیں اپنے حواس اور کندھوں پر سوار کئے رکھتے ہیں۔ شخصیت پرستی، بت پرستی سے بھی زیادہ مہلک رجحان ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فروغ پا رہا ہے جس کی تفصیل میں جانے کا متحمل میرا یہ کالم نہیں ہو سکتا۔ اس تحریر میں لندن کے مجسموں کا ذکر مقصود ہے یہاں صرف پتھر اور دھات کے مجسمے ہی نہیں بنائے جاتے بلکہ موم کے مجسموں کے لئے بھی اس شہر کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ لندن کی بیکر سٹریٹ پر موم کے مجسموں کا ایک بہت شاندار عجائب گھر ہے جو میڈم تساؤ میوزیم کہلاتا ہے۔ اس عجائب گھر کی بنیاد 1835 میں یعنی 188 سال پہلے رکھی گئی اور اس کی بانی موم کے مجسمے بنانے والی ایک فرانسیسی خاتون میری تساؤ(دسمبر 1761-اپریل 1850) تھی۔ یہ خاتوں فرانس چھوڑ کر لندن کیوں آئی؟اور انقلابِ فرانس کے دوران اس پر کیا گزری؟ یہ الگ داستان ہے۔ میڈم تساؤمیوزیم اِس وقت لندن آنے والے سیاحوں کے لئے ایک ایسی پرکشش جگہ ہے جس کو دیکھے بغیر وہ اس شہر کی سیاحت کو نامکمل سمجھتے ہیں میں بھی گزشتہ چند برسوں میں کئی بار اس عجائب گھر کی سیر کر چکا ہوں اور ہر بار یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے نئے نئے مجسموں اور مختلف طرح کے شوز کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ میں آخری بار پچھلے برس موسم گرما میں میڈم تساؤ میوزیم کو دیکھنے گیا تھا۔ بہاول پور سے میرے عزیز دوست محمد حنیف السعید گارمنٹس والے لندن آئے ہوئے تھے، وحید احمد اور صہیب بھی میرے ہمراہ تھے، اس عجائب گھر کو دیکھنے کے لئے پورادن درکار ہوتا ہے کیونکہ یہاں دنیا بھر میں مشہور شخصیات کے 150 سے زیادہ مومی مجسمے تین منزلوں پر نمائش کے لئے سجائے گئے ہیں اور یہ مجسمے اس قدر عمدہ طریقے سے بنائے گئے ہیں کہ اِن پر اصل ہونے کا گمان ہوتا ہے اور ہر سال 25لاکھ سے زیادہ لوگ ٹکٹ خرید کر اس میوزیم کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں اور دیکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ پیسے وصول ہو گئے۔ اس میوزیم میں جن مشہور شخصیات میں شاہ رخ خان، ایشوریا رائے، سلمان خان، امیتابھ بچن، نریندر مودی، سچن تندولکر، ہرتیک روشن اور کرینہ کپور کے علاوہ اور بہت سے نامور لوگوں کے مجسمے یہاں نصب ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے علاوہ یہاں آج تک کسی پاکستانی شخصیت کا مجسمہ بنایا اور رکھا نہیں گیا ویسے بھی ہماری قوم مجسمہ سازی کے خلاف ہے وہ مجسمے یا بت بنانے سے زیادہ انہیں توڑ کر خوش ہوتی ہے جیسا کہ افغانستان (بامیان) میں طالبان اور مجاہدین نے بدھا کے دو تاریخی مجسموں (جو کہ 55 میٹر اور 37میٹر اونچے تھے) کو دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود نیست و نابود کر کے دم لیا۔ برطانوی پارلیمنٹ یعنی ہاؤس آف کامنز میں اس وقت منتخب ارکان کی تعداد 650 ہے اور ان میں وزیروں کی تعداد صرف بائیس(22) ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو حیرانی اور پریشانی میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ جو ملک بیرونی قرضوں اور امداد پر چل رہا ہے وہاں سینکڑوں ایسے ادارے، محکمے اور شعبے قائم ہیں جہاں ملازمین کی غیر ضروری بھرتی نے انہیں سفید ہاتھی بنا دیا ہے۔ ان میں پی آئی ہے، پاکستان سٹیل ملز اور واپڈا کے علاؤہ بھی سینکڑوں ادارے اور ڈپارٹمنٹس ایسے ہیں جن کی کارکردگی اب پوری قوم کے سامنے ہے۔ اس لئے کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت ہے۔ ان سطور میں آج صرف ایک ایسی وزارت اور ایک ایسے محکمے کا ذکر مقصود ہے جن کا تعلق پاکستانی تارکین وطن سے ہے۔ ایک زمانے میں سمندر پار پاکستانیوں کے امور اور افرادی قوت کی وزارت ہوا کرتی تھی جسے 2013ء میں منسٹری آف اوورسیز پاکستانیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا نام دے دیا گیا۔ یعنی اب یہ وزارت ماورائے بحر پاکستانی اور ترقئی انسانی وسائل کہلاتی ہے۔ چوہدری سالک حسین اس کے نئے وفاقی وزیر ہیں۔ ان سے پہلے ضیاالحق کے فرزند اعجاز الحق سے لے کر ڈاکٹر فاروق ستار کے علاؤہ اور بہت سے نامور سیاستدان اس منصب پر فائز رہے لیکن کسی نے بھی کوئی ایسا کارہائے نمایاں سرانجام نہ دیا جس سے اوورسیز پاکستانیوں کا کوئی بھلا ہوا ہو یا اُن کا کوئی مطالبہ پورا کیا گیا ہو۔ بہت سے وزیر مشیر تو ایسے بھی گزرے جنہوں نے اپنے دور حکومت میں کبھی ایک بار بھی اوورسیز پاکستانیون کے کسی اجتماع میں شرکت نہیں کی یا اُن کے کسی نمائندہ وفد سے ملنے کی ضرورت محسوس کی۔ پوری دنیا میں آباد اور کام کاج کی غرض سے مقیم تقریباً ایک کروڑ اوورسیز پاکستانی ہر سال اربوں روپے کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس سے پاکستان کی اقتصادی ساکھ کو سہارا ملتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی لاج باقی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود ہر دور میں نہ صرف پاکستانی تارکین وطن کو نظر انداز کیا گیا بلکہ پی آئی اے کی انٹرنیشنل فلائٹس کی بندش اور ہوائی اڈوں پر اوورسیز پاکستانیوں سے بدسلوکی سے اُن کے مسائل مین اضافہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی اس روش میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ خیال تھا کہ پی ٹی آئی جسے پاکستانی تارکین وطن کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور حاصل ہے وہ اس معاملے میں کوئی مؤثر حکمت عملی بنائے گی لیکن اس نے بھی وطن سے دور بسنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اس دور کے وزیر/مشیر زلفی بخاری سے بہت سے پاکستانیوں اور خاص طور پر برطانیہ میں آباد تارکین وطن کو بہت سی امیدیں وابستہ تھیں مگر وہ بھی ویسے ہی وزیر ثابت ہوئے جیسا کہ اُن سے پہلے اس عہدے پر فائز رہنے والے منتخب سیاستدان تھے۔ اوورسیز پاکستانیون کو اس بات پر بہت حیرانی ہوتی ہے کہ جو وزارت اور محکمہ جس مقصد کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ اُن مقاصد کی تکمیل کی بجائے باقی سب کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کوئی وزیر اعظم یا وزیر ان اداروں سے ان کی کارکردگی کا حساب نہیں مانگتا۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جس ادارے اور وزارت پر ملک کے خطیر وسائل صرف ہوتے ہیں اس نے قومی فلاح وبہبود کے لئے اب تک کیا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں، حکمرانوں اور افسر شاہی نے مختلف محکموں کو صرف اپنی سہولت اور آسانی کے لئے قائم رکھا ہوا ہے۔ اداروں اور محکموں کی کارکردگی چاہے صفر ہو بلکہ ملک و قوم کے مفاد کے منافی ہو لیکن ان کی وجہ سے سیاستدانوں کی وزارتوں اور بیوروکریسی کا ٹھاٹھ باٹھ ضرور قائم رہتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے عمران خان کو ملنے والی حمایت اور فنڈنگ پر دوسری سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ اعتراض رہا لیکن انہوں نے شاید ہی اس ضرورت کو محسوس کیا ہو کہ وہ اپنے دور حکومت میں زلفی بخاری سے پوچھتے کہ پاکستانی تارکین وطن کے مطالبات کیا ہیں؟ اور اب تک ان میں سے کن مطالبات کو پورا کیا گیا ہے؟ خاص طور پر وہ پاکستانی تارکین وطن جو مڈل ایسٹ یعنی مشرق وسطیٰ میں محنت مزدوری کرتے اور مشکل حالات میں گزر بسر کرتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزارت خارجہ کے حکام سے اوورسیز پاکستانیوں کی منسٹری کے ارباب اختیار تک آج تک کسی نے ایسی کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی اور نہ ہی کوئی ایسا نظام تشکیل دیا ہے جس کی وجہ سے محنت مزدوری کے لئے ملک چھوڑنے والوں کو کسی قسم کی کوئی سہولت یا آسانی میسر آئی ہو بلکہ جو لوگ مڈل ایسٹ میں مزدوری کے لئے جاتے ا ور پھر وہاں سے واپس آتے ہیں تو ہوائی اڈے اور امیگریشن کے حکام اور عملہ اُن سے مال بٹورنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اپنے عرب آجروں کے ستائے ہوئے اِن محنت کشوں کے ساتھ وطن واپسی پر حسن سلوک کی بجائے بدسلوکی ایک معمول بن چکا ہے۔ پاکستان میں ایک ادارہ او پی ایف یعنی اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے نام سے قائم ہے۔ یہ بھی پاکستانی تارکین وطن کے امور کی وزارت کا ایک ذیلی محکمہ ہے۔ اس ادارے کا حال بھی پاکستانی کے دیگر محکموں جیسا ہی ہے۔ 1979ء میں امیگریشن آرڈی نینس کے تحت قائم ہونے والا یہ ادارہ اوورسیز پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کی فلاح وبہبود کا دعویدار ہے لیکن اس میں بھی پاکستانی تارکین وطن کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1913ء کے ایکٹ کے مطابق یہ ایک غیر منافع بخش پبلک سیکٹر کمپنی ہے جسے ایک 12رکنی بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اس ادارے کے ملازمین کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار ہے۔ او پی ایف کے اعلیٰ اور بااختیار عہدوں پر بھی پاکستانی بیوروکریٹس فائز ہیں جنہیں نہ تو اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور مشکلات کا اندازہ ہے اور نہ ہی وہ ان کے حل میں کوئی خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو ادارہ اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح وبہبود کے لئے قائم کیا گیا ہو اُسے چلانے اور فیصلے کا اختیار رکھنے والے بھی تارکین وطن ہونے چاہئیں لیکن بدقسمی سے اس محکمے کو بھی افسر شاہی نے اپنی سہولتوں اور مراعات کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے گذشتہ دور حکومت میں ممتاز برطانوی قانون دان امجد ملک کو او پی ایف کے بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین بنایا گیا تھا اور وہ اپریل 2016ء سے جون 2018 تک اس منصب پر فائز رہے مگر وہ بھی اوورسیز پاکستانیوں کے دیرینہ مطالبات کو پورا کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہ کر سکے کیونکہ پاکستانی افسرشاہی ہر کام کو اپنے حساب سے کرنے کی عادی ہے۔ وہ کسی بھی اوورسیز پاکستانی کو اپنی فرسودہ پالیسیوں میں تبدیلیوں کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ جو لوگ کبھی ترک وطن کے تجربے سے نہ گزرے ہوں اور جنہوں نے اپنے دیس سے ہجرت کی صعوبتوں کا سامنا نہ کیا ہو وہ کبھی اوورسیز پاکستانیوں کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی قابل عمل پالیسی یا حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔ اسی لیے تارکین وطن کا ایک دیرینہ مطالبہ یہ بھی ہے کہ او پی ایف کے کلیدی اور فیصلہ ساز عہدوں پر اوورسیز پاکستانیوں کو فائز کیا جائے وگرنہ یہ ادارہ بھی پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز کی طرح حکومتی وسائل کے لیے سفید ہاتھی بنا رہے گا۔ اس معاملے میں گزشتہ دنوں امجد ملک سے میری بات چیت ہوئی تو وہ او پی ایف سے اپنی وابستگی کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہماری حکومتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اوورسیز پاکستانی ہمارے ملک کا کس قدر قیمتی اثاثہ ہیں۔ یہی لوگ ہمارے ملک کے اصل سفیر اور خیر خواہ ہیں۔ نئی حکومت کے لیے اب یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے لفظی دعوؤں کو عملی جامع پہنائے اور پاکستانی تارکین وطن کی اہمیت اور ملکی ترقی میں ان کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے موثر پالیسی تشکیل دے۔ امجد ملک نے بتایا کہ پاکستان کی تعمیر نو کے لیے سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا حالات کا اہم تقاضا اور ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ او پی ایف کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ صوبائی اوورسیز کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ وطن واپسی پر اوورسیز پاکستانیوں کو مکمل سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ان کی دستاویزات کی آن لائن تصدیق اور مخصوص امیگریشن کاؤنٹر کی سہولت کا انتظام کیا جائے۔ کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے ون ونڈو کی آسانی،خصوصی ٹربیونلز اور کمرشل کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو قومی اعزازات سے سرفراز کیا جائے۔ تارکین وطن کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کی گنجائش پیدا کی جائے اور اپنے ملک میں واپس آ کر آباد ہونے اور سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ شہر بنایا جائے۔ یہ وہ مطالبے اور تجاویز ہیں جن پر عملدرآمد سے حکومت پاکستان ہی فائدے میں رہے گی۔ مسلم لیگ(ن) کی مخلوط حکومت اگر چاہتی ہے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی پی ٹی آئی کے لیے حمایت کا زور توڑ دے تو اسے اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے فوری طور پر وہ تمام کام کرنے ہوں گے جو عمران خان کی حکومت اپنے سوا تین سالہ دور حکومت میں نہ کر سکی۔ اگر موجودہ حکومت اپنی کارکردگی کو شاندار بنا کر بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کے دل جیت لے اور ان کے دیرینہ مطالبات مان کر نئی حکمت عملی اپنائے تو یقینا پی ٹی آئی اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت سے محروم ہو سکتی ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی ہی اس کی مخالف سیاسی جماعت کی تنقید کا بہترین جواب ہوتی ہے۔

٭٭٭٭ حالات ابتر اور بد سے بدترین ہونا شروع ہوئے ہیں تب سے اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ وطن عزیز کو اس نہج تک پہنچانے اور عوام کو مہنگائی اور سنگین مسائل کی دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار یہ سب ارباب اختیار ہی ہیں۔ سیاستدانوں کے علاوہ پاکستان کے بہت سے دانشور، سیاسی تجزیہ نگار اور صحافی بھی لندن ا ٓکر تارکین وطن کی معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے پاکستانی دانشور جو برٹش پاکستانیوں کی دوہری شہریت کو دوہری ولدیت قرار دیتے ہیں وہ بھی یہاں آ کر تارکین وطن کو ملک کا اصل سفیر اور قوم کا سرمایہ کہتے ہوئے بالکل نہیں ہچکچاتے اور اس کھلے تضاد پر ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ پاکستان سے برطانیہ آنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت وطن عزیز کے عوام کے مسائل اور مشکلات کی نشاندہی تو ضرور کرتی ہے لیکن ان مصیبتوں سے نجات کا کوئی قابل عمل حل نہیں بتاتی۔ کوئی کرپشن کو پاکستان کے مسائل کی جڑ قرار دیتا ہے جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے تو کوئی جاگیرداروں کو وطن عزیز میں جمہوریت کے راستے کی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ کوئی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو ملک کی پسماندگی کا سبب قرار دیتا ہے تو کوئی مذہبی انتہا پسندی کو وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کے منافی گردانتا ہے یعنی

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج

بٹ نہ جائے تیرا بیمار مسیحاؤں میں

(قتیل شفائی)

گزشتہ دنوں پاکستان سے ایک ایسے ہی دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار لندن آئے۔ ان کے اعزاز میں ایک عشائیے میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حاضرین کی معلومات میں اضافہ کیا کہ ”پاکستان کے حالات کو بگاڑنے کے اصل ذمہ دار عوام خود ہیں۔ نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، جرنیلوں یا مذہبی رہنماؤں سے زیادہ قصور وار عوام ہے جو خود فراڈ، ملاوٹ، منافقت، دھوکے بازی، جگاڑ اور بددیانتی کے ذریعے مال بنانے کے خبط میں مبتلا ہو چکے ہیں، اب تو پاکستان میں دیانتدار صرف وہی رہ گیا ہے جسے کسی قسم کی کرپشن کا موقع ہی میسر نہیں آیا۔ وگرنہ ہمارے ملک میں عدالتوں کے محرر سے لے کر درباروں اور درگاہوں کے متولیوں اور وزارت حج کے اہلکاروں تک سب کرپٹ ہو چکے ہیں۔نیچے سے اوپر تک ہر کوئی زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی بیماری کا شکار ہے اور اپنے ذرا سے فائدے کے لیے ملک و قوم کے بڑے سے بڑے مفاد کو بھی قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔سادگی کا درس دینے والے خود پرتعیش زندگی گزارنے کے خواہشمند رہتے ہیں بلکہ آسائشوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ جو قوم صفائی کو نصف ایمان قرار دیتی ہے وہاں آلائشوں اور غلاظتوں نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ غیرت اور ناموس کے محافظ ہونے کے دعویدار بے غیرتی اور بے حیائی کے جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔ پاکستان اب ایک جنگل بن چکا ہے جہاں کوئی بھی طاقتور اور خونخوار درندہ کسی بھی کمزور اور بے بس کو چیر پھاڑ کر اپنی خوراک بنا لیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خود رو جنگل پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ مجبور اور بے بس عوام نے ذلت اور نا انصافی کو اپنا مقدر سمجھ کر اس سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور کسی ایسے نجات دہندہ کے انتظار میں ہیں جس کے پاس جادو کی چھڑی ہو اور وہ ا ٓکر اس جادوئی چھڑی کی مدد سے ایک ہی اشارے میں سب کچھ بدل کر رکھ دے۔ یعنی عوام خود کو بدلنے کے لیے بالکل تیار نہیں لیکن چاہتے ہیں کہ کوئی آ کر ان کے حالات کو دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل کر دے۔ تبدیلی کے لیے سب سے پہلے عوام کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، اپنا احتساب کرنا ہوگا، عوام کی اکثریت جو خود کو مظلوم سمجھتی ہے دراصل وہ بھی ظالم اور ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے کے جرم میں برابر کی شریک ہے“۔

پاکستان سے لندن آنے والے دانشوروں کی اکثریت اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر کے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنی تجزیہ نگاری سے متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سمجھدار پاکستانی تارکین وطن اب پاکستان کے سیاسی حالات اور نام نہاد جمہوری تبدیلیوں میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ نہ تو وہ پاکستان کے حالات کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی وہ وطن عزیز میں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں کسی قسم کا کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جن حالیہ انتخابات کے بارے میں پاکستانی میڈیا مسلسل واویلا کر رہا ہے اس کی بساط برطانوی اخبارات نے ایک جملہ لکھ کر لپیٹ دی تھی اور وہ جملہ تھا ”ملٹری کنٹرولڈ الیکشن ان پاکستان“۔پاکستانی صحافت کا حال بھی پاکستانی سیاست سے مختلف نہیں ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ کرپشن اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کے خاتمے سے پاکستان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن اصل مسئلہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کرپشن کا خاتمہ کرنے کا اختیار اور وسائل جن مقتدر لوگوں کے پاس ہیں وہ خود کرپٹ ہیں بلکہ کرپشن کو فروغ دینے کے نئے نئے طریقوں کے بانی ہیں۔ ان سے کرپشن کے خاتمے کی توقع کرنا خود کو فریب دینے اور خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے۔ ہم جتنی جلدی اس فریب اور خوش فہمی سے نجات پا لیں گے اتنا ہی ہمارے حق میں اچھا ہوگا اور ہم زمینی حقائق کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو سکیں گے۔ میں پہلے بھی اس حقیقت کی نشاندہی کر چکا ہوں کہ دنیا کے صرف انہی معاشروں اور ملکوں نے پسماندگی سے نجات حاصل کر کے خوشحالی کی منزل کا حصول ممکن بنایا جنہوں نے اپنی قوم میں خواندگی کی شرح کو سو فیصد کرنے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیا۔ سوفیصد خواندگی کا مطلب پورے ملک میں یکساں اور معیاری پرائمری اور سیکنڈری تعلیم (اور تربیت) ہے۔ جب تک پاکستان کے ہر بچے کو ایک جیسی معیاری تعلیم و تربیت میسر نہیں آئے گی تب تک ہمارے ملک میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر پسماندہ ممالک خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ویسے بھی دو کروڑ سے زیادہ بچے پرائمری سکولوں کی تعلیم سے محروم ہیں اور لاکھوں بچے ایسے ہیں جو صرف مدرسوں کی تعلیم تک محدود ہیں۔ ان کے علاوہ جو بچے سکولوں میں جاتے ہیں ان کا اپنا اپنا الگ نصاب ہے۔ کہیں پرائمری تعلیم کا میڈیم اردو اور کہیں انگریزی ہے۔بہت سے سرکاری سکولوں میں بچے شدید گرمی کے موسم میں درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کہیں  بچوں کو بورڈنگ ہاؤس اور جدید تعلیم کی ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے معاملے میں بھی ہم پاکستانی دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ہر پاکستانی بچے کے لیے یکساں اور معیاری پرائمری تعلیم و تربیت اس لیے بھی انتہائی ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ جب تک ہم پنیری لگا کر اس کی نگہداشت نہیں کریں گے تب تک ہم گھنے اورسایہ دار پیڑوں کی نعمت سے محروم رہیں گے۔بدقسمتی سے آج تک یعنی پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک ہمارے کسی حکمران نے ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے بچوں کی بنیادی پرائمری تعلیم و تربیت کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے ارباب اختیار کس قدر دور اندیش، مخلص اور سیاسی بصیرت رکھنے والے ہیں۔ جو بھی آیا اس نے قرضے لینے، موٹر ویز بنانے، لنگر خانے کھولنے، بڑے بڑے پراجیکٹس بنا کر کمیشن وصول کرنے، اختیارات کے ناجائز استعمال، اپنے سیاسی مخالفین کو مقدمات میں پھنسانے اور اقربا پروری کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ کروڑوں بچے جو کسی بھی قسم کی تعلیم و تربیت اور ہنر سیکھنے سے محروم رہیں گے وہ بڑے ہو کر ملک میں جہالت، بے روزگاری اور جرائم میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے ارباب اختیار کو اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے جاہل قوم کی ہی ضرورت ہے۔ اسی لیے اس نے معیاری تعلیم و تربیت کی سہولت کو صرف ایک خاص طبقے تک محدود کر رکھا ہے اور پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی وسائل پر قیام پاکستان سے اب تک اسی طبقے کا تسلط قائم ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک اپنے تمام تر مسائل اور خرابیوں کے باوجود سیاسی اور اقتصادی استحکام کی طرف گامزن ہیں۔ ان ملکوں نے حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات متعین کر رکھی ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان دن بہ دن بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے اور ہماری کرنسی خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ڈی ویلیو ہو چکی ہے جب کہ ملک کے اصل حکمرانوں نے اپنا سر ریت میں دے رکھا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں آنے والا وقت کئی طرح کے خطرات، اندیشوں اور تشویشناک امکانات کا پیش خیمہ ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں۔ ویسے بھی باقی ماندہ ملک حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مزید غفلت کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ غافل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب وہ بند ہونے کے قریب ہوتی ہے۔

٭٭٭٭ کیا۔ اسی طرح سکاٹ لینڈ سے ویلز تک پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں اردو کے سینکڑوں شاعر اور شاعرات ایسے ہیں جنہوں نے دیارِ غیر میں اردو شاعری کے باب میں اہم اضافے کیے اور ایک اجنبی ملک میں سخن وری کو اعتبار بخشا۔ ایسے سخن وروں میں ساقی فاروقی اور اکبر حیدر آبادی سے لے کر منان قدیر منان اور سہیل ضرار خلش کے نام شامل ہیں۔ جن شعراء کرام نے مختلف ادوار میں برطانیہ کے ادبی ماحول کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی شاعری سے سخن فہم لوگوں کو متاثر کیا ان میں بلبل کاشمیری، غلام نبی حکیم، عاشور کاظمی، باقر نقوی عطا جالندھری، سرمد بخاری، انجم خیالی، خالد یوسف، بخش لائلپوری، منصور معجز، اختر ضیائی، اطہر راز،جوہر ظاہری، سلطان الحسن فاروقی، رحمت قرنی،جمیل مدنی، موج فرازی، سوہن راہی، اعجاز احمد اعجاز،جاوید اختر بیدی،حفیظ جوہر اورعامی کاشمیری کے علاؤہ ڈاکٹر مختار الدین ناظر فاروقی،صفی حسن، صفدر ہمدانی، عقیل دانش، عابد ودود، جاوید اقبال ستار،صباحت عاصم واسطی، صابر رضا، باصر کاظمی، مصطفی شہاب،عدیل صدیقی، رشید منظر، اقبال نوید، یشب تمنا، ڈاکٹر ثاقب ندیم، ارشد لطیف، سلیم نگار، شہباز خواجہ اور اشتیاق زین کے علاؤہ اور بہت سے نام شامل ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں جن شاعرات نے اپنے سخن کا جادو جگائے رکھا ان میں نور جہاں نوری،نجمہ خان اور طاہرہ صفی کے علاوہ یاسمین حبیب، فرزانہ خان نیناں، راحت زاہد،

 عائشہ غازی، صدیقہ شبنم، پاکیزہ بیگ، شبانہ یوسف، نغمانہ کنول، غزل انصاری، سائرہ بتول،رضیہ اسماعیل، گلناز کوثر، ڈاکٹر نگہت افتخار اور تسنیم حسن کے نام بہت نمایاں ہیں۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران برطانیہ میں تخلیق ہونے والے اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس معاملے میں نثر کا شعبہ زیادہ معتبر نظر آتا ہے۔ پروفیسر رالف رسل اور ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے اردو کے کلاسیکی شاعروں کے کلام کے جو انگریزی تراجم کیے یا محمود ہاشمی اور رضا علی عابدی نے اردو سیکھنے والے بچوں کے لیے جو دلچسپ قاعدے اور کہانیاں لکھیں انہیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یونائیٹڈ کنگڈم میں ایک طویل مدت سے اردو روزنامہ جنگ شائع ہو رہا ہے جو اردو کے قارئین کی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور ادبی ضرورتوں کو پورا کرتا رہا ہے۔ اسی طرح لندن سے ایک زمانے میں روزنامہ آواز اور ہفت روزہ مشرق بھی شائع ہوتے رہے اور یہاں سے روزنامہ اوصاف کا لندن ایڈیشن جبکہ مانچسٹر سے محبوب الہٰی بٹ کی ادارت میں ’’سپیکر‘‘ بھی باقاعدگی سے

 شائع ہوتا ہے۔ اردو اخبارات کے علاؤہ مختلف شہروں سے اردو کے جرائد بھی شائع ہوتے رہے اور کئی ادبی رسالوں کی اشاعت نے بھی باذوق لوگوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع فراہم کیا جن میں لندن سے اقبال مرزا کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ”صدا“ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ میں اردو کی خواتین افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر مبنی ایک اہم کتاب 90 ء کی دہائی میں ڈاکٹر گردیال سنگھ رائے نے ترتیب دی تھی۔ اس کتاب میں یو کے میں مقیم اردو کی 13 خواتین افسانہ نگاروں کی کہانیوں کو یکجا کیا گیا تھا جن میں شاہدہ احمد، عطیہ خان، امیر زہرا حسین، بانو ارشد، ڈاکٹر فیروز مکرجی، فیروزہ جعفر، محسنہ جیلانی،نجمہ عثمان،پروین مرزا،ستارہ لطیف خانم،صفیہ صدیقی،صبیحہ علوی اور طلعت سلیم کے نام شامل ہیں۔ برطانیہ میں تخلیق ہونے والی اردو نثر کی جن کتابوں کی بھارت اور پاکستان میں بھی بہت پذیرائی ہوئی ان میں رضا علی عابدی کی جرنیلی سڑک، شیر دریا، ساقی فاروقی کی کتاب ہدایت نامہ شاعر اور آپ بیتی پاپ بیتی،محمود ہاشمی کی رپورتاژ کشمیر اداس ہے، عبداللہ حسین کا ناول نادار لوگ، ڈاکٹر سعید اختر درانی کی تحقیقی کتاب نوا در اقبال یورپ میں، قیصر تمکین کے مضامین کا مجموعہ تنقید کی موت اور ایک کہانی گنگا جمنی، جتندر بلو کا ناول وشواس گھات، شاہدہ احمد کا افسانی مجموعہ بھنور میں چراغ، یعقوب نظامی کی معلوماتی کتاب پاکستان سے انگلستان تک اور مہ پارہ صفدر کی خود نوشت میرا زمانہ میری کہانی  عابد بیگ کی کتاب ’’قومی ترانہ: اردو یا فارسی‘‘ اور علی جعفر زیدی کی تصنیف ’’باہر جنگل اندر آگ‘‘ خاص طور .پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں آباد مختلف شعبوں کی نمایاں پاکستانی شخصیات کے طویل انٹرویوز پر مبنی کتاب کامیاب لوگ بھی چند برس پہلے شائع ہوئی جس کی اوورسیز پاکستانی کمیونٹی میں بہت پذیرائی کی گئی۔برطانیہ کے چیدہ چیدہ شعرائے کرام کے کلام کا انتخاب چند برس پہلے نوجوان شاعرمنان قدیر منان نے سخن واران کے نام سے یکجا کیا جبکہ 1980 کی دہائی میں شعرائے لندن کے نام سے بھی ایک کتاب شائع ہوئی تھی۔شعری مجموعوں کی اشاعت کے سلسلے میں دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پورے برطانیہ میں آباد اردو کا کوئی باقاعدہ شاعر یا شاعرہ ایسی نہیں ہے جس کی کتاب شائع نہ ہوئی ہو بلکہ کئی اوورسیز شاعروں کے تو بہت سے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ صرف یہی نہیں شاعر ہونے کے بہت سے دعویدار ایسے بھی ہیں جن کے مجموعے پہلے چھپ چکے ہیں لیکن وہ لکھنے کے بنیادی تقاضوں سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ اردو زبان و ادب کے بہت سے خیر خواہوں کا خیال ہے کہ مشاعروں اور ادبی تقریبات کے انعقاد سے اردو زبان کو فروغ ملتا ہے۔ معلوم نہیں یہ خیال کس حد تک درست ہے البتہ لندن، مانچسٹر، بریڈ فورڈ، برمنگھم، گلاسگو، ایڈنبرا اور دیگر کئی شہروں میں گزشتہ 40 برسوں سے مشاعرے اور ادبی محفلیں منعقد ہو رہی ہیں۔ برطانیہ اور خاص طور پر لندن میں ان دنوں ادبی سرگرمیاں اور گہما گہمی عروج پر تھی جب یہاں بی سی سی آئی یعنی بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے تحت کام کرنے والا ادبی ادارہ اردو مرکز بہت فعال تھا اور نامور شاعر اور شاندار منتظم افتخار عارف اس کے سربراہ تھے۔ یہ سن 80 ء کی دہائی کا وہ دور تھا جب پاکستان میں مارشل لاء لگا ہوا تھا اور اردو کے کئی نامور اہل قلم جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ بہت سے شاعر یورپ اور لندن میں پناہ گزین تھے۔ اردو مرکز نے اس زمانے میں نہ صرف شاعروں اور ادیبوں کی پذیرائی کی بلکہ مارشل لاء کے ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے لکھنے والوں کو ایک مؤ ثر پلیٹ فارم فراہم کیا۔پردیس اور خاص طور پر یو کے میں اردو زبان کی بقاء اور فروغ میں بھارت کی ہندی (اردو) فلموں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان فلموں کی وجہ سے اردو زبان کے گیت پوری دنیا میں ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ آج بھی اگر لندن یا کسی اور شہر میں نئی ہندی فلم کی نمائش ہوتی ہے تو انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال یا موریشیس سے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی فلم دیکھنے آتی ہے جو نہ اردو زبان لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں لیکن ہندی فلموں میں استعمال ہونے والی اردو زبان کو سمجھتے اور اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ بحث بہت فرسودہ ہو چکی ہے کہ برطانیہ میں اردو زبان زندہ رہے گی یا نہیں؟ 1996ء میں روزنامہ جنگ لندن میں ایک بہت بڑے مذاکرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا موضوع اردو زبان کا مستقبل تھا۔ مذاکرے میں پورے برطانیہ سے اردو کے منتخب اہل قلم دانشوروں اور اساتذہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ کئی شرکا نے پیش گوئی کی تھی کہ 2026 ء تک برطانیہ سے اردو زبان ختم ہو جائے گی لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ پورے یونائیٹڈکنگڈم اور یورپ میں آج بھی اردو ایک بڑی زبان کے طور پر زندہ ہے۔ بالخصوص برطانیہ میں اردو کا شمار پہلی بڑی پانچ زبانوں میں ہوتا ہے اور یہاں کے سکولوں اور کالجوں میں اردو کو ایک جدید زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہر سال برطانوی تعلیمی اداروں کے سینکڑوں بچے اردو جی سی ایس اور اے لیول کا امتحان دیتے اور کامیاب ہوتے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ زبان اس وقت تک نہیں مر سکتی جب تک برطانیہ میں مقیم والدین اور بچوں کے درمیان رابطے کی زبان اردو رہے گی۔ زبان اور تہذیب و ثقافت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے یا پروان چڑھنے والے بچے جب تک اردو بولتے، سیکھتے اور سمجھتے رہیں گے وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی جڑے رہیں گے۔ ویسے بھی برطانیہ ایک ملٹی کلچرل ملک ہے۔ یہاں ہر طرح کی ثقافت اور زبان کی پذیرائی کی جاتی ہے بلکہ اس کے فروغ، بقا اور ارتقا کے لیے کی جانے والی کوششوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہمیں برطانیہ کے ان اردو اہل قلم کی کوششوں، ہمت اور حوصلے کی داد دینی چاہیے جنہوں نے مشکل اور اجنبی ماحول میں نہ صرف اردو زبان کی آبیاری کی بلکہ ایسا اچھا اردو ادب تخلیق کیا جس کی وجہ سے برطانیہ اور خاص طور پر لندن کو اردو کا تیسرا بڑا مرکز کہا جانے لگا۔برطانیہ میں اردو ادب کے معماروں اور تخلیق کاروں کے کام کو یکجا کرنے کے لیے سنجیدہ تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس سرسری جائزے میں اردو کے جن شاعروں اور ادیبوں کے نام اور کام کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مکمل نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں مزید تحقیق ہجرتی ادب کی اہمیت کو اجاگر کرے گی جو ایک اہم ادبی تقاضا بھی ہے۔باعث کتابوں سے دور ہو رہی ہیں برطانیہ اور بہت سے خوشحال ملکوں میں بچوں کو کتابوں سے وابستہ رکھنے کے لیے خصوصی اہتمام کیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر لندن کے پرائمری سکولوں کی لائبریری میں بچوں کی دلچسپی کی ہزاروں کتابیں دستیاب ہوتی ہیں۔ پرائمری سکولوں کے اساتذہ بھی کتابیں پڑھنے کے معاملے میں بچوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خوشگوار حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں بچوں کے لیے کتابیں لکھنے والے ادیبوں کی بھی کمی نہیں ہے۔پرائمری سکولز میں تعلیم کے دوران بچے جو کتابیں، کہانیاں اور نظمیں پڑھتے ہیں ان میں سے بہت سی تحریریں ان کے حافظے میں رہ جاتی اور زندگی بھر کے لیے بچپن کی یادوں کا حصہ بنی رہتی ہیں۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو اس زمانے میں (نہر پہ چل رہی ہے پن چکی ۔  دھن کی پوری ہے کام کی پکی) یا پھر (ایک تھا تیتر ایک بٹیر ۔   لڑنے میں تھے دونوں شیر) اسی طرح (ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی  ۔  خالہ اس کی لکڑی لائی) وغیرہ ایسی نظمیں تھیں جنہیں ہم بچے لہک لہک کر پڑھتے اور خوش رہتے تھے۔ اسی زمانے میں نونہال،بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، تعلیم و تربیت وغیرہ بچوں کے مقبول رسالے تھے۔روزنامہ اور ہفت روزہ اخبارات بچوں کے لیے خصوصی صفحات بڑے اہتمام سے شائع کرتے تھے۔ بہاولپور کے شاہی بازار میں کیپٹل نیوز ایجنسی اور نیشنل نیوز ایجنسی پر بچوں کے رسالوں کے تازہ شمارے دیکھ کر میری جو کیفیت ہوتی تھی وہ آج تک میرے لڑکپن کی یادوں کا حصہ ہے۔ ان دنوں میری عمر کے بچے عمران سیریز کے دیوانے تھے۔ اشتیاق احمد اور مظہر کلیم بہت مقبول مصنف تھے لیکن پھر آبادی کا بڑھتا ہوا سیلاب رفتہ رفتہ سب کچھ بہا کر لے گیا۔تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا تربیت کو صرف عربی میں قرآن پاک پڑھانے تک محدود کر دیا گیا۔ جس طرح ہمارے ملک کے حکمران اور ارباب اختیار قوم کے بچوں کی بنیادی اور پرائمری تعلیم و تربیت سے غافل ہو گئے اسی طرح ہمارے ادیبوں اور دانشوروں نے بھی بچوں کے لیے لکھنے کو غیر ضروری سمجھنا شروع کر دیا۔ گذشتہ نصف صدی کے دوران پاکستان کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں اور شاعروں کی تعداد بھی اسی تناسب سے بڑھنی چاہیے تھی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ہم وہ بد نصیب قوم یا عوام ہیں جو سب سے کم توجہ بچوں کی معیاری تعلیم و تربیت پر دیتے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم ایک باوقار، دیانتدار اور مستحکم قوم بنیں۔ یعنی ہم پنیری لگائے بغیر یہ امید کرتے ہیں کہ ہمیں گھنے اورسایہ دار درخت میسر آ جائیں۔ جس ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ بچوں کو کبھی سکول جانے کا موقع ہی میسر نہ آیا ہو اور باقی جو بچے سکول جاتے ہیں وہاں انہیں کسی بھی قسم کی تربیت سے محروم رکھا جاتا ہو تو پھر اس ملک اور قوم کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔ میں گذشتہ ہفتے شاندار براڈ کاسٹر اور ادیب رضا علی عابدی سے ملنے کے لیے گیا تو ان سے بچوں کے ادب پر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے جنگ کراچی کے بھائی جان (شفیع عقیل) کے حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کیا اور بتایا کہ میں نے سب سے پہلے بچوں کی کہانیاں لکھنے سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ رضا علی عابدی موجودہ دور میں اردو کے ان چند ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھا بلکہ اس سہل اور آسان زبان میں بچوں کی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر لکھا کہ بڑے بھی ان کی تحریروں کو پڑھ کر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کے لکھے ہوئے بچوں کے با تصویر قاعدے دلچسپی اور معلومات سے مزین ہیں۔ برطانیہ میں آج بھی بچوں کے انگریزی رسالے بڑی تعداد میں شائع ہوتے اور دلچسپی سے پڑھے اور خریدے جاتے ہیں۔ بہت سے رسالے ایسے بھی ہیں جن کے ساتھ بچوں کو مختلف طرح کے چھوٹے چھوٹے کھلونے اور سٹیکر شیٹس بھی مفت ملتی ہیں۔ ان رسالوں کو مختلف عمر کے بچوں کی دلچسپی کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے۔ بچوں کے یہ رسالے اور میگزین پورے ملک میں ہر نیوز ایجنٹ اور بڑے سٹورز پر دستیاب ہوتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم کی مقامی لائبریریز میں آج بھی سب سے بڑی کتابوں کی سلیکشن بچوں کے لیے ہوتی ہے۔ والدین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو باقاعدگی سے اپنے بچوں کو لائبریری لے کر جاتی اور ان کے لیے کتابیں جاری کرواتی ہے۔یہاں کی لائبریریز کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کسی بھی ممبر کے مطالبے پر کوئی بھی نئی سے نئی کتاب منگوا کر اسے اپنی شیلف کی زینت بنا دیتی ہیں۔ برطانیہ میں بیڈ ٹائم سٹوریز کے نام سے بڑی تعداد میں ایسی کتابیں متواتر شائع ہوتی رہتی ہیں جنہیں اکثر مائیں خرید کر ان کی کہانیوں بلکہ دلچسپ کہانیوں کو سونے سے پہلے اپنے بچوں کو سناتی ہیں۔ اسی طرح نیشنل جیوگرافک کی بچوں کے لیے چھپنے والی کتابوں ویرڈ بٹ ٹرو (WEIRD BUT  TRUE) کے سالانہ ایڈیشن بھی برطانیہ میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔یہ کتابیں دنیا بھر کے دلچسپ اور معلوماتی حقائق کا با تصویر مجموعہ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی کوئز بکس بھی برطانیہ میں بہت مقبول ہیں۔ برطانیہ میں سینکڑوں ادیب ایسے ہیں جو باقاعدگی سے بچوں کے لیے لکھتے ہیں۔اس ملک میں بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والوں کو بڑا ادیب سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں آج کل کوئی بھی بڑا ادیب بچوں کے لیے کچھ لکھنے کو اپنے لیے شایان شان نہیں سمجھتا۔گذشتہ چند برسوں کے دوران معروف ڈرامہ نویس اور ادیب امجد جاوید کی کتابیں جی بوائے اور جی مشن بچوں کے اردو ادب میں اہم اضافہ ہیں جن کی مقبولیت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کے لیے دلچسپ اور معیاری ادب کی ہمارے ہاں اب بھی بہت گنجائش موجود ہے۔لندن میں مجھے پاکستان سے آنے والے بہت سے سیاستدان اور مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی ملتے رہتے ہیں اور اپنی اپنی پارٹی کے قائدین کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ جب کبھی وہ مجھ سے اپنے پارٹی لیڈرز کے بارے میں رائے لینے پر اصرار کرتے ہیں تو میں ان کو صرف ایک ہی بات کہتا ہوں کہ صرف ایسا لیڈر ہی پاکستان سے مخلص کہلانے کا حقدار ہوگا جو اقتدار سنبھال کر پورے ملک میں پرائمری سطح پر یکساں نظام تعلیم نافذ کرے گا۔ ملک کے ہر حصے میں سرکاری پرائمری سکولز کا قیام یقینی بنائے گا (جہاں ہر بچے کے لیے پرائمری تعلیم و تربیت لازمی ہوگی)۔ پرائیویٹ اور مراعات یافتہ طبقے کے الگ سکولوں کا خاتمہ کرے گا۔ پرائمری تعلیم کے دوران بچوں کو ایسایکساں اور معیاری نصاب فراہم کرے گا جس کے ذریعے بچے انسانیت اور معاشرت کے بنیادی تقاضوں سے آگاہ ہوں اور انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رویوں سے نجات پائیں۔ جو بھی لیڈر قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی پہلی ترجیح نہیں بنائے گا وہ ملک سے مخلص نہیں ہو سکتا۔ وہ صرف اقتدار پرست اور اختیارات کے حصول کا متمنی ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ سمیت جن ملکوں اور معاشروں نے بھی ترقی کی ہے انہوں نے سب سے پہلے اپنی قوم کی سوفیصد خواندگی کو یقینی بنانے کے لیے موثر حکمت عملی بنائی۔اپنے ملک کے ہر بچے کے لیے یکساں اور معیاری پرائمری تعلیم و تربیت کو یقینی بنایا۔دوہرے نظام تعلیم یا تعلیم کے نام پر کسی کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سب کے لیے سرکاری اور معیاری تعلیم و تربیت کو ہی لازمی قرار دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ان پرائمری سکولوں سے تعلیم و تربیت یافتہ لوگ آگے چل کر ملک و قوم کے لیے کار آمد ثابت ہوئے۔ اگر پاکستان بھی ترقی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے بھی علم اور تعلیم و تربیت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ خواندگی کی شرح کوسو فیصد کرنے کے لیے کوئی موثر پانچ یادس سالہ منصوبہ بنانا ہوگا۔ وقتی اور عارضی سیاسی فائدے یا دکھاوے کی بجائے دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ علم، تعلیم اور تربیت کے بغیر کبھی کسی ملک کی پسماندگی اور بدحالی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اگر پاکستان کے اصل حکمران اور ارباب اختیار واقعی پاکستان کی بقا اور ارتقاء کے خواہشمند ہیں اور پاکستان کو جہالت،انتہا پسندی، کرپشن اور بددیانتی کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں تو انہیں بنیادی پرائمری تعلیم و تربیت کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ملک کے ہر اس بچے کو تعلیم و تربیت یافتہ کرنا ہوگا جو اس قوم کا مستقبل ہے۔اس ننھے پودے کی نگہداشت اور دیکھ بھال انتہائی ضروری اور لازمی ہے جس نے کل تناور درخت بننا ہے۔ اگر ہم نے ان ننھے پودوں کو حالات اور موسموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو ہماری آنے والی نسلیں مشکلات کی کڑی دھوپ اور مسائل کے تپتے صحرا میں سائے کو ترستی رہیں گی۔

٭٭٭

 او رنہ ہی کوئی کسی کے ذاتی معاملات کی کرید میں رہتا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی اور دوسروں کی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہیں، انگریزوں میں یہ تجسس نہ ہونے کے برابر ہے کہ اُن کے ہمسائے یا رشتے دار کیاکھاتے پیتے ہیں؟ اُن کا عقیدہ یا مذہب کیا ہے؟ اُن کی آمدنی کتنی ہے؟ یا اُن کا ملنا جلنا کن لوگوں سے ہے۔ برطانوی لوگوں کی اکثریت وہاں کھجلی نہیں کرتی جہاں خارش نہ ہو رہی ہو۔ انگریز یا عیسائی اس بات پر بھی تشویش یا فکر میں مبتلا نہیں ہوتے کہ اُن کے گھر کے کسی فرد نے عیسائیت ترک کر کے اسلام یا کوئی مذہب اختیار کر لیا ہے اسی وجہ سے ہر سال برطانیہ اور یورپ میں ہزاروں لوگ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور انہیں گھر والوں یا دوست احباب کی طرف سے کسی قسم کی مخالفت یا تنقید کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا تا وقتیکہ نو مسلم شخص دوسروں کی زندگی میں مداخلت نہ کرے۔ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کسی غیرمسلم کی مذہبی تبدیلی کو ایک روحانی ضرورت یا طمانیت کے حصول کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا مغربی معاشرے کے لوگ واقعی روحانی طور پر بے چین یا کسی قسم کے اضطراب کا شکار ہیں؟ اور کیا اسلام قبول کرنے یا کسی اور مذہب کو اختیار کر لینے سے اُن کے روحانی اضطراب کو سکون میسر آ جاتا ہے؟

      برطانیہ میں بالغ لوگوں کی اکثریت اپنی مرضی اور آزادی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے اور یہاں کے بچوں کو ابتدا سے ہی اس شخصی آزادی کی ترغیب اور تربیت بھی دی جاتی ہے۔ برطانوی عورتیں اور مرد اپنی ازدواجی زندگی میں بھی کسی قسم کے سمجھوتے یا کمپرومائیز کے عادی نہیں ہوتے، انگریزوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتی۔ یہ لوگ شادی کے بغیر پارٹنر کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرنے میں آسانی رہے اور جو انگریز شادی کر کے میاں بیوی کے طور پر اکٹھے زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں اُن میں بھی طلاق کا تناسب 42 فیصد ہے۔ جس معاشرے میں گھر ٹوٹنے کا تناسب اتنا زیادہ ہو وہاں شخصیات کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی تیز ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے طرح طرح کے نفسیاتی مسائل اور روحانی اضطراب جنم لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسی بے سکونی سے نجات کے لئے شراب نوشی یا کسی نشے کا سہارا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں مسائل کم ہونے کی بجائے مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں مبتلا ہونے والے والدین کے بچوں کو سوشل سروسز کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ سوشل سروسز ایسے بچوں کو فوسٹر پیرنٹس یعنی پرورش کرنے والے والدین کے سپرد کر دیتی ہے ایسے بچوں کی کسی قسم کی مذہبی رہنمائی نہیں کی جاتی۔

      اس وقت برطانیہ میں تقریباً ایک لاکھ بچے ایسے ہیں جن کی دیکھ بھال اور نگہداشت سوشل سروسز اور فوسٹر پیرنٹس کر رہے ہیں ان میں سے بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جن کو اپنے حقیقی والد یا والدین کا پتہ نہیں ہے جب یہ بچے بالغ ہوتے ہیں تو اِن کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا اور یہ لوگ زندگی بھر روشنی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ برطانیہ کی ساڑھے چھ کروڑ آبادی میں تقریباً 37 فیصد یعنی سوا دو کروڑ سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو کسی بھی مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں۔ انسان ازل سے سکون کا متلاشی ہے، اس کائنات کے رازوں کو سمجھنے کی جستجو میں ہے، روشنی کے حصول کے لئے محو سفر ہے، اپنے خدا کی تلاش میں سرگرداں ہے، اپنی روح کی بے قراری اور بے چینی کے بھید جاننے کے لئے بھٹک رہا ہے، سنبھل رہا ہے یعنی

؎اس اعتبار سے بے انتہا ضروری ہے

پکارنے کے لئے اک خدا ضروری ہے

                                      شجاع خاور

      مذہب اور روحانیت کیا دو الگ الگ معاملات ہیں؟ تصوف کیا ہے؟ صوفی ازم کسے کہتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ اور مغرب میں روحانیت اور صوفی ازم کا چورن بہت بک رہا ہے اور دن بہ دن اس کی فروخت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے، منزل کی تلاش میں بھٹکنے والے مسافروں کو کبھی کوئی کسی آشرم یا مندر کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے

سب اپنی اپنی طرف کھینچنے میں تھے مصروف

مجھے کوئی بھی خدا کی طرف نہیں لایا

قمررضاشہزاد

      روحانیت اور تصو ف کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر بہت سے عیار لوگ ایسے بھٹکے ہوئے مسافروں کو مزید بھٹکا دیتے ہیں جو کسی روحانی یا نفسیاتی بے چینی کے سبب حقیقی رہنمائی اور منزل کے متلاشی ہوتے ہیں۔ چند برس پہلے میں ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئے جرمنی گیا وہاں ایک قوال سبز چوغہ پہنے اور گلے میں موٹے موٹے موتیوں والی بھاری مالائیں لٹکائے اس محفل میں شریک تھے۔ اُن کے دائیں بائیں دو سفید فام جرمن خواتین (لڑکیاں) مودب ہو کر بیٹھی ہوئیں تھیں۔ انہوں نے بھی کھلے لباس پہن رکھے تھے اور گلے میں لمبا سبز دوپٹہ (چادر) لے رکھا تھا جو اُن کے گھٹنوں کو چھو رہا تھا۔ میرے استفسار پر ایک دوست نے بتایا کہ یہ دونوں جرمن عورتیں اس قوال کی مریدنیاں ہیں۔ قوال صاحب خود کو صوفی قرار دیتے اور غیر مسلموں کو تصوف کے رمز اور کیفیتوں سے آشنا کرتے ہیں۔ موصوف خو د کو نمازروزے کی پابندی سے ماورا سمجھتے اور ہر وقت ایک وجدانی کیفیت میں رہنے کا ڈھونگ رچائے رکھتے ہیں۔ روح اور روحانیت ایک ایسی گتھی ہے جسے آج تک کوئی نہیں سلجھا سکا۔ روح صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے اور واپس اُسی کی طرف چلی جاتی ہے کوئی انسان اگر اپنی زندگی میں کسی روحانی کیفیت سے گزرتا ہے تو اس کا بھید صرف اس روح کے خالق کے علم میں ہوتا ہے۔ مجھے لندن میں چند ایسے نو مسلموں سے ملنے اور اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کاموقع ملا ہے جو لادین یا کسی اور مذہب کے پیروکار تھے۔ اُن میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو روحانی اور نفسیاتی طور پر بہت مضطرب، بے چین اور مضمحل تھے۔ انہوں نے کسی کے کہنے یا اپنے طور پر قرآن پاک کو ایک کتاب کے طور پر پڑھنا شروع کیا تو رفتہ رفتہ اُن کی بے چینی اور اضطراب میں کمی آنے لگی۔ قرآن پاک کو اپنی زبان میں مکمل طور پر پڑھنے اور سمجھنے کے بعد انہیں یوں لگا کہ اللہ کی یہ کتاب واقعی راہِ ہدایت ہے، یہ روشنی ہے جس کی تلاش میں وہ مارے مارے پھر رہے تھے، اس کتابِ حکمت کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد نہ تو انہیں کسی خانقاہ یا درگاہ سے منسلک ہونے یا اپنی حاجات کے لئے کسی پیر فقیر سے رابطے کی ضرورت محسوس ہوئی اوہ نہ ہی کسی عالم فاضل یا کسی خاص مسلک اور عقیدے کے مولانا یا علامہ سے کوئی سرٹیفکیٹ یا سند لینے کی حاجت رہی۔ قرآن پاک کی تفہیم نے اُن کی زندگی کو آسان کر کے روحانی اور نفسیاتی بے چینیوں کا مداوا کر دیا۔ اگر ہم پیدائشی مسلمانوں کا اُن نو مسلموں سے موازنہ کریں جنہوں نے قرآن پاک کو پڑھ اور سمجھ کر بقائمی ہو ش و حواس اسلام قبول کیا ہے تو ہمیں دونوں طرح کے مسلمانوں کے رویوں، طرزِ فکر، طرز ِ زندگی اور ترجیحات میں واضح فرق نظر آئے گا۔ پیدائشی مسلمانوں کی اکثریت نے قرآن حکیم کو صرف عربی میں پڑھنے کے لئے برکت اور ثواب کی کتاب سمجھ رکھا ہے جبکہ نو مسلم اسے کتابِ ہدایت سمجھ کر اسے اپنی زبان میں پڑھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج غیرمسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں اور خاص طور پر پیدائشی مسلمانوں کی زندگیاں، روحانی اور نفسیاتی طور پر زیادہ بے چین، بے سکون اور مضطرب ہیں۔ اللہ ہم پیدائشی مسلمانوں کو توفیق دے کہ ہم قرآن حکیم کو کتاب ہدایت سمجھ کر اپنی زبان میں پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔

٭٭٭تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ باصر کاظمی کو ملنے والے اس ایوارڈ کی خیر مقدمی تقریب کی صدارت ساقی فاروقی نے کی تھی اور مہمانان خصوصی آغا ناصر اور ڈاکٹر خورشید رضوی تھے۔ باصرسلطان کاظمی اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہیں برطانیہ کے اس شاندار شاہی اعزاز کا حق دار سمجھا گیا ہے۔ 1993 میں جب میں لندن آیا تو جن چند شخصیات سے مجھے ملنے کی طلب تھی اُن میں ایک باصر کاظمی بھی تھے۔ میں اُن کی شاعری کا تو پہلے سے ہی مداح تھا لیکن جب وہ 1994 میں مانچسٹر سے چند روز کے لئے لندن آئے تو اُن سے ملاقات کے بعد میں اُن کی شاندار اور پروقار شخصیت کا بھی گرویدہ ہو گیا۔ باصر کاظمی اُس بڑے باپ کے بیٹے ہیں جن کا نام ہی اُن کی اولاد کی پہچان کے لئے کافی ہے اور جن کے حوالے کے بغیر اردو غزل کا تذکرہ اور تاریخ مکمل نہیں ہوتی یعنی بے مثال شاعر ناصر کاظمی جن کے فرزند ارجمند باصر کاظمی ہیں۔ اِس قدر معتبر حوالے کے باوجود باصر کاظمی نے اپنی شعری اور تخلیقی شناخت کا الگ چراغ جلایا، امریکہ، یورپ، مڈل ایسٹ، انڈیا یا دنیا کے کسی اور خطے میں جہاں کہیں بھی اُن کو کسی مشاعرے یا کانفرنس میں مدعو کیا جاتا ہے تو انہیں صرف باصر کاظمی یعنی ایک عمدہ اور شاندار شاعر ہونے کی وجہ سے اُن کی پذیرائی ہوتی ہے۔ مجھے باصر کاظمی کے ہمراہ دنیا کے کئی ممالک کے مشاعروں میں شریک ہونے کا موقع ملا وہ جہاں بھی گئے انہوں نے اپنے والد ناصر کاظمی کے نام کو کیش نہیں کروایا (حالانکہ انہیں اس کا پورا پورا استحقاق ہے) وہ اپنے الگ تخلیقی جوہر اور منفرد شاعرانہ آہنگ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور مقبولیت کے پروقار درجے پر فائز ہیں۔ اُن کی شعری تربیت میں ناصر کاظمی کا بڑا حصہ ہے لیکن باصر کاظمی نے اپنے شعری اظہار اور خاص طور پرغزل کہنے کے لئے یکسر مختلف اسلوب کا انتخاب کیا ہے۔ ویسے تو الطاف حسین حالی نے کہا تھا کہ

؎ قیس سا پھر نہ اُٹھا کوئی بنی عامر میں

فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص

      لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی گھرانے میں کئی قابل فخر ہستیاں جنم لیتی ہیں، باصر کاظمی نے نہ صرف ناصر کاظمی کے شاعرانہ وقار کی لاج رکھی ہے بلکہ وہ اپنے خاندان کے ایک اور قابل فخر شاعر اور نفیس انسان ہیں۔ باصر کاظمی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا۔ دوران تعلیم وہ راوی کے ایڈیٹر اور سٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ ایم اے کرنے کے بعد انہوں نے سی ایس ایس کرنے کی بجائے تدریس کا انتخاب کیا اور گورنمنٹ کالج میں ہی انگلش کے استاد مقرر ہوئے۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں وہ برطانیہ آ گئے 1991 میں ایم ایڈ کرنے کے بعد سن 2000 میں انہوں نے یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایم فل کیا۔ 1997 میں اُن کے ڈرامے بساط کا ترجمہ چیس بورڈ (CHESS BOARD)  کے نام سے ہوا جسے کئی تھیٹرز میں پیش کیا گیا۔بعد ازاں ان کا یہ ڈرامہ اے لیول اردو کے نصاب میں شامل ہوا۔ باصر کاظمی نے پورے یونائٹیڈ کنگڈم میں پوئٹری اور ڈرامہ ورکشاپس بھی کنڈکٹ کیں۔ انہیں نارتھ ویسٹ پلے رائٹس ورکشاپ کا ایوارڈ بھی ملا۔ باصر کاظمی کی ساری زندگی درس و تدریس اور اچھی شاعری تخلیق کرنے میں گزری ہے۔ اُن کی شاعری کے انگریزی میں تراجم ہوئے جو کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ اردو کے واحد شاعر ہیں جب کا ایک شعر سلاؤ کے مکینز ی سکوئر میں انگریزی ترجمے کے ساتھ ایک پتھر پر کندہ کر کے آویزاں کیا گیا وہ شعر کچھ آپ بھی پڑھ لیجئے

دِل لگا لیتے ہیں اہل دل وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو

      باصر کاظمی کی غزلوں کا پہلا مجموعہ موج خیال 1997 دوسرا مجموعہ چمن کوئی بھی ہو 2008 میں اور اُن کے ڈراموں اور شاعری کا انتخاب شجر ہونے تک 2015 میں شائع ہوا جبکہ ناصر کاظمی اور باصر کاظمی کی غزلوں کے انتخاب کو انگریزی ترجمے کے ساتھ ریڈبیک پریس بریڈ فورڈ نے 2003 میں شائع کیا اور پھر یہی کتاب 2006 میں غزل، نسل در نسل کے نام سے چھپی۔ ناصر کاظمی کی شاعری کے حوالے سے بھی باصر کاظمی کی کئی کتابیں اور تفصیلی مضامین پاکستان اور بھارت کے معتبر جریدوں کی زینت بن چکے ہیں جبکہ باصر کاظمی کی اپنی شاعری اور ڈراموں کے بارے میں بھی بہت سے نامور اہل قلم کے تاثرات اور تجزیے اخبارات اور ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ باصر کاظمی نے ایک بار روزنامہ جنگ لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اچھی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ دِل سے نکلتی ہے اور دِل میں اُتر جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ ہجرت کے بعد میری شاعری کے نئے دور کا آغاز ہوا جس میں وطن سے دوری اور اپنوں سے جدائی کا احساس کارفرما تھا۔ باصر کاظمی برطانیہ میں اس وقت اردو کے نمائندہ اور سب سے اہم شاعر ہیں اور اُن کی شاعری کے قدردان اور مداح پوری اردو دنیا میں موجود ہیں۔اُن کی شاعری کا انتخاب’اب وہاں رات ہو گئی ہو گی‘ کے نام سے 2018 میں دلّی سے بھی شائع ہوا۔2017ء میں انہیں علی گڑھ ایلومنائی ایسوسی ایشن ہوسٹن امریکہ کی طرف سے علی سردار جعفری لٹریری ایوارڈ دیا گیا جبکہ 2015ء میں بزم صدف انٹرنیشنل قطر نے انہیں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دیا۔ باصر کاظمی نے ہجرت کے بعد جس طرح اپنے شعری سفر کو جاری رکھا اور خاص طور پر اردوغزل کے سرمائے میں ناصر کاظمی کی طرح اضافہ کیا اس پر انہیں جتنی داددی جائے وہ کم ہے۔ اُن کی اس خوبی کا اعتراف موجودہ عہد کے ہر بڑے شاعر اور ادیب نے کیا ہے۔ باصر کاظمی کی غزل کا اسلوب ناصر کاظمی کی غزل سے یکسر مختلف ہے جو اردو شاعری کے باذوق قارئین اور نقادوں کو ضرور اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ اردو غزل کے ایک اہم اور عمدہ شاعر ہیں اُن کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے

جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارہ کم ہے

اتنی جلدی نہ بنا رائے مرے بارے میں

ہم نے ہمراہ ا بھی وقت گزارہ کم ہے

……

غم برگد کا گھنا درخت

خوشیاں ننھے ننھے پھول

آنسو خشک ہوئے جب سے

آنگن میں اڑتی ہے دھول

……

کہاں ملے گا وہ مجھ سے اگر یہاں بھی رہے

مری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے

……

دو دن میں نہ ہو جاؤ اگر تم تہی دامن

لو پھول تمہارے سہی اور خار ہمارے

……

ہوتے ہیں جو سب کے وہ کسی کے نہیں ہوتے

اوروں کے تو کیا ہوں گے وہ اپنے نہیں ہوتے

……

گلہ بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

……

ہیں کون سے بہار کے دن اپنے منتظر

یہ دِن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا

……

آواز رفتگاں مجھے لاتی ہے اس طرف

یہ راستہ اگرچہ مری رہ گزر نہیں

……

یہ مشاہدہ ہے میرا رہِ زندگی میں باصرؔ

وہی منہ کے بل گرا ہے جو چلا سنبھل سنبھل کے

……

کرتے نہ جو ہم اہل وطن اپنا گھر خراب

ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب

……

      باصر کاظمی کی شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی روزمرہ زندگی کے مشاہدات کو انتہائی سلیقے سے اپنی غزل کا حصہ بنایا ہے۔ وہ بڑی آسانی اور سہولت سے زندگی کی ایسی سچائیوں اور حقیقتوں کو شعر کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں جنہیں بیان کرنا ہر ایک شاعر کے بس کی بات نہیں۔ باصر کاظمی کی شاعری پڑھ کر ناصر کاظمی کی طرف دھیان نہیں جاتا بلکہ باصر کاظمی کو ہی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ باصر کاظمی کا شعری سفر جاری ہے۔ وہ کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر عمدہ اور دِل موہ لینے والے شعر کہہ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کے ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ برطانیہ میں باصر کاظمی جیسے اردو کے اہل قلم کے ادبی کارناموں کی پذیرائی کریں۔ اگر برطانیہ میں انہیں شاہی اعزاز کا حق دار سمجھا گیا ہے تو پاکستان میں بھی اُن کی شاعرانہ خوبیوں کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔  لگے کہ اگر آپ نے سرسبز وادیوں میں گھِری سکاچ وہسکی کی فیکٹری اور جنگلی پھولوں کی چراگاہوں میں موجود ہنی فارم یعنی قدرتی شہد کے مراکز نہیں دیکھے تو آپ کا سکاٹ لینڈ کا دورہ نامکمل ہے۔ اگلے روز وہ مجھے سکاچ وہسکی بنانے کی فیکٹری اور سکاٹ لینڈ میں جنگلی شہد کے فارم کی سیر کرانے کے لئے لے گئے۔ سکاچ وہسکی کشید کئے جانے کے مراحل کی تفصیل پھر کبھی سہی فی الحال جنگلی شہد کے فارم کا ذکر آپ کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گا۔یہ فارم 1945ء میں بنایا گیا۔ پرتھ شائر کی سرسبز وادیوں میں قائم اس فارم کو ہیدر ہلز(HEATHER HILLS)ہنی فارم کہتے ہیں۔ اس فارم میں شہد کی مکھیاں جنگلی جڑی بوٹیوں کے پھولوں کا رس چوس کر دنیا کا بہترین شہد تیار کرتی ہیں۔ اس لئے دنیا بھر میں اس فارم کے شہد کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ شہد اور دودھ قدرت کی ایسی نعمتیں ہیں جنہیں دنیا کی بہترین، مکمل اور صحت بخش غذا اور دوا سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے علاؤہ تمام الہامی کتابوں اور مذاہب میں بھی اِن دونوں اشیاء کے تقدس اور افادیت کا ذکر کیا اور حوالہ دیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ النحل کی آیت نمبر 68 میں خصوصی طور پر شہد کی مکھیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ یہودیوں کے اعتقاد کے مطابق اللہ نے انہیں شہد اور دودھ کی سرزمین عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ وزن میں ایک پاؤنڈ شہد بنانے کے لئے ایک مکھی کو 20لاکھ پھولوں کا رس چوسنا اور اوسطاً 55ہزار میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ شہد کی 768مکھیاں زندگی بھر میں ایک پاؤنڈ شہد بناتی ہیں جو کہ ان کی اپنی غذائی ضرورت سے تین گنا اضافی ہوتا ہے۔ یعنی ایک شہد کی مکھی کی زندگی کا حاصل صرف 1/12ٹی سپون (چائے کا چمچ) شہد ہوتا ہے۔ خالص شہد کو اگر سیل کر کے رکھ دیا جائے تو وہ سالہا سال خراب نہیں ہوتا کیونکہ اس میں کسی قسم کے جراثیم بیکٹیریا یا وائرس پنپ نہیں سکتے۔ شہد میں 80فیصد مٹھاس اور تقریباً 20فیصد پانی ہوتا ہے۔ ایک ٹیبل سپون یعنی ایک کھانے کا چمچ (15ملی لیٹر)شہد کھانے سے 46کلو کیلوریز (فوڈ انرجی) حاصل ہوتی ہیں اور اس میں وہ تمام ضروری اجزاء ہوتے ہیں جو زندگی بچانے کے لئے لازمی ہیں۔ شہد کا استعمال انسانی دماغ کو فعال بناتا ہے اور اسے صدیوں سے موسمی کھانسی کا علاج سمجھا جاتا ہے۔ مقامی شہد کا استعمال ہر طرح کی الرجی سے مدافعت کا باعث بنتا ہے۔برطانیہ میں دودھ اور شہد کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تقریباً ہر گھر میں ناشتے کا ضروری حصہ ہوتا ہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں ہر سال 43ہزار ٹن شہد کھایا جاتا ہے۔ شہد کی پیداوار کے معاملے میں برطانیہ خودکفیل نہیں ہے۔ اُسے 95فیصد شہد نیوزی لینڈ، چین، میکسیکو، سپین اور پولینڈ سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے جس پر اس کا سالانہ 151ملین ڈالرز کا زرِ مبادلہ صرف ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں برطانوی شہد کو اس کے ذائقے اور تاثیر کی وجہ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اس لئے برطانیہ ہر برس تقریباً 17ملین ڈالرز مالیت کا شہد سعودی عرب، یو اے ای، آئرلینڈ، ہالینڈ اور امریکہ کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔ برطانیہ میں دودھ اور شہد کے خالص ہونے کے بارے میں کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ یہاں کوالٹی کنڑول کے علاؤہ تاجروں میں مال بنانے کے لئے ملاوٹ کار جحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ دودھ اور شہد کی بوتل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہی کچھ اس کے اندر ہوتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتو دودھ اور شہد فراہم کرنے والی کمپنی کو بھاری جرمانے اور سخت عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ میں خالص دودھ کے علاؤہ کم چکنائی اور چکنائی کے بغیر بھی دودھ دستیاب ہوتا ہے۔ بڑے سٹورز پر بکری اور بھیڑ کا دودھ بھی باآسانی مل جاتا ہے۔ برطانیہ میں دودھ کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ یہاں ہر فرد ایک ہفتے میں اوسطاً ڈیڑھ لیٹر دودھ پیتا ہے۔ یوکے میں بچوں کو چینی (شکر) کے بغیر دودھ پینے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ اس لئے نوزائیدہ اور سکول جانے والے سو فیصد بچے کسی مصنوعی مٹھاس کے بغیر ہی دودھ پیتے ہیں۔ دنیا بھر میں دودھ پینے کے معاملے میں بیلا روس کے لوگ پہلے نمبر پر ہیں جہاں ہر فرد سالانہ 115لیٹر دودھ پیتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر انڈیا دودھ کی پیداوار میں سرفہرست ہے لیکن بہت زیادہ آبادی کی وجہ سے وہ بمشکل اپنی ملکی ضرورت کو پورا کر پاتا ہے۔ اس وقت نیوزی لینڈ، جرمنی اور ہالینڈ دودھ اور ڈیری پراڈکٹس کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔ برطانیہ سمیت یورپ کے بیشتر ملکوں میں چونکہ بھینسیں نہیں ہوتیں اس لئے صرف گائے کا دودھ ہی دستیاب ہوتا ہے۔ بھینس اور گائے کے دودھ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھینس کا دودھ گاڑھا ہوتا ہے جس میں چکنائی اور پروٹین کی مقدار گائے کے دودھ سے زیادہ ہوتی ہے۔ چکنائی کی زیادتی کے باعث بھینس کے دودھ سے مکھن اور گھی زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے برصغیر میں بھینسیں پالنے کا رجحان زیادہ ہے۔ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ مغربی اور خاص طور پر یورپ کے غیر مسلم ممالک میں دودھ اور شہد میں ملاوٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مسلمان جو دِن رات جنت میں جانے اور دودھ اور شہد کی نہروں کے خواب دیکھتے ہیں۔ اپنے ملکوں اور معاشروں میں قدرت کی اِن دونوں نعمتوں میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے۔ کافر ملکوں میں خالص دودھ اور شہد فراوانی کے ساتھ دستیاب ہے جبکہ مسلم ممالک میں انتہائی مضر صحت کیمیکلز سے نقلی دودھ اور شہد بنا کر عام لوگوں اور خاص طور پر بچوں کی زندگی کو بیماریوں کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت اللہ کے رسولؐ کے اس فرمان سے واقف ہے کہ ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“ لیکن اس کے باوجود ہم عاشق رسولؐ ہونے کے دعویدار ہیں۔ سچا عاشق رسولؐ وہ ہوتا ہے جو اللہ کے آخری نبیؐ کے ہر فرمان پر عمل کرے۔ آپؐ نے جن باتوں کی تاکید فرمائی ہے اُن کی پیروی کرے اور جن کاموں سے منع کیا گیا ہے انہیں ہمیشہ کے لئے ترک کر دے۔ اگر ہم اپنے حکمرانوں، اربابِ اختیار یا کسی اور کو ملک کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار قرار دینے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم خود کتنے دیانتدار ہیں۔ ملاوٹ اور دو نمبری پوری قوم کا وطیرہ بن چکی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب صرف تعلیمی ڈگریاں ہی دو نمبر نہیں ہمارے سیاستدان، تاجر، علماء، جج، وکیل، اساتذہ، صحافی، ڈاکٹر اور عوام بھی دو نمبر ہو گئے ہیں۔اب تو صرف وہی دیانتدار ہے جسے بددیانتی کا کوئی موقع میسر نہیں۔ جس معاشرے میں خالص دودھ، شہد، دیسی گھی، دوائیں اور ملاوٹ سے پاک کھانے پینے کی اشیا ناپید ہو جائیں، صفائی کو نصف ایمان نہ سمجھا جائے وہاں رب العالمین سے رحمتوں اور برکتوں اور دعاؤں کی قبولیت کی توقع رکھنا معلوم نہیں کس حد تک جائز ہے؟۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سرکاری محکمے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدلیہ اس معاملے یعنی ملاوٹ کے خاتمے کو کبھی اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بناتے اور نہ ہی علماء کرام اور مذہبی رہنما اس بارے میں عوام کو دینی تقاضوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جج صاحبان اس سلسلے میں کبھی کوئی ازخود نوٹس نہیں لیتے وہ کبھی اس تلخ حقیقت پر دھیان نہیں دیتے کہ ملاوٹ کے اس خطرناک رجحان کی وجہ سے پاکستان میں صحت کے مسائل میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آلودہ پانی پینے، ملاوٹ شدہ خوراک کھانے اور نقلی دوائیاں استعمال کرنے سے عوام کو جن بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے بارے میں مراعات یافتہ طبقے کو نہ سوچنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اُن کے پاس اس پر غور کرنے کی فرصت ہے۔ صوبائی اور وفاقی محکمہ صحت کو سروے کرنا چاہئے کہ پاکستان میں دِن بہ دِن میڈیکل لیبارٹریز، ڈسپنسریز، ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کی ضرورت کیوں بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا اس کا تعلق ملاوٹ شدہ خوراک اور آلودہ پانی کے استعمال سے بھی ہے؟ جو لوگ خطرناک کیمیکلز سے دودھ بناتے ہیں انہیں یہ امید نہیں کرنی چاہئے کہ جب وہ بیمار پڑیں گے تو انہیں ایک نمبر دوا ملے گی۔ اسی طرح کھانے پینے کی دیگر اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں کو تیار رہنا چاہئے کہ اُن کی گاڑی میں جو پٹرول ڈالا جائے گا وہ مقدار میں کم اور دو نمبر ہو گا۔ دودھ اور شہد کو ہم مسلمان جنت کی نعمتیں سمجھتے ہیں لیکن کس قدر افسوس اور المیے کی بات ہے کہ ہم اِن دونوں نعمتوں میں بھی ملاوٹ سے گریز نہیں کرتے اور امید لگائے رکھتے ہیں کہ جب ہم جنت میں جائیں گے تو وہاں خالص دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں گے اور جن کے کنارے پر خوبصورت حوریں ہمارے انتظار میں بیٹھی ہوں گی۔

Loading