انگلینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔ فیضان عارف)
اپنے حصے کا درخت لگائیں
برطانیہ کے شہر کوونٹری میں نومبر 1972 میں ایک سیاسی جماعت کا قیام عمل میں آیا جس کا نام پیپلز پارٹی تھا۔ 1975 میں اس کا نام تبدیل کر کے ایکولوجی پارٹی رکھ دیا گیااور پھر 1985 میں اسے گرین پارٹی کا نام دیا گیا۔ 1989 میں یورپین پارلیمنٹ کے انتخابات میں گرین پارٹی کو 23 لاکھ ووٹ ملے یعنی ملک بھر کے 15 فیصد ووٹرز نے گرین پارٹی کی حمایت کی۔ اگرچہ اس وقت برطانوی پارلیمنٹ میں گرین پارٹی کا صرف ایک منتخب رکن ہے اور ہاؤس آف لارڈز میں اس کے اراکین کی تعداد صرف دوہے لیکن انگلینڈ اور ویلز کی مقامی کونسلز میں گرین پارٹی کے منتخب کونسلرز کی تعداد 745 ہے اور لندن اسمبلی میں بھی اس پارٹی کے 3 منتخب ارکان موجود ہیں۔ پورے یونائٹیڈ کنگڈم میں گرین پارٹی کے اراکین کی تعداد تقریباً55 ہزار ہے جو اس پارٹی کو سالانہ 40پاؤنڈ چندہ دیتے ہیں۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے اور ماحولیات کے لئے کام کرنے والے لوگوں کی اکثریت گرین پارٹی کی رکن یا ووٹر ہے۔ گرین پارٹی کی ترجیحات میں ملک کو سرسبز بنانا اور معاشرے کے ہر فرد کے لئے ترقی اور انصاف کے یکساں ماحول کو فروغ دیا ہے۔ برطانیہ میں سول لبرٹیز، اینمل رائٹس اور ڈرگ پالیسی ریفارم کے لئے بھی گرین پارٹی سرگرم عمل ہے۔ برطانوی سکولوں میں بچوں کو ابتدا سے ہی ماحولیاتی آلودگی کے بارے آگاہی اور معلومات فراہم کی جاتی ہیں اس لئے یہاں کا ہر با شعور فرد ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ یو کے میں اگر کسی رہائشی منصوبے، ہوائی اڈے کے رن وے میں توسیع یا کسی موٹر وے کی تعمیر کے لئے درختوں کو کاٹنے کی ضرورت پیش آئے تو گرین پارٹی کے اراکین اور ماحولیات کی بہتر ی کے لئے کام کرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد مل کر ایسے منصوبوں کو روکنے کے لئے احتجاج کرتی ہے اور بہت سے لوگ اونچے درختوں پر چڑھ جاتے ہیں تاکہ انہیں کاٹا نہ جا سکے۔ پورے یونائٹیڈ کنگڈم میں تقریباً 39 ملین گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں لیکن شاید ہی کوئی کار، وین، بس، کوچ یا ٹرک ایسا ہو گا جو دھواں چھوڑتا دکھائی دے اور ویسے بھی برطانیہ میں 2030 سے پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت اور مینوفیکچرنگ پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ یعنی صرف بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ہی سڑکوں پر دکھائی دیں گی جن کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں واضح طور پر کمی آئے گا۔ اس دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ا س ضمن میں پوری کوشش کر رہے ہیں کہ آبادی میں اضافے کے تناسب کو کنٹرول میں رکھا جائے، زیر زمین پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے جدید سیوریج سسٹم بنایا جائے، دریاؤں، نہروں اور سمندروں کے پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لئے موثر حکمت عملی اختیار کی جائے۔ میدانی اور پہاڑی مقامات کے علاوہ رہائشی علاقوں میں سڑکوں کے کنارے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، آبادی کے درمیان بڑے بڑے سبزہ زار اور پارک بنائے جائیں تاکہ ہر علاقے کے مکینوں کو تازہ ہوا اور آکسیجن میسر آ سکے۔ برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ملکوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں دور اندیشی سے کام لیتی ہیں اور آنے والے خطرات کو پہلے سے بھانپ کر ان سے بچنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا شروع کر دیتی ہیں اور پورے معاشرے کو ان کے اثرات سے بچانے کے لئے انہیں اپنی ترجیحات کا حصہ بناتی ہیں۔ کسی بھی اچھے کام کی ترغیب کے لئے آگاہی ضروری ہے اور علم یا تعلیم کے بغیر آگاہی ممکن نہیں۔ مغربی معاشرے اس لئے ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں کہ وہاں تعلیم یا خواندگی کا تناسب 100 فیصد ہے اور پرائمری سکول کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی مشروط ہے۔ برطانیہ کے پرائمری سکولوں کی تعلیم و تربیت بچوں کی کردار سازی اور خود اعتمادی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ پرائمری سے سیکنڈری سکول تک پہنچنے والے بچے ان تمام عوامل سے آگاہی حاصل کر چکے ہوتے ہیں جو انہیں معاشرے کا ایک کارآمد اور ذمہ دارفرد بنانے کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ لندن سمیت پورے برطانیہ میں بہت زیادہ بارش برستی ہے جس کا بنیادی سبب اس ملک میں درختوں کی بہتات ہے۔ پورے یونائٹیڈ کنگڈم میں 3 بلین سے زیادہ تناور درخت اُگے ہوئے ہیں جن میں سے لاکھوں درخت کئی سو سال قدیم ہیں۔ جڑی بوٹیاں اور پھول دار پودے ان کے علاوہ ہیں۔ برطانیہ کی آبادی پونے سات کروڑ کے قریب ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں ہر ایک مکین کے حصے میں 45درخت آتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یو کے میں موسم اور فضا کیوں خوشگوار رہتی ہے۔ برطانیہ ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں آج بھی انسانوں سے زیادہ درختوں کی بہتات ہے۔ خوبصورت اور گیت گانے والے پرندوں کی کثرت ہے۔ تیسری دنیا کے جن ممالک کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے ان میں پاکستان بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے۔ وطن عزیز میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی تعداد اور ماحولیاتی آلودگی میں تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔ درخت اور جنگلات کم ہو رہے ہیں، باغات ختم کر کے رہائشی سکیمیں بنائی جا رہی ہیں ہمارے ارباب اختیار کی بد انتظامی اور کرپشن نے نظام قدرت کو بھی معاف نہیں کیا۔ شکاری مزاج قوم نے خوبصورت اور نایاب جانوروں اور پرندوں کی نسلیں معدوم کر دی ہیں۔ کوئی اپنے بچوں اور نئی نسل کو یہ بات بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ درخت، پرندے، جانور، حشرات الارض اور آبی حیات بھی ہماری اس کائنات کا حصہ ہیں ان کی بقا سے ہماری اپنی بقا وابستہ ہے۔ بقول مشتاق احمد یوسفی ہم مسلمان تو اُن جانوروں (اور پرندوں) سے بھی محبت نہیں کرتے جنہیں ذبح کر کے نہ کھا سکیں۔
کئی برس پہلے مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک سیمنار میں شرکت کا موقع ملا جس میں پرنس چارلس (اس وقت وہ ولی عہد تھے) نے اسلام اور انوائرمنٹ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اپنے لیکچر میں انہوں نے قرآن پاک اور تعلیمات نبوی کے حوالے دے کر بتایا کہ اسلام میں درخت کاٹنے کی ممانعت ہے اور ماحولیاتی آلودگی کے سدباب کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے بہت سے دانشور یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ غیر مسلموں نے اسلامی تعلیمات کے سنہری اصول اپنا کر ترقی کی ہے ایسا ہی ہے تو ہم مسلمانوں کو ان سنہری اصولوں کی پیروری سے کون روکتا ہے؟ ویسے تو ہم حب الوطنی کے دعوے کرتے اور قوم پرستی کا دم بھرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو روکنے میں ہمارا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر 14 اگست کے دن ہر پاکستانی قومی پرچم لہرانے اور سڑکوں پر ہلہ گلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کا ایک پودا بھی لگا دے اور اگلے یوم آزادی تک اس کی حفاظت کرے اور لگائے جانے والے پودے کو حب الوطنی کے تقاضے کی علامت سمجھے تو چند ہی برسوں میں پاکستان کے اندر سبز انقلاب آ سکتا ہے اور ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ہم بڑے بڑے اور معرکۃ الآرا کام کر کے انقلاب لانے کے خبط میں مبتلا ہو کر ان چھوٹے چھوٹے کاموں کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں جن کے لئے بہت زیادہ اخراجات اور محنت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم محکمہ جنگلات کی شجرکاری مہم اور کسی سیاسی جماعت سے ہی کیوں توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حصے کے درخت لگائیں۔ ہم اپنی زندگی میں کم از کم ایک پودا لگا کر تناور درخت بننے تک اس کی حفاظت کر سکتے ہیں جو ہمارے بعد بھی لوگوں کو آکسیجن اور سایہ فراہم کرنے کے علاوہ پرندوں کا مسکن بنا رہے گا۔ اگر آپ محب وطن ہیں تو اپنی زندگی میں اپنے نام کا ایک پودا ضرور لگائیں یہ درخت بن کر ہمارے ملک میں ماحولیات کی بہتری کا ضامن ثابت ہو گا۔ اندھیرے سے نجات صرف اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب ہر فرد اپنے حصے کا چراغ جلاتا ہے۔ گذشتہ یوم آزادی پر میں نے پاکستان کے ایک سابق وفاقی وزیر کو یہ تجویز دی کہ وہ 14 اگست سے پہلے یہ مہم چلائیں کہ ہر پاکستانی اپنے اور اپنے گھر والوں کے نام پر آزادی کے دن ایک پودا ضرور لگائے اور پھر اس کی دیکھ بھال اور حفاظت بھی کرے۔ میری یہ تجویز سن کر موصوف کہنے لگے کہ درخت اگانا تو بعد کی بات ہے اگر ہمارے لوگ صرف پہلے سے لگے ہوئے تناوردرختوں کو ہی کاٹنا بند کر دیں تو یہ بھی بڑی تبدیلی ہو گی پھر وہ افسردہ ہو کر کہنے لگے کہ جس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے سے بھی گریز نہ کریں وہاں درختوں کو کٹنے سے کون بچا سکتا ہے۔ جس ملک میں لوگ ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوں وہاں خوبصورت جانوروں اور پرندوں کو شکار ہونے سے کون بچا سکتا ہے۔
اللہ رب العزت نے اپنی پوری کائنات اور خاص طور پر ہماری زمین کو خوبصورت قدرتی نظاروں اور طرح طرح کی مخلوقات سے مزین کیا ہے اگر ہم اپنی زمین اور اپنی دھرتی کے حسن میں اضافہ یا اس کی حفاظت نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کے حسن اور خوبصورتی کو بگاڑنے سے ضرور باز رہیں۔ خالق کائنات صرف انہی لوگوں کو اپنی نعمتوں سے نوازنے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے جو اس کی عطا کردہ نعمتوں کا صرف شکر ہی ادا نہیں کرتے بلکہ ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ اہل مغرب کو قدرت نے جو پہاڑ، سمندر، میدان، جنگل، دریا، آبشاریں، جھیلیں، وادیاں، صحرا، جنگلی حیات اور موسم عطا کئے ہیں انہوں نے نہ صرف ان نعمتوں کا تحفظ کیا ہے بلکہ ان سب چیزوں کے حسن میں مزید اضافے کے لئے بھی وہ کوئی نہ کوئی تدبیر کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان ہو یا برطانیہ یا پھر دنیا کا کوئی اور خطہ قدرت نے اپنے وسائل کی تقسیم میں کہیں کوئی بخیلی یا نا انصافی نہیں کی۔روشن اور بہتر مستقبل کے خواب دیکھنا بلاشبہ ہر انسان کا حق اور زندگی کے ارتقاء کی دلیل ہے لیکن اچھے دِنوں کی آس اور بہتر امکانات کی امید میں اپنی زندگی کو ہی داؤ پر لگا دینا کسی بھی طرح مناسب اور جائیز نہیں۔ پاکستان میں عوام کو سبز باغ دکھانے کے لئے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے علاؤہ وہ بے رحم ایجنٹ ہی کافی ہیں جو غریبوں کی جمع شدہ پونجی ہڑپ کر کے انہیں سمندروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس لئے اوورسیز پاکستانی اپنے غریب ہم وطنوں کو مزید کسی غلط فہمی میں مبتلا کرنے سے گریز کریں اور انہیں حقائق سے آگاہ کریں کہ اب برطانیہ اور یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے وہ ایجنٹوں کے بہکاوے میں آ کر قرض میں لی گئی رقم یا جائیداد کو فروخت کر کے حاصل ہونے والے سرمائے کو داؤ پر نہ لگائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ کی امیگریشن پالیسیز میں غیر قانونی تارکین وطن کے لئے کچھ نہ کچھ گنجائش موجود تھی مگر اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔وہ ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن جو ہر سال اس امید پر سمندوں کا خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ شاید اُن کی کشتی کسی یورپی ملک کے کنارے لگ جائے گی۔ اُن میں سے چند ایک کو ہی کنارہ نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی امیگریشن کیمپوں میں کٹھن وقت گزارنے کے بعد واپس وطن بھیج دیئے جاتے ہیں۔ یورپ اور خاص طور پر برطانیہ میں امیگریشن کے قوانین ایسے ہیں جو ہمدردی کی بجائے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ تقریباً 24برس پہلے دلّی سے لندن آنے والی پرواز کے پہیوں میں چھپ کر دو بھائیوں نے برطانیہ پہنچنے کی کوشش کی تھی جن میں ایک تو سردی سے ٹھٹھر کر راستے میں ہی دم توڑ گیا تھا جبکہ دوسرا بھائی نیم مردہ حالات میں ہوائی اڈے کے رن وے پر گر کر شدید زخمی ہو گیا تھا جسے علاج معالجے کے بعد ڈی پورٹ کر کے واپس انڈیا بھیج دیا گیا تھا۔ زندہ بچ جانے والے کو اس لئے برطانیہ میں پناہ نہیں دی گئی تھی کہ کہیں اس سانحے کے بعد مجبور لوگ جہاز کے ٹائروں میں چھپ کر برطانیہ نہ پہنچنا شروع ہو جائیں۔ ہزاروں غیر قانونی تارکینِ وطن میں سے جو چند ایک یورپی ساحلوں پر پہنچ بھی جاتے ہیں تو انہیں اس لئے پناہ نہیں دی جاتی اور واپس اُن کے وطن بھیج دیا جاتا ہے کہ اس طریقے سے یورپ میں داخل ہونے والوں کی حوصلہ شکنی ہو اور انسانی سمگلروں کے کاروبار کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔ ہر سال ہزاروں مجبور لوگ حالات کی سنگینی کو جانتے ہوئے بھی اپنی جان کی بازی لگا کر انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے بہت سے دانشوروں کا خیال ہے کہ جو لوگ تیس چالیس لاکھ روپے ایجنٹوں کو دے کر ملک سے باہر جانے کے لئے ہر طرح کا رسک لینے کو تیار ہو جاتے ہیں وہ غریب یا مفلوک الحال نہیں ہوتے۔ اب اِ ن دانشوروں کو کون سمجھائے کہ قسمت کے مارے یہ لوگ کہاں کہاں سے قرض لے کر یا اپنی جائیداد اور گھر کی عورتوں کے زیور فروخت کر کے یہ رقم ایجنٹوں کے حوالے کرتے ہیں اور وہ بھی صرف اس لئے کہ ایک بار وہ یورپ پہنچ گئے تو اُن کے سب دلدرد دور ہو جائیں گے اوراُن کی بدبختی خوش قسمتی میں بدل جائے گی۔ اس کے باوجود کہ ہر سال ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن کے سمندروں میں ڈوبنے اور جنگلوں میں بھوک اور پیاس سے مرنے کی خبریں آتی ہیں مگر پھر بھی یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آتا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک کے غریب، مجبور اور لاچار لوگوں کی زندگی کس قدر مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی وہ اب ایسے سنگین مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں کہ جس پر وہ موت کے منہ میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسانی سمگلروں کی سرکوبی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اُن مفاد پرست اربابِ اختیار اور حکمرانوں کا بھی کڑے سے کڑا عوامی احتساب کیا جائے جن کی وجہ سے پاکستان کے حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ بے سہارا اور مجبور عوام کی اکثریت اپنی جان اور زندگی کی پروا کئے بغیر اپنے وطن اور اپنے پیاروں کی زخمی روحوں اور دکھ بھرے جیون سے دور چلے جاتے ہیں۔ اپنے وطن کی سرحدوں سے دور جانے والے اپنے پیچھے رہ جانے والے پیاروں سے یہ وعدہ کر کے جاتے ہیں کہ وہ انہیں بھی جلد ہی اپنے پاس بلا لیں گے اور انتظار کرنے والے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ
جائیں گے ہم بھی خواب کے اس شہر کی طرف
کشتی پلٹ تو آئے مسا فر اُتار کے
(ڈاکٹر وزیر آغا)
لیکن یہ کشتی نہ تو اپنے مسافروں کو منزلِ مقصود تک پہنچا پاتی ہے اور نہ ہی پلٹ کر واپس آتی ہے۔ اپنے وطن، اپنی دھرتی اور اپنی مٹی سے محبت انسان کی سرشت میں شامل ہوتی ہے۔ اپنے دیس کو چھوڑ کر پرائے اور اجنبی دیس میں پناہ تلاش کرنا اور وہاں اپنے قدم جمانا آسان مرحلہ نہیں ہوتا۔ جو خوش قسمت یا قسمت کے مارے سات سمندر پار کسی خوشحال ملک میں پہنچ جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنے اقتصادی حالات کو بہتربنا لیتے ہیں تو پھر وطنِ عزیز میں بسنے والا پورا خاندان اپنی ہر اقتصادی ضرورت اُن سے وابستہ کر لیتا ہے۔ بقول خاقان خاور
میں پاؤں پہ کھڑا ہوا تو پورا خاندان
آکاس بیل کی طرح مجھ سے لپٹ گیا
برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک نے غیر قانونی تارکینِ وطن کا راستہ روکنے کے لئے اپنی امیگریشن پالیسی میں ورک پرمٹ کے ذریعے سے لوگوں کو ویزا دینے کی گنجائش نکالی ہے۔ جو لوگ برطانیہ آنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ کسی ایجنٹ کے جال میں پھنسنے کی بجائے برطانوی ہوم آفس کی ویب سائٹ کا مشاہدہ کریں جہاں انہیں یونائیٹڈ کنگڈم کی امیگریشن پالیسی کے بارے میں ہر طرح کی معلومات میسر آ جائیں گی۔ ورک پرمٹ کے ویزے کے لئے جس قسم کے ہنرمند افراد کی برطانیہ میں ضرورت ہے اس کی تفصیل بھی ویب سائٹ پر مل جائے گی۔ آج بھی پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور چین کے طالبعلموں کی بڑی تعداد برطانوی یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں میں داخلے کے حصول کے بعد سٹوڈنٹ ویزے پر یہاں آ رہی ہے۔ اِن کے علاؤہ ہنرمند افراد کے لئے بھی بڑی تعداد میں ورک پرمٹ کے اجراء کا سلسلہ جاری ہے۔ غیر قانونی طریقے سے ایجنٹوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے خواہشمندوں سے میری گزارش ہے کہ خدارا روشن مستقبل کی آس میں اپنی زندگی کو داؤ پر نہ لگائیں۔ اگر آپ ہی گمنام دیاروں کے سفر میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے تو پھر کہاں کا روشن مستقبل اور کہاں اُن خوابوں کی تعبیریں جو آپ کے گھر والوں نے آپ سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ اگر آپ اپنا سب کچھ لٹا کر سمندر میں غرق ہو گئے تو آپ کے بعد اُن ماں باپ اور بہن بھائیوں کا کیا ہو گا جن کی آخری امید آپ تھے۔ خواب بہت قیمتی ہوتے ہیں لیکن زندگی ان سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔ خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے اِنسان کا زندہ رہنا ضروری ہے۔جن پیاروں کے لئے آپ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں آپ کے بعد انہیں کن اذیتوں، عذابوں اور زندگی بھر کے روگ کو سہنا پڑے گا اس پر بھی کچھ دیر کے لئے غور کرنا چاہئے۔اپنی زندگی اور مستقبل کے سنہرے خواب موت کے اُن سوداگروں کے حوالے نہ کریں۔ جو اب تک لاکھوں لوگوں کو موت کے سفر پر روانہ کر کے اپنی تجوریاں بھر چکے ہیں۔اِن ظالم اور سفاک انسانی سمگلروں کے بہکاوے اور فریب میں نہ آئیں اور جو لاکھوں روپے آپ نے اِن ایجنٹوں کو دینے ہیں اس سرمائے سے کوئی ہنر سیکھیں۔ یہ ہنر ملک کے اندر اور بیرون ملک آپ کے کام آئے گا اور آپ کو قیمتی بنائے گا۔ 70ء اور 80ء کی دہائی میں برطانیہ آنے والے پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت یہ سوچتی تھی کہ مالی خوشحالی کے بعد وہ پھر سے واپس وطن عزیز جا کر آباد ہوں گے اور شاندار زندگی گزاریں گے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ آنے والے دِنوں میں پاکستان کے مسائل اس قدر سنگین ہو جائیں گے کہ ہر دوسرا بالغ پاکستانی موقع ملنے پر اپنا ملک چھوڑنے کو ترجیح دے گا۔ بے چارے عوام ہی کیا ہمارے سابقہ حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی اکثریت بھی اب پاکستان کو اپنے لئے ایک محفوظ ملک نہیں سمجھتی اور خوشحال ملکوں میں باقی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اللہ اہلِ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے۔
٭٭٭میں ایسے بیوقوف عوام کی حمایت درکار ہوتی ہے جو جذباتی اور نعرے باز ہوں۔ شخصیت پرستی پرفخر کرتے اور جمہوریت کے نام پر فریب کھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہوں۔ ہمارے یہ سیاستدان اپنی کارستانیوں سے کبھی باز نہیں آ سکتے۔ اس لئے یہ توقع نہ رکھیں کہ ہمارے یہ سیاستدان اور حکمران تبدیل ہو جائیں گے اور ملک و قوم کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لئے کوئی تبدیلی لے کر آئیں گے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ عوام اب مزید ان کے دھوکے میں نہ آئیں بلکہ خود کو تبدیل کریں کیونکہ جس دن سے ہمارے ملک کے عوام ٹھیک ہونے کا تہیہ کریں گے اُسی دن سے پاکستان کے حالات بدلنا شروع ہوں گے۔ ملک کے عوام اگر دیانتداری، رواداری، انصاف پسندی، قانون کے احترام، حق اور سچ کی حمایت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ دغابازی، منافقت، خوشامد اور غیبت کو اپنے معمولات زندگی سے نکال دیں،جھوٹی شان و شوکت سے مرعوب نہ ہوں۔ سادگی اور صفائی کو اپنائیں اور کم بچے پیدا کریں تو اس سے نہ صرف ہماری اپنی بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔ یہ نہ سوچیں کہ اس ملک نے آپ کو کیا دیا بلکہ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ اپنے ملک کو کیا دے رہے ہیں۔ آج اگر ہمیں ہر وہ شخص برا لگتا ہے جو ڈسپلن(نظم و ضبط)، اصول پسندی، قانون کے احترام، وقت کی پابندی اور سادہ زندگی گزارنے کا پرچار کرکے خود بھی اس پر عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ پاکستان کے حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے۔ ہر خرابی کے لئے اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر ملبہ ڈال دینا ہی کافی نہیں۔ نواز شریف اور بھٹو فیملی سے لے کر عمران خان اور مذہبی رہنماؤں تک ہر ایک کو اپنے عوام کی نفسیاتی کمزوریوں کا پوری طرح ادراک ہے۔ اسی لئے وہ عوام کو چکمہ دینے کے لئے وہی حربے استعمال کرتے ہیں جو آزمودہ ہیں اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے تمام سیاستدانوں اور حکمرانوں کی طرح عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ارباب اختیار بھی یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لئے سب اچھے کام کئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ملک کے زوال کا ذمہ دار کون ہے؟ جب تک ہمارے ملک میں معیاری پرائمری تعلیم و تربیت کو ہر ایک کے لئے لازمی نہیں بنایا جائے گا۔ اس وقت تک ہماری قوم کا مستقبل مخدوش رہے گا کیونکہ جاہل اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کی برین واشنگ بڑی آسانی سے کی جا سکتی ہے اور ہمارے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ملک کی آدھی آبادی کی برین واشنگ ہمارے جاہل مّلا اور مذہبی ٹھیکیدار کر رہے ہیں اور باقی آدھی آبادی کی برین واشنگ کا ٹھیکہ ہمارے نام نہاد سیاستدانوں نے لے رکھا ہے۔ اس ملک اور قوم کا مستقبل اس وقت تک تابناک نہیں ہو سکتا جب تک عوام اپنے طرز عمل اور طرز زندگی کو ٹھیک نہ کریں کیونکہ افراد کے ہاتھوں میں ہی اقوام کی تقدیر ہوتی ہے اور ہر فرد اپنی ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے۔تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو موجودہ حالات میں اندرونی اور بیرونی خطرات اور سازشوں کا سامنا ہے۔ ہمارے دشمن ملکوں کو اندازہ ہے کہ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان پر حملے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ اسی لئے انہوں نے پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہمارے دشمنوں کو معلوم ہے کہ جب تک ہم منتشر رہیں گے ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ نہیں پنپ سکے گا۔ اسی لئے وہ جاہل ملّاؤں کے ذریعے (جو کہ ہمارے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں) ہمیں فرقہ واریت کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں اور قوم پرستی کے نام پر ہمیں پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی اور پشتون میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور یہ کام بھی پاکستان دشمنوں کے ایجنٹوں (نام نہاد قوم پرست لیڈرز) کے ذریعے کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خطیر وسائل صرف کئے جا رہے ہیں۔ شخصیت پرستی فرقہ واریت اور قوم پرستی ہی وہ حربے ہیں جن کو کامیاب کرنے کے لئے پاکستان میں ایجنٹوں کی کمی نہیں۔ تقسیم شدہ اور بکھری ہوئی قوم ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو ہوا دینے میں مصروف رہتی ہے اور اب سوشل میڈیا اس آگ کو بھڑکانے میں پیٹرول کا کام کرتا ہے۔ نفرت سے لبریز قومیں ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کے درپے رہتی ہیں۔ ان کے لئے ملک و قوم کی اقتصادی ترقی اور سماجی خوشحالی بہت ثانوی حیثیت رکھی ہے۔ جس ملک کے عوام کی اکثریت جاہل اور ان پڑھ ہو وہاں نفرتوں، فرقہ واریت اور قوم پرستی کے بیج بونے کے لئے زمین بہت زرخیز ہو جاتی ہے۔ پاکستان سے آئے ہوئے ان دانشور کا وطن عزیز کے حوالے سے تجزیہ سن کر ہم سب تارکین وطن نے ان کے خیالات کو سراہا۔ میں نے ان سے استفسار کیا کہ ان حالات میں اوورسیز پاکستانی کو کیا کرنا چاہئے یا وہ اپنے ملک کی اقتصادیات کی بہتری کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً ایک کروڑ پاکستانی مقیم ہیں۔ بالخصوص مڈل ایسٹ، امریکہ اور برطانیہ کے اوورسیز پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی برانچیں بالکل نہ بنائیں اور نہ ہی پاکستان سے آنے والے سیاستدانوں کو استقبالیے دیں یا ان کی میزبانی کے لئے ان کے آگے پیچھے پھریں۔ اپنے وسائل کو ضائع نہ کریں جو زرمبادلہ وہ مفاد پرست سیاستدانوں کی پذیرائی پر خرچ کرتے ہیں اس سے پاکستان میں کسی غریب طالب علم کو سپانسر کریں تاکہ وہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کر سکے۔ دوسرا کام اوورسیز پاکستانیوں کو یہ کرنا چاہئے کہ اپنے خاندان کے کسی ایک فرد کو بیرون ملک بلا لیں کیونکہ ایک فرد کے باہر آ جانے سے کم از کم ایک خاندان کے مالی حالات بہتر ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت جتنی جلدی سمجھ آ جائے اتنا ہی اچھا ہے کہ ہمارے دشمن ہمیں سرحدوں پر سے مارنے کی بجائے ہماری سرحدوں کے اندر سے اپنے ایجنٹ بھرتی کر کے ان کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر رہے ہیں اور اس کام کے لئے وہ پیسے اور وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔کئی دہائیوں پہلے انہوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے فرقہ واریت اور قوم پرستی کی فصل بوئی تھی اوراب وہ پک کر تیار ہو چکی ہے۔ اگر آپ جائزہ لیں کہ فرقہ واریت پھیلانے والے جاہل ملّاؤں اور قوم پرستی کو ہوا دینے والے لیڈرز کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟اور ان کے پاس پیسہ اور وسائل کہاں سے آتے ہیں؟ تو ساری حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جائے گی۔یہی وہ لوگ ہیں جو عوام میں نفرتیں پھیلا کر دشمن کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں۔ ہمارے دشمنوں کو پوری طرح اس حقیقت کا پتہ ہے کہ اگر پاکستانی متحد ہو کر ملک و قوم کے لئے کام کرنے لگ گئے تو وہ ہر طرح کی اقتصادی غلامی اور بیرونی قرضوں کی لعنت سے نجات حاصل کر لیں گے۔ اسی لئے ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ پاکستان پر کرپٹ سیاستدان، فرقہ واریت کی آگ بھڑکائے رکھنے والے جاہل ملّا اور قوم پرستی کے نام پر نفرتوں کے بیج بونے والے نام نہاد لیڈرز یونہی مسلط رہیں اور عوام کے جذبات اور جاہلانہ نفسیات کو استعمال کر کے پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرنے کا مشن جاری رکھیں۔ اب بھی وقت ہے کہ عوام خواب غفلت سے جاگیں سیاستدانوں اور حکمرانوں سے کوئی توقع رکھنے کی بجائے اپنی تقدیر آپ بدلنے کے لئے ہوش کے ناخن لیں پاکستان دشمن ایجنٹوں کی چال کو سمجھیں وگرنہ کہتے ہیں کہ غافل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب بند ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ایلزبتھ کی تاجپوشی کے 70 برس مکمل ہونے پر جشن اور رنگا رنگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ گزرنے والے 70 برسوں میں ملکہ برطانیہ نے دنیا کے بہت سے عروج و زوال دیکھے، اس دوران انہوں نے یونائٹیڈکنگڈم کے 14 وزرائے اعظم کے مختلف ادوار میں ہونے والی قانون سازی کے مسودوں کی حتمی منظوری دی۔ وہ برٹش ایمپائر میں سب سے زیادہ عرصے تک ملکہ کے منصب پر فائیز رہنے والی شخصیت ہیں انہوں نے اب تک 21 ہزار سے زیادہ شاہی اور سرکاری تقریبات اور اجلاسوں میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی ہے۔ انہیں چھوٹی عمر سے ہی گھڑ سواری کے علاوہ کتے اور کبوتر (ریسنگ پجن) پالنے کا شوق ہے، وہ روانی سے فرانسیسی زبان بول لیتی ہیں اور وہ اب تک دنیا کے سو سے زیادہ ممالک کے دورے کر چکی ہیں جن میں 1961 اور 1997 میں پاکستان کے سرکاری دورے بھی شامل ہیں۔ ملکہ برطانیہ دنیا کی واحد خاتون ہیں جنہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں جانے کے لئے کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ برطانیہ ایسی اکلوتی شخصیت ہیں جو ملک بھر میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلا سکتی ہیں۔ کوئین ایلزبتھ تازہ دم رہنے کے لئے روزآنہ شیمپین (CHAMPAGNE) کا ایک گلاس پیتی ہیں۔ ملکہ برطانیہ چھ سو فلاحی اور خیراتی اداروں کی مدد اور معاونت کرتی ہیں انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک ٹرک ڈرائیور کے طور پر بھی رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ کوئین ایلزبتھ دوئم نے ایک شاندار شاہانہ زندگی گزاری ہے برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں کی اکثریت انہیں ایک وضع دار اور نفیس شخصیت کی حیثیت سے جانتی اور اُن کا احترام کرتی ہے۔ ملکہ کی لمبی عمر اور صحت کا راز اُن کے کھانے پینے کے معمولات اور ڈسپلن ہے،وہ رات دیر تک نہیں جاگتیں اور سادہ غذا کھانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اُن کے اثاثوں کا تخمینہ تین سو ملین پاؤنڈ سے بھی زیادہ لگایا جاتا ہے جبکہ انہیں شاہی اخراجات کے لئے ہر سال تقریباً 40 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم حکومتی خذانے سے ادا کی جاتی ہے۔ چند برس پہلے تک ملکہ کسی بھی قسم کے ٹیکس کی ادائیگی سے مستشنٰی تھیں۔ دنیا بھر میں جس شخصیت کی سب سے زیادہ تصاویر ڈاک ٹکٹوں، کرنسی نوٹوں، سکوں اور پوسٹل آرڈرز پر چھپتی ہیں وہ ملکہ برطانیہ ہیں۔ 1986 میں شاہی نسل کی برطانوی اتھارٹی یعنی BRITISH AUTHORITY OF ROYAL PEDIGREES نے دعویٰ کیا کہ کوئین ایلزبتھ دوئم کا شجرہ نسب 43 ویں پشت میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے جا ملتا ہے۔ 2018 میں تاریخ دانوں نے اس دعوے کی ازسرنو تحقیقات کیں جن کی تائید سپین، مصراور مراکو کے بعض تاریخ دانوں نے بھی کی۔ جن کے مطابق سپین میں (King of Seville) المعتمد ابن عباد کی چوتھی بیوی زائدہ نے گیارھویں صدی میں ایک بیٹے سانچو کو جنم دیا جس کی اولاد میں سے کسی ایک نے ارل آف کیمبرج سے شادی کی جس کی اگلی نسل سے کوئین ایلزبتھ دوئم کا شجرہ نسب آ ملتا ہے جبکہ المعتمد ابن عباد وہ شخصیت تھے جن کا شجرہ نسب حضرت محمدﷺ کے پوتے حسن ابن علی سے جا ملتا ہے۔ بہت سے مورخین نے اس دعوے کو مسترد بھی کیا لیکن یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ ہم سب حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں
؎ ابن آدم ہوں اس لئے فیضان
مجھ کو پیغمبروں سے نسبت ہے
برطانیہ سمیت پوری مغربی دنیا میں ڈی این اے کے ذریعے سے ہر انسان کا شجرہ نسب جاننے یعنی فیملی ٹری کی تحقیق کے لئے بڑی تیزی سے کام ہو رہا ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں کہ جب ہم درجنوں پشتوں تک اپنے آباو اجداد کے بارے میں معلوم کر سکیں گے جس کے لئے ہمیں کسی مورخ کی قیاس آرائیوں کی بجائے جدید سائنسی تحقیق کی صداقت پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کی پلاٹینیم جوبلی پر برطانیہ میں آباد نسلی اقلیت کے لوگوں نے بھی مختلف نوعیت کی تقریبات کے ذریعے خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور کوئین ایلزبتھ دوئم کی پروقار شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا۔ یونائٹیڈ کنگڈم کی ترقی، خوشحالی اور جمہوری ارتقا کے لئے یہاں کے شاہی خاندان نے جو کچھ کیا اُسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ سمیت یورپ کے بہت سے ملکوں میں اب بادشاہتیں اور شاہی نظام محض علامتی طور پر موجود ہیں۔ آج کے دور کی بادشاہتوں میں اب مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ آج کے دور کے بادشاہ اور ملکہ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے شاہی خاندان نہ تو حکم عدولی پر کسی کا سر قلم کروا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی نافرمانی پر اُسے پابند سلاسل کر سکتے ہیں البتہ مشرق وسطیٰ یعنی مڈل ایسٹ کی مختلف ریاستوں اور ملکوں کے بادشاہ آج بھی عوام کے انسانی حقوق کو بالائے طاق رکھ کر من مانیاں کرنے میں پیش پیش ہیں اور پورے شاہی ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ اقتدار اور اختیار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ملکہ برطانیہ نے جب پرنس فلپ کے ہمراہ 1961 میں پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا تو اس وقت جنرل ایوب خان ملک کے صدر تھے، کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا ملکہ کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ کراچی میں ہونے والی اس یادگار تقریب میں کوئین ایلزبتھ نے پاکستان کی صنعتی ترقی پر خوشی کا اظہار کیا اور تعلیم کے شعبے میں پاکستانی قوم کو آگے بڑھتے دیکھ کر اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ ملکہ کو بحری جہاز پر سمندر کی سیر کروائی گئی، بعد ازاں انہوں نے مزار قائد پر پھول چڑھائے۔ اس دورے کے دوران کوئین ایلزبتھ متحدہ پاکستان کے مختلف شہروں پشاور، راولپنڈی، سوات، لاہور، ڈھاکہ اور چٹاگانگ بھی گئیں جہاں اُن کے اعزاز میں رنگا رنگ تقریبات ہوئیں۔ انہیں سوات کی آب و ہوا اور خوبصورت مناظر بہت پسند آئے جہاں انہوں نے دو دن قیام کیا۔ اس موقع پر انہیں پاکستان کے نئے دارالحکومت اسلام آباد کی تعمیر اور منصوبہ بندی سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ڈھاکہ میں انہیں دنیا کے سب سے بڑے پٹ سن کے کارخانے کا دورہ کروایا گیا اور بحری بیڑے پر دریائے براہم پترا کی سیر کروائی گئی۔ لاہور کے شالا مار باغ میں ملکہ کو جو استقبالیہ دیا گیا وہ لاہور کی تاریخ میں ایک یادگار اور شاندار تقریب شمار کی جاتی ہے، انہیں شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کا دورہ بھی کروایا گیا۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کررہا تھا، تعلیمی اور صنعتی شعبوں میں روشن مستقبل کے امکانات واضح ہو رہے تھے اور پوری قوم اپنے ملک کی تعمیر اور خوشحالی کے لئے خلوص نیت کے ساتھ سرگرمِ عمل تھی۔لیکن پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان مفاد پرستوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے اسے نہ اسلامی رہنے دیا اور ہی جمہوری، جس کا خمیازہ آج تک ملک کا محروم طبقہ بھگت رہا ہے۔
دوسری اور آخری بار جب ملکہ برطانیہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو اس مملکت خدادا کی آزادی کو نصف صدی ہو چکی تھی۔ 1997 میں پاکستان کی آزادی کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی، فاروق لغاری ملک کے صدر اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ پاکستان دولخت ہو چکا تھا، مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش کہلاتا تھا، مغربی پاکستان کا دارلحکومت بھی تبدیل ہو چکا تھا ملکہ کا استقبال صدر فاروق لغاری نے اسلام آباد میں کیا۔ ایوان صدر میں کوئین ایلزبتھ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا، اس سے پہلے انہیں فیصل مسجد کا دورہ کرایا گیا،انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔ ملکہ اور ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ نے راولپنڈی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا میچ بھی دیکھا۔ لاہور میں اُن کے اعزاز میں ایک شاندار عشائیہ شاہی قلعے میں دیا گیا جبکہ انہوں نے لاہور میں ایک گرجا گھر کا بھی دورہ کیا۔
ملکہ برطانیہ کے پہلے اور آخری دورہئ پاکستان کے درمیان 36 برس کا طویل عرصہ حائل رہا۔ اس عرصے میں پاکستان طرح طرح کے مسائل، مشکلات اور آزمائشوں کے مرحلے سے گزرا۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی بیس (20) برسوں میں ملک میں ترقی کی جو رفتار تھی وہ آنے والے برسو ں میں سست سے سست تر ہوتی چلی گئی۔ 1960 اور 1970 کا پاکستان خود مختار اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز قرضوں اور کرپشن کے منجھدھارمیں پھنستا چلا گیا اور موثر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہمارے وسائل کو نگلنے لگا اور اب یہ عالم ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے اور خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور آنے والے حالات ملک و قوم کے تشویش ناک مستقبل کی خبر د ے رہے ہیں۔ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے میں کسی ایک طبقے کا ہاتھ نہیں ہے، دودھ میں پانی ملانے والے گوالے سے لے کر ایوانِ اقتدار میں بیٹھے بدعنوان سیاستدانوں تک اور رشوت سے پروردہ سرکاری افسروں سے لے کر عدل و انصاف کا سودا کرنے والے منصفوں تک ہر ایک ملک کو اِن حالات تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے
اُن مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے
جن کو خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جائیں
٭٭٭ تیسرا نمبر ان لوگوں کا ہے جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لوگوں کی تعداد
1.2بلین ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ عیسائی بالترتیب امریکہ، برازیل اور روس میں آباد ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا پہلے نمبر پر ہے۔ اس دنیا میں مذاہب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اس روئے زمین پر بنی نوع انسان کی موجودگی۔ انسان روز اول سے ہی اپنے خدا اور خالق کی تلاش کی ضرورت محسوس کرتا رہا ہے۔ وہ اپنی روح کے چراغوں کو روشن کرنے کے لئے کسی نہ کسی مذہب کی چنگاری کا مرہون منت رہا ہے یعنی
اس اعتبار سے بے انتہا ضروری ہے
پکارنے کے لئے اک خدا ضروری ہے
ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ اور بیشتر مغربی ملکوں میں مذہب کو سیاست سمیت ہر معاملے پر بالادستی حاصل تھی لیکن پھر معاشرتی ترقی کے لئے مذہب اور سیاست کے درمیان فصیل حائل کر دی گئی کیونکہ سیاستدان اور حکمران مذہب کو اپنے لئے آخری مفید ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے اور مغربی دانشوروں کا خیال تھا کہ مذہب اس صبر کا نام ہے جو غریبوں کو مراعات یافتہ امیروں کے قتل سے روکتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اور خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں کا خیال ہے کہ اہل مغرب یعنی کافر لوگ بہت زیادہ روحانی اضطراب کا شکار ہیں اور اسلام سے خوفزد ہ ہیں۔ برطانیہ کی حد تک یہ بات کسی بھی طرح درست نہیں۔ انگریز لوگ اگر اسلام سے خوفزہ یا اسلاموفوبیا کا شکار ہوتے تو اپنے ملک میں کبھی دو ہزار سے زیادہ مساجد کی تعمیر کی اجازت نہ دیتے اور 2.8ملین سے زیادہ مسلمانوں کو برطانوی شہریت کا حق تفویض نہ کرتے۔ اس کے مقابلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے کئی دیگر خوشحال ملکوں میں کسی اور مسلمان ملک کے باشندے کو شہریت، مستقل رہائش اور خود مختاری کے ساتھ کاروبار کا حق نہیں دیا جاتا۔برطانیہ میں تقریباً 5ہزار انگریزہر سال اسلام قبول کرکے مسلمان بن جاتے ہیں اور ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی عالم دین یا مولوی کی تقریر سن کر نہیں بلکہ قرآن پاک کو اپنی یعنی انگریزی زبان میں پڑھنے اور سمجھنے کے بعد مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں جس کے بعد وہ بہت صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ ایسے غیر مسلم جو کسی مولوی یا مبلغ کے پیروکار بن کر مسلمان ہوتے ہیں وہ انہیں کسی نہ کسی مسلک اور انتہا پسندی کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ برطانیہ کے لئے ایسے انتہاپسند ہی خطرے اور تشویش کا باعث ہیں۔ وگرنہ برطانیہ میں ہر مذہب اور عقائد کے لوگوں کو مکمل آزادی میسر ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن تو ایک ایسا ملٹی کلچرل یعنی کثیر الثقافتی شہر ہے کہ جو کوئی بھی اس شہر کی سیروسیاحت کو آتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ لندن کی رونق اور امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے حکومت کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتی۔ 7جولائی 2005ء کو جب لندن انتہاپسندوں کے حملوں کی زد میں آیا تھا تو اس کے بعد لندن شہر اور اس کے مکینوں کے تحفظ کے لئے ایسا مربوط سیکورٹی سسٹم تشکیل دیا گیا کہ اب لندن میں رہنے والوں یا آنے جانے والوں کی نقل و حرکت لمحہ بہ لمحہ سی سی ٹی وی اور خفیہ کیمروں میں محفوظ ہونے لگی ہے۔ لندن محض ایک سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ دنیاکا ایک اہم تجارتی مرکز بھی ہے۔ لندن شہر کا امن و امان، رونقیں، گہما گہمی، تجارتی اور سیاحتی سرگرمیاں یونائیٹڈ کنگڈم کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ لندن سمیت برطانیہ بھر میں لوگوں کی اکثریت ایک دوسرے کے مذہب اور ثقافتی اقدار کا احترام کرتی ہے اور اس ملک میں پروان چڑھنے والے بچوں کو سکول میں ہی اس احترام اور انٹرفیتھ کی تعلیم اور تربیت بھی دی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص یا گروہ اپنے کسی نفسیاتی طرز عمل کی وجہ سے اسلام سے خوفزدہ یا اسلاموفوبیا کا شکار ہو جائے تو برطانوی قانون اسے ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے اس تعصب کا پرچار کرے یا اس کی وجہ سے کسی کو اپنی نفرت کا نشانہ بنائے۔ متعصب لوگ ہر مذہب اور زندگی کے ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں اور یہی تعصب انہیں انتہاپسندی کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے انتہا پسند ہر معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ جب پاکستان میں انتہا پسند، مساجد، امام بارگاہوں، سکولوں یا گرجا گھروں میں خودکش حملے کرواکے اس کی ذمہ داری بڑے فخر سے قبول کرتے ہیں تو ایسے سانحات کی خبریں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کا حصہ بنتی ہیں اور اس سے عام لوگوں کے ذہن میں اسلام کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ جس مذہب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ امن اور سلامتی کا پیامبر ہے تو اس کے پیروکار اتنے متشدد اور انتہا پسند کیوں ہیں۔ لندن میں 7جولائی 2005ء کے خودکش حملوں یا برطانیہ کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں یاوین اور ٹرک کے ذریعے راہگیروں کو کچلنے کے واقعات میں جو مسلمان ملوث تھے ان کی برین واشنگ بھی مختلف انتہاپسند مبلغین نے کی تھی جن کی وجہ سے واقعی بہت سے غیر مسلم اسلاموفوبیا کا شکار ہوئے لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور مانچسٹر سے برطانوی پارلیمنٹ کے مسلمان رکن افضل خان اس بارے میں ایوان کے اندر کئی بار انتہائی موثر طریقے سے اظہار خیال کر چکے ہیں اور پارلیمنٹ کو اسلاموفوبیا کے بارے میں مسلمان کمیونٹی کے تحفظات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ افضل خان برطانیہ سے یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور مانچسٹر سٹی کونسل کے لارڈ میئر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ میں برٹش مسلم کمیونٹی کی ایک موثر آواز سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیدائشی مسلمانوں کے مقابلے میں جو انگریز یا گورے لوگ قرآن پاک کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کے بعد اسلام قبول کرتے ہیں وہ زیادہ راسخ العقیدہ اور صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے پیروکار ثابت ہوتے ہیں۔ وہ کسی عالم دین یا مسلک کی پیروی نہیں کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور یورپ میں اسلام کے بارے میں جاننے اور معلومات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے وہ کروڑوں لوگ جو لادین ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ اسلام کی طرف متوجہ ہونے لگے ہیں۔ اسی لئے پیش گوئی کی جاتی ہے کہ 2060ء تک دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی اسلام کی پیروکار ہو گی کیونکہ عالمی سطح پر صرف اسلام اور عیسائیت ہی دو ایسے مذاہب ہیں جن کے ماننے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ پیدائشی مسلمان جو لندن میں رہتے ہوں یا کسی اور غیر مسلم معاشرے میں آباد ہوں انہیں چاہئے کہ وہ ایسا طرز زندگی اختیار کریں اور عملی طور پر ایسے شاندار انسان بن کر دکھائیں کہ غیر مسلم ہمارا کردار دیکھ کر ہمارے مذہب کی طرف راغب ہوں۔ اللہ کے رسولؐ نے بھی اپنے کردار کے ذریعے سے ہی غیر مسلموں کو اسلام کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ہمیں بھی آپؐ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے۔ اللہ رب العزت ہم سب مسلمان تارکین وطن کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ نوٹوں اور سکوں پر ملکہ برطانیہ یعنی کوئین ایلزبتھ کی تصویر ہوتی ہے۔ برطانوی شاہی خاندان کی تاریخ انتہائی دلچسپ اور عجیب واقعات و حادثات سے بھری ہوئی ہے۔ کسی کو پاگل پن اور دیوانگی کے مسائل کی وجہ سے بادشاہت چھوڑنی پڑی تو کسی نے اپنی محبت کی وجہ سے شاہی تاج کو ٹھکرا دیا، کوئی برطانوی بادشاہ اولادِ نرینہ سے محروم رہا تو کسی کو جائز اولاد نہ ہونے کے سبب شاہی اعزاز نصیب نہ ہوسکا۔ برطانیہ کے شاہی خاندان میں سب سے زیادہ عرصے تک ملکہ کے منصب پر فائز رہنے کا اعزاز کوئین ایلزبتھ کے پاس ہے۔ وہ 6/فروری1952ء کو ملکہ بنی تھیں یعنی ان کی تاج پوشی کو ستر برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ملکہ برطانیہ کے تاج، جواہرات اور زیورات ٹاور آف لندن کے عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھے جاتے ہیں اور ان کی مالیت کا اندازہ اربوں پاؤنڈز میں لگایا جاتا ہے۔ جبکہ برطانوی شاہی خاندان کے محلات اور رہائش گاہوں کی مالیت بھی14 بلین ڈالرز سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ملکہ برطانیہ اس وقت دنیا کی واحد شخصیت ہیں جنہیں کسی بھی ملک میں جانے کے لیے کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔ برطانوی شاہی خاندان کے عروج کازمانہ وہ تھا جب الیگزینڈریا وکٹوریہ برطانیہ کی ملکہ بنیں وہ20 جون 1937ء کو 18برس کی عمر میں اس منصب پر فائز ہوئیں اور ان کی تاجپوشی کی رسم کا اہتمام28 جون1938 کو کیا گیا۔ وہ کنگ ولیم ہیری کی وفات کے بعد ملکہ بنائی گئیں۔ اور وہ مرنے والے بادشاہ کے بھائی پرنس ایڈورڈ کی بیٹی تھیں۔ کنگ ولیم چہارم کی کوئی جائز اولاد نہیں تھی۔ اس لیے شاہی منصب کم سن وکٹوریہ کے حصے میں آیا اور وہ تقریباً63برس تک وسیع برطانوی سلطنت کی ملکہ رہیں اور ان کا عہد حکومت وکٹورین دور کہلاتا ہے۔ انہیں 1876ء میں برطانیہ کی طرف سے ایمپریس آف انڈیا کا ٹائٹل بھی دیا گیا۔21برس کی عمر میں ملکہ وکٹوریہ نے اپنے کزن پرنس البرٹ سے اپنی پسند کی شادی کی۔ وکٹورین عہد میں دنیا بڑی بڑی اقتصادی تبدیلیوں کے مرحلے سے گزری۔ اسی دور مین صنعتی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ برطانیہ سے پہلا ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ لندن اور برمنگھم کے درمیان دنیا کی پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی۔ پہلا الیکٹرانک ٹیلی گراف سسٹم اور ٹیلی فون متعارف ہوا اور برطانیہ مین بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کا قانون منظور کیا گیا۔
ملکہ وکٹوریہ کا قد 4فٹ11انچ تھا اور بچپن سے ہی ان کی تربیت ایک جرمن خاتون لیزن نے کی تھی اسی لیے ملکہ کو ابتدائی عمر سے ہی مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا اور وہ جرمن کے علاوہ فرانچ، اطالوی اور لاطینی زبانوں سے بھی آشنا تھیں اور اردو زبان سیکھنے میں بھی دلچسپی رکھتی تھیں۔ ملکہ وکٹوریہ شاہی خاندان کی وہ پہلی فرد تھیں جنہوں نے بکنگھم پیلس میں رہائش اختیار کی۔38برس کی عمر تک وہ 9 بچوں کی ماں بن چکی تھیں اور اُن پر کئی قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔ 1887ء میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں لندن سمیت پورے برطانیہ میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پرملکہ اور شاہی خاندان کے لیے ہندوستان سے دو خدمت گار انگلستان لائے گئے جن میں سے ایک کا نام عبدالکریم تھا۔ یہ24سالہ نوجوان آگرے کی جیل میں محرر تھااور اسے انگریزی زبان سے بھی خاطر خواہ واقفیت تھی اسی لیے عبدالکریم کو ویٹر کے طور پر شاہی خاندان کی خدمت پر مقرر کیا گیا۔ملکہ وکٹوریہ کو یہ نوجوان اچھا لگا اورپھر رفتہ رفتہ ملکہ عبدالکریم سے ہندوستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی لینے لگیں اور یوں وہ ہندوستانی زبان اردو سے بھی واقف ہوئیں اور اس زبان کو سیکھنے کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا۔ نوجوان نے ملکہ کو اردو زبان سکھانے کی ذمہ داری لے لی اور یوں عبدالکریم کو شاہی دربار میں منشی اور انڈین کلرک کا درجہ مل گیا۔ کوئین وکٹوریہ نے عبدالکریم کو خصوصی اہمیت دینے کے لیے کئی طرح کے احکامات بھی جاری کیے اور اپنے نوجوان منشی کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خصوصی ہدایات دیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منشی عبدالکریم پر ملکہ کا اعتبار بڑھتا گیا جو شاہی خاندان کے بعض افراد اور خصوصاً ولی عہد البرٹ ایڈورڈ(برٹی) کو بہت کھلنے لگا، اسی طرح ملکہ کے ذاتی معالج ڈاکٹر ریڈ کو بھی منشی عبدالکریم سے خدا واسطے کا بیر ہوگیا۔ منشی عبدالکریم کے والد آگرہ کے انگلش میڈیکل سکول کے سند یافتہ معالج تھے اور آگرہ کی جیل میں ایک ڈاکٹر کے طور پر متعین تھے۔ ڈاکٹر ریڈ نے ملکہ کے کان بھرنا شروع کر دئیے کہ منشی عبدالکریم کے والد آگرے میں کوئی تربیت یافتہ معالج نہیں بلکہ ایک دیسی نام نہاد ڈاکٹر ہیں۔ کوئین وکٹوریا نے اپنے منشی اور اس کے خاندان کے بارے میں کسی بھی قسم کی منفی باتوں کو درخورِِ اعتنا نہ سمجھا بلکہ عبدالکریم پر اور زیادہ اعتماد کرنے لگیں یہاں تک کہ ان کے روزمرہ کے اہم کاغذات اور دستاویزات منشی کی دسترس میں رہنے لگیں۔ عبدالکریم کی وجہ سے ملکہ وکٹوریہ کے دل میں ہندوستان جانے کی خواہش جاگی اور اس خواہش کا اظہار انہوں نے اپنی ایک بہو کو خط لکھ کر بھی کیا جو اس وقت اپنے شوہر کے ساتھ ہندوستان گئی ہوئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملکہ نے اپنے ذاتی سیکرٹری کو لکھے جانے والے ایک مکتوب میں منشی عبدالکریم کی خاموش طبیعت، نفاست، ذہانت، مستعدی، فرض شناسی اور خوش ذوقی کی بڑی تعریف کی۔ 1890ء کی ابتداء میں منشی عبدالکریم بیمار ہوئے تو ملکہ نے ان کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی بلکہ وہ اُن کی تیمارداری کے لیے ان کی رہائش گاہ پر جاتیں جو کہ شاہی محل کے اندر ہی واقع تھی۔ ایک بار منشی عبدالکریم 6ماہ کی تعطیلات پر ہندوستان گئے تو کوئین وکٹوریہ نے وائسرائے کو خصوصی احکامات جاری کیے کہ میرے منشی کو ان کے آبائی علاقے میں سرکاری زمین الاٹ کی جائے جو کہ کردی گئی۔ عبدالکریم ہندوستان سے واپس آئے تو اپنی بیگم اور ساس کے علاوہ اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی انگلستان لے آئے جن کی آمد پر ملکہ نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ ان کے لیے رہائش اور مراعات کا خصوصی اہتمام کیا جس سے محل میں کھلبلی مچ گئی اور منشی عبدالکریم کے حاسدوں کے سینے پر مونگ دلا جانے لگا۔ ملکہ نے12دسمبر1893 ء کو عبدل کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے خود کو منشی عبدالکریم کی ماں تحریر کیا اور اس خط کے آخر میں دستخط اردو میں کئے۔ ملکہ جب سکاٹ لینڈ یا فرانس کے دورے پر گئیں تو عبدالکریم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ 22 جنوری1901ء میں ملکہ کی وفات تک وہ اُن کے ساتھ رہے۔ منشی عبدالکریم نے اپنی سوانح عمری لکھنے کا بھی ارادہ کیا تھا لیکن پھر مصلحتاً اس ارادے کو ترک کردیا۔ اپنی زندگی میں ملکہ نے انہیں کئی سرکاری اعزازات اور انعامات سے بھی نوازا۔ کوئین وکٹوریہ کے اس دنیا چے چلے جانے کے بعد منشی عبدالکریم واپس آگرے چلے گئے اور باقی زندگی دل گرفتگی اورخاموشی سے گزاری اور اپریل1909ء میں بہت سے راز اپنے سینے میں لے کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ منشی عبدالکریم ملکہ وکٹوریہ کے عہد کا ایک اہم باب تھے۔ اُن کے بارے میں نامور براڈ کاسٹر اور ادیب رضا علی عابدی کی کتاب ملکہ وکٹوریا اور منشی عبدالکریم بہت دلچسپ دستاویزی مجموعہ ہے جبکہ سٹیفن فرئیرز کی فلم وکٹوریہ اینڈ عبدل بھی دیکھنے کے لائق ہے جسے انتہائی سلیقے اور شاندار طریقے سے2017ء میں فلمایا گیا اور اس فلم کو اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ زندگی کے ہر معاملے میں ترجیح دینے لگتا ہے۔ عاشق ہونے کا دعویٰ کرنا تو بڑا آسان ہے لیکن اس کے تقاضوں پر پورااترنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اگر کوئی عاشق ہونے کا دعویدار اپنے محبوب کی رضا اور منشا کو پیش نظر نہ رکھے تو اس کا عشق محض منافقت پر مبنی ہوگا۔ سچا عاشق وہ ہوتا ہے جو ہر وہ کام کرنے کی خلوص نیت سے پوری کوشش کرے جس کا حکم اس کے محبوب نے دیا ہواور ہر ایسے فعل سے باز آ جائے جس سے اس کے محبوب نے منع کیا ہو۔ ہم مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی مسلمان جو عاشق رسولؐ ہونے کے دعویدار ہیں ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ نے ہمیں جن کاموں کا حکم دیا ہے کیا ہم ان پر واقعی عمل پیرا ہیں اور جن باتوں سے منع کیا ہے کیا ہم ان سے باز آ چکے ہیں؟ اللہ کے رسولؐ نے اپنی امت کو علم کے حصول اور غور وفکر کی بار بار تلقین فرمائی اور اپنے آخری خطبے میں فرمایا کہ”خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ لوگو میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ قرآن اور سنت رسول اللہ ہے“۔ آج پاکستانی مسلمانوں میں کتنے عاشق رسولؐ ایسے ہیں جنہوں نے کتاب ہدایت یعنی قرآن پاک اپنی زبان (اردو، پنجابی، بلوچی، پشتو یا سرائیکی) میں مکمل پڑھا ہے اور اس مکمل ضابطہ حیات سے روشنی اور رہنمائی حاصل کی ہے یا سیرت النبیؐ کا مطالعہ کر کے راہ ہدایت اختیار کی ہے۔ اگر کوئی شخص عاشق رسولؐ ہونے کا دعویدار ہے اور اس نے اپنے رسولؐ پر اتاری جانے والی کتاب کو اپنی زبان میں سمجھ کر نہیں پڑھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عشق سچا نہیں بلکہ اس کو بہکایا گیا ہے اوراسلام کے کسی ٹھیکیدار مولوی نے اس کی برین واشنگ کی ہے اور اسے اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنانے سے محروم رکھا گیا ہے۔ سچے عاشق رسول ہونے کے دعویدار کسی ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔ سچے عاشق رسولؐ جھوٹ نہیں بولتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے، امانت میں خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے، صفائی کو نصف ایمان سمجھتے ہیں، ملاوٹ نہیں کرتے، کم نہیں تولتے، ہمیشہ حق اور انصاف کا ساتھ دیتے ہیں، غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ہوتے، غصے کو حرام سمجھتے ہیں، ہر ایک سے اخلاق سے پیش آتے ہیں، منافقت اور مکر و فریب کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بناتے ہیں، کسی کا حق نہیں مارتے ہیں، اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، کسی مفاد پرست مذہبی رہنما یا اسلام کے کسی ٹھیکیدار کی پیروی کی بجائے قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہیں، اگر ہم اسوہ حسنہ کے آئینے میں اپنے عاشق رسولؐ ہونے کا جائزہ لیں تو ہر حقیقت واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جائے گی۔ برطانیہ اور یورپ میں ہر سال سینکڑوں غیر مسلم قرآن پاک کا مطالعہ کرنے اور سیرت النبیؐ پڑھنے کے بعد مسلمان ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ کسی مولوی یا اسلام کے کسی ٹھیکیدار کی پیروی کی بجائے صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں اور بہت راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر شاندار، باکردار اور اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق مطمئن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں، ان نو مسلموں کو حیرت ہوتی ہے کہ جن پیدائشی مسلمانوں نے زندگی بھر قرآن پاک کو اپنی زبان میں ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا وہ کس طرح اسلام کی تعلیمات کو سمجھ یا ان پر عمل کر سکتے ہیں۔ ان نومسلموں کا خیال ہے کہ قرآن پاک کو صرف عربی زبان میں پڑھنے سے ہی نہیں بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی مسلمانوں کی زندگی میں برکت اور تبدیلی آ سکتی ہے۔ مسلمانوں کو لفظی دعووں سے نہیں بلکہ اپنے شاندار کردار سے ثابت کرنا چاہئے کہ اسلام ایک بہترین مذہب ہے۔ اسلام کے غالب آ جانے کے بعد کیا مدینے کی ریاست میں غیر مسلموں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا تھا جو آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں حقیقی اسلامی اقدار اور جمہوری روایات تیزی سے روبہ زوال ہیں۔ تعلیم و تربیت کے فقدان اور بحران کے باعث آبادی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور ایسا ہجوم تیزی سے اپنی تعداد بڑھا رہا ہے جس میں عدم برداشت، جہالت اور جنونیت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور یہ اسلام کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں کی سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہے جن میں سے کچھ کے اسلاف نے تو ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ بھی کہہ دیا تھا کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کا نام بدنام کرنے والے ان مذہبی ٹھیکیداروں نے جاہلوں کی برین واشنگ کی جو فیکٹریاں لگا رکھی ہیں اب ان کا سدباب ناگزیر ہو گیا ہے وگرنہ حالات تشویشناک بلکہ خطرناک مستقبل کی خبر دے رہے ہیں۔ اگر ہمارے ارباب اختیار کی آنکھیں اب بھی نہ کھلیں تو یہ ہجوم ہمارے ہر طرح کے ملکی اور قومی مفادات کو دیوار سے لگا دے گا۔اسلام کی ٹھیکیداری کا جو رجحان پاکستان میں پنپتا رہا ہے یہ رجحان دنیا کے کسی اور مسلمان ملک میں سرے سے نظر نہیں آتا اور نہ ہی عدم برداشت کا ایسا رویہ کسی اور مسلم ملک میں پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ برطانیہ اور یورپ کے ایشیائی آبادی والے علاقوں میں جگہ جگہ پر مسجدیں، گوردوارے اور مندر قائم ہیں، مقامی کونسلیں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتیں بلکہ 12ربیع الاول اور عاشورہ محرم کے روز جلوس اور ماتم کے اجتماعات کے موقع پر سیفٹی اور سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں اور مقامی آبادی کو ان اجتماعات کے بارے میں پیشگی آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس وقت دنیا کے 193ممالک میں سے 100ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان ایک اقلیت کی حیثیت سے آباد یا مقیم ہیں لیکن ان غیر مسلم ممالک کے کروڑوں اقلیتی مسلمانوں کو وہاں ہر طرح کی مذہبی آزادی اور سہولت حاصل ہونے کے ساتھے ساتھ مساوی حقوق بھی میسر ہیں اور ایسے مساوی حقوق اور مذہبی آزادی کا تصور پاکستان کی اقلیتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ اگر پاکستان کے مسلمان دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک امت مسلمہ سمجھتے ہیں اور جمعہ کے اجتماعات میں اس امت مسلمہ کی سلامتی اور اتحاد کی دعائیں مانگتے ہیں تو انہیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وطن عزیز میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناورا سلوک پر ان مسلمانوں کے دل بہت دکھتے ہیں جو خود غیر مسلم ممالک میں اقلیت کے طور پر ہر طرح کی آسانی اور سہولت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اقلیتی مسلمان اس حقیقت پر بھی حیران ہوتے رہتے ہیں کہ اسلام کے جن سنہری اصولوں پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہئے ان کو غیر مسلم ممالک کے لوگوں نے اپنا رکھا ہے۔ اسی لئے ترقی اور خوشحالی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ مثلاً پنجگانہ نماز ہمیں وقت کی پابندی کا احساس دلاتی اور سبق سکھاتی ہے لیکن ہماری روز مرہ کی زندگی کے معمولات اور تقریبات میں کبھی کوئی وقت کی پابندی کا خیال نہیں رکھتا بلکہ غیر مسلموں نے وقت کی پابندی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رکھا ہے۔ نماز ہمیں جس ڈسپلن اور نظم و ضبط کا درس دیتی ہے ہماری عام زندگی پر اس کا ذرا سا بھی اثر نہیں پڑتا جبکہ مغربی معاشروں نے ڈسپلن اور نظم و ضبط کو اپنی تربیت میں شامل کر رکھا ہے۔ فرمان رسولؐ کے حوالے سے یہ بات اکثر مسلمان اور خاص طور پر تجارت پیشہ مسلمان ضرور جانتے ہیں کہ ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔ لیکن کیا پاکستان میں کھانے پینے کی کوئی ایسی چیز میسر ہے جس میں ملاوٹ کا امکان نہ ہو جبکہ غیر مسلم معاشروں اور ملکوں میں دودھ سے لے کر شہد تک کسی بھی شے میں ملاوٹ کا تصور ہی ممکن نہیں۔ اگر ہم واقعی سچے عاشق رسولؐ ہیں تو قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور کسی مذہبی ٹھیکیدار اور مفاد پرست مولوی کی پیروی کی بجائے اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ وہ کام کریں جن کا حکم ہمارے رسولؐ نے دیا ہے اور وہ کام کرنے سے باز رہیں جن سے ہمارے نبی آخر الزماں ؐ نے منع فرمایا ہے۔ یہی عشق رسولؐ کا تقاضا ہے اور یہی عشق رسولؐ کا ثبوت ہے۔
٭٭٭٭٭٭
گوری سے شادی رچالی۔ مختار کے رشتے دار اس سے دور ہوتے چلے گئے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے رپورٹر ہر وقت اس کی ٹوہ میں رہنے لگے۔ اس نے ایک مسجد کی تعمیر کے لئے کچھ رقم دینے کا ارادہ کیا تو انتظامیہ نے جوئے کی اس رقم سے کسی قسم کی مدد لینے سے معذرت کرلی۔ دولت کے حصول کے بعد اس خوش قسمت شخص نے بڑی بھرپور زندگی گزاری اور اپنی ہر خواہش، ہر حسرت اور ہر تمنا کو پورا کیا۔ مختار محی الدین 2017ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس کی تمام دولت اور اثاثے یہیں رہ گئے۔
اسی طرح 2002ء میں نارفوک کے ایک 19 سالہ بن مین (کوڑا اٹھانے والے) نوجوان مائیکل کیرول نے تقریباً 10 ملین پاؤنڈ کی لاٹری جیتی۔ اس نوجوان کی بدقسمتی سے خوش قسمتی تک کے سفر کی کہانی بڑی دل چسپ اور افسوس ناک ہے۔ مائیکل جب 18 مہینے کا بچہ تھا تو اس کے والد کو ایک کلب میں جھگڑے کے دوران چاقو سے ایک جوڑے پر قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں 11 برس قید کی سزا ہوگئی۔ 13 برس کی عمر میں مائیکل کو ایک سٹور سے چوری کے جرم میں جیل کی ہوا کھانی پڑی جس کے بعد وہ اور کئی طرح کے جرائم میں ملوث رہا۔ لاٹری جیتنے کے بعد جب وہ ملین ائیر بنا تو اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا بلکہ کوٹس انٹرنیشنل بینک نے اس نو دولتیے نوجوان کے مجرمانہ پس منظر کے باعث اس کا اکاؤنٹ کھولنے سے معذرت کرلی تھی۔ مائیکل کیرول نے دولت مند ہونے کے بعد جی بھر کے عیاشی کی۔ اپنے دوستوں پر خوب دولت لٹائی۔ اپنی ماں، اپنی ایک بہن اور آنٹی کو ایک ایک ملین پونڈ کی خطیر رقم دے دی۔ دولت مند ہونے کے باوجود بھی وہ کئی طرح کے جرائم میں مبتلا رہا اور اسے کئی ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔ 2010ء میں یہ شخص پھر سے کنگلا ہوکر دوبارہ کوڑا اٹھانے کی ملازمت کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن اس نے 8 برس کے عرصے میں جس تیزی سے اپنی دولت لٹائی، اس پر مائیکل کو کوئی پچھتاوا نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف وہی دولت آپ کے کام کی ہوتی ہے جو اپنی حسرتیں اور خواہشیں پوری کرنے پر خرچ کرلی جائے۔ مائیکل کی زندگی کے یہ آٹھ سال بڑے دل چسپ اور سبق آموز تھے جن پر ایک کتاب Careful What You Wish For لکھی گئی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
برصغیر میں سیاست دانوں اور حکم رانوں کے علاوہ آج بھی کوئی عام آدمی راتوں رات کروڑ پتی بن جائے تو لوگ استفسار کرتے ہیں کہ کیا کوئی لاٹری نکل آئی ہے؟ برطانیہ میں واقعی یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں ہزاروں لوگ راتوں رات لاٹری جیت کر کروڑ پتی یا ملین ائیر بن چکے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں 1994ء میں نیشنل لاٹری کا آغاز کیا گیا۔ ابتدا میں ایک پونڈ کی یہ لاٹری صرف ہفتے کے روز نکلتی تھی۔ بعد ازاں یہ ہفتے کے چھ دن کھیلی جانے لگی اور اس کے سب سے بڑے انعام کو جیک پاٹ کہا جاتا ہے۔ ایک لاٹری کی مالیت ایک پونڈ سے ڈھائی پونڈ تک ہوتی ہے اور اسے 18 سال سے زیادہ عمر کا کوئی بھی شخص خرید کر کھیل سکتا ہے۔ گوروں کا کمال یہ ہے کہ وہ جوئے میں سے بھی انسانی فلاح و بہبود کا کوئی وسیلہ نکال لیتے ہیں۔ اس لاٹری سے ہونے والی آمدنی کا 25 فی صد حصہ گڈ کاز یعنی صحت، تعلیم، ماحولیات، آرٹس، ثقافت، کھیلوں اور دیگر فلاحی اور خیراتی منصوبوں میں پر خرچ کیا جاتا ہے جب کہ 53 فی صد رقم انعامات جیتنے والوں کو دے دی جاتی ہے۔ کیملاٹ گروپ اس نیشنل لاٹری کو ریگولیٹ اور گیمبلنگ کمیشن اس کی نگرانی کرتا ہے۔ آغاز سے اب تک نیشنل لاٹری سے حاصل ہونے والی رقم سے تقریباً 40 بلین پاؤنڈ کی رقم 26 ہزار سے زیادہ فلاحی منصوبوں پر خرچ ہوچکی ہے۔ کہتے ہیں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اسی طرح ہر ہفتے لاکھوں لوگ ایک پونڈ کی لاٹری کھیلتے ہیں اور یہ رقم کئی ملین تک جا پہنچتی ہے۔ لاٹری کھیلنے والے لوگوں میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے ہر ہفتے باقاعدگی سے لاٹری کھیلتے ہیں لیکن آج تک ان کا کوئی بڑا انعام نہیں نکلا جب کہ بہت سے خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو پہلی بار قسمت آزمانے کے لئے ایک پونڈ یا ڈھائی پونڈ کی لاٹری کھیلتے ہیں اور جیک پاٹ جیت کر کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ لاٹری میں جیتی جانے والی رقم پر برطانیہ میں کوئی ٹیکس بھی نہیں لگتا۔ بعض اوقات تو سیر سپاٹے کے لئے برطانیہ آنے والے سیاح بھی لاٹری میں بڑی رقم جیت لیتے ہیں۔
اس ملک میں 30 ہزار سے زیادہ ایسے ٹرمینل ہیں جہاں سے یہ لاٹری خریدی جاسکتی ہے۔ لاٹری میں بڑی رقم جیتنے والوں کی اکثریت خود کو منظرعام پر نہیں لاتی جب کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ملین ائیر بننے پر بڑی پارٹی کا اہتمام کرکے اس کا اعلان کرتے ہیں۔ برطانیہ کی نیشنل لاٹری کے ذریعے کروڑپتی بننے والے بہت سے مرد و خواتین ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی ملازمتیں ترک نہیں کیں۔ ایک ملین ائیر پلمبر آج بھی پلمبنگ کا کام کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک انگریز عورت 5 ملین پونڈ سے زیادہ کی لاٹری جیتنے کے بعد بھی ایک سٹور میں بدستور ملازمت کر رہی ہے۔ کئی خوش قسمت ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ بار نیشنل لاٹری میں بڑی رقم جیتی اور اب وہ مسلسل لاٹری کھیلنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ لاٹری کے ذریعے کروڑ پتی بننے والوں کی زندگی کی داستانیں بہت دل چسپ ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں کئی لوگوں نے 100 ملین پونڈ سے بھی زیادہ رقم کا جیک پاٹ جیتا جس میں سے بڑی رقم خیراتی اور فلاحی اداروں کو عطیے میں دے دی۔ اکثر لاٹری کھیلنے والے کروڑ پتی یا ارب پتی بننے کے خواب دیکھتے ہیں اور منصوبے بناتے رہتے ہیں کہ اگر وہ لاٹری کا جیک پاٹ جیت گئے تو اسے کیسے خرچ کریں گے لیکن جب ان میں سے کسی کا جیک پاٹ نکل آتا ہے تو اس کی ترجیحات اور زندگی کا ڈھنگ ہی بدل جاتا ہے۔ جو دولت محنت کئے اور کمائے بغیر مقدر کا ستارہ چمکنے سے راتوں رات مل جائے وہ انسان کی نفسیات کو بھی یکسر اور فوراً بدل کے رکھ دیتی ہے۔ یقین نہ آئے تو دنیابھر میں لاٹری کے ذریعے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والوں کی زندگی کی کہانیاں پڑھ کر دیکھئے کہ اچانک ملنے والی دولت کیا کرشمے دکھاتی ہے۔ لاٹری کے ذریعے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والوں کی اکثریت ہر طرح کی آسائشیں حاصل کرنے کے بعد یہی کہتی ہے کہ اصل دولت صحت ہے یعنی ’’ہیلتھ از ویلتھ‘‘ جب تک قدرت نے انسان کو صحت کی نعمت عطا کی ہوئی ہے، اس وقت تک دولت بھی انسان کے کام آتی ہے اس لئے جن لوگوں کو صحت کی دولت میسر ہے، انہیں اور بہت زیادہ دولت کی خواہش کی بجائے اپنے رب کا ہر وقت شکر ادا کرنا چاہئے کیوں کہ اس دنیا میں بے شمار انسان ایسے ہیں جن کے پاس بے حساب دولت ہے لیکن وہ صحت کی دولت سے محروم ہیں۔ وہ علا ج معالجے اور دواؤں کے سہارے زندہ ہیں۔
برطانیہ میں لوگ ہر سال 14.2 بلین پونڈ کی رقم لاٹری کھیلنے پر صرف کرتے ہیں۔ ویسے تو اس ملک میں چھوٹے بڑے 156 کیسینو یعنی جواخانے ہیں لیکن وہاں صرف صاحبانِ حیثیت ہی جاسکتے ہیں۔ برطانیہ میں سب سے مقبول بٹینگ شاپس ہیں (جہاں کھیلوں، گھوڑوں اور کتوں وغیرہ کی دوڑ پر رقم لگائی جاتی ہے) جن کی تعداد 7 ہزار سے زیادہ ہے۔ یو کے میں جوا ایک انڈسٹری اور بڑا کاروباری نیٹ ورک ہے جس کا سالانہ ٹرن اوور تقریباً 15 بلین پونڈ ہے۔ اس صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ جوا ایک ایسی لَت ہے جو ایک بار لگ جائے تو عمر بھر انسان کو اپنی گرفت میں لئے رکھتی ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن کے بہت سے مشہور جوئے خانے یعنی کیسینوز ایسے ہیں جہاں پاکستان اور بھارت کی مشہور شخصیات (فلم سٹارز، سیاست دان، کھلاڑی، بڑے افسر، جج اور تاجر) اکثر دکھائی دیتے ہیں مگر اب سوشل میڈیا کی وبا کے باعث ایسے ’’معتبر‘‘ لوگوں کی آمد و رفت کو ہر ممکن طریقے سے اس طرح خفیہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس طرح کنواری اپنا حمل چھپاتی ہے۔ ہیں۔ ایسے بازاروں میں مائیں اپنی بہو بیٹیوں کے ساتھ خریداری کے لئے اس لئے جاتی ہیں کہ ایک تو یہاں مردوں کی آمد و رفت کم ہوتی ہے، دوسرا ضرورت کی ہر چیز سہولت سے مل جاتی ہے۔ میں یونیورسٹی کے فائنل ائیر کا طالب علم تھا تو اپنے ایک دوست سے ملنے لاہور جایا کرتا تھا جو وہاں ایک انجنیئرنگ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم تھا۔ یونیورسٹی کی ایک بس ویک اینڈ پر طالب علموں کو انارکلی تک لاتی اور لے جاتی تھی۔ ان میں سے اکثر طلبا خریداری کے لئے جاتے تھے لیکن کچھ طلبا صرف بانو بازار کا چکر لگانے کے لئے بس میں سوار ہوتے اور واپسی پر چاند چہروں اور ستارہ آنکھوں کا ذکر کرتے اور آہیں بھرتے۔ یہ لڑکے بانو بازار کے داخلی راستے پر کھڑے ہوتے اور آتی جاتی لڑکی کو گھورتے اور موقع ملنے پر اس تنگ بازار میں گھس کر ان کا پیچھا کرتے اور غیر ارادی طور پر ان کو چھونے کی اداکاری کرتے۔ ان میں سے ایک لڑکا جو بانو بازار کے چکر لگانے کا عادی اور میرے دوست کا کلاس فیلو تھا، جب میری اس سے ذرا سی بے تکلفی ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ اُسے بانو بازار جاکر گھٹیا حرکتیں کرنے سے کیا ملتا ہے؟ وہ اس دن موڈ میں تھا، اس نے سگریٹ کا کش لگایا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا: ’’بات دراصل یہ ہے کہ میرا تعلق لیہ سے ہے۔ میں نے ایف ایس سی میں بہت اچھے نمبر لے کر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے۔ میری جوانی کا زیادہ حصہ سائنس پڑھنے بلکہ رٹے لگانے میں گزر گیا۔ میرا خیال تھا کہ لاہور آکر مجھے کوئی نفسانی آسودگی میسر آئے گی مگر یہاں آکر بھی وہی پڑھائی اور بس۔ میں نے آج تک کسی لڑکی کو چھو کر نہیں دیکھا بلکہ قریب سے بھی نہیں دیکھا۔ میں بانو بازار اس لئے جاتا ہوں کہ وہاں خوب صورت چہرے دیکھ کر یا کسی بہانے سے انہیں چھو کر میرے جنسی احساسات کی تسکین ہوجاتی ہے۔‘‘
اس بات کو 20 برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی میں جب اس نوجوان کی جنسی نا آسودگی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب پاکستانی معاشرے میں یہ معاملہ زیادہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں معصوم بچوں سے لے کر نوجوان لڑکے لڑکیاں، دفتروں میں ملازمت پیشہ خواتین، عاملوں اور پیروں سے تعویذ لینے والی عورتیں، ہسپتالوں میں کام کرنے والی نرسز، گھروں کی نوکرانیاں، ہوائی جہاز کی ائیرہوسٹس بلکہ کسی بھی شعبے میں کام کرنے والی دخترانِ ملّت ہمارے معاشرے کے جنسی درندوں سے محفوظ نہیں اور اس پر ظلم یہ کہ ان درندوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ہمارے ملک میں کوئی موثر قانون نہیں ہے اور اگر ہے تو اس پر عمل درآمد میں مدتیں لگ جاتی ہیں۔ معلوم نہیں پاکستان سمیت بیشتر مسلمان ممالک کے لوگوں میں دولت کے حصول کی خواہش اور جنسی تسکین کی ہوس اس قدر شدید کیوں ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہوس بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
آج سے 40 برس پہلے پاکستان میں ہزاروں سنیما گھر تھے۔ میلے ٹھیلوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ سرکس لگتے تھے۔ ہر شہر میں مختلف کھیلوں کے سالانہ مقابلے ہوتے تھے۔ موسیقی کی بڑی بڑی محفلیں ہوتی تھیں جن میں بڑے بڑے عوامی فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جشنِ بہاراں منایا جاتا تھا یعنی عوامی تفریح کے لئے طرح طرح کے اہتمام ہوتے تھے۔ جب سے عوامی تفریح کے یہ ذرائع ہماری معاشرتی زندگی سے ختم ہوئے یا کم ہونا شروع ہوئے، اس وقت سے ہمارے عوام رفتہ رفتہ نفسیاتی گھٹن کا شکار ہوگئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے وہ سب کچھ ایک موبائل فون میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے جس سے انسانی جذبات کی تسکین ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام پورنو گرافی کی ویب سائٹس اور لنکس کو فالو کرنے والوں کی فہرست میں ٹاپ کے چند ملکوں میں شامل ہیں جس کا نتیجہ جنسی جرائم کی شکل میں ہر روز ہمارے میڈیا کی ’’زینت‘‘ بنتا ہے۔
میں جب اس جنسی گھٹن کا موازنہ یورپ اور خاص طور پر برطانیہ سے کرتا ہوں تو کئی حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔ برطانیہ میں جو گورے یا انگریز بچے پیدا ہوتے ہیں، وہ بچپن ہی سے اپنی ماؤں، بہنوں اور رشتے دار خواتین کو سکرٹ یا منی سکرٹ اور کھلے گلے والے چست لباس میں دیکھتے ہیں۔ گھر میں اپنے والدین کو ایک دوسرے سے ملتے اور رخصت ہوتے وقت بوسہ لیتے ہوئے اور بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ گرمیوں میں ساحل سمندر پر والدین کے ساتھ چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں تو مردوں اور عورتوں نیم برہنہ دیکھتے ہیں۔ جب یہ بچے سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو ان کے لئے عورت کا جسم یا اس کا لباس انہیں جنسی ہوس کے جذبات ابھارنے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ویسے بھی یہاں لڑکے اور لڑکیوں کی اکثریت جوان ہونے تک اپنے پارٹنر کا انتخاب کرلیتی ہے اور سیکنڈری سکولوں میں طالب علموں کو سیکس ایجوکیشن (جنس کے بارے میں تعلیم) کے ذریعے سے ان کے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں اور احساسات سے بھی خاطر خواہ آگاہ کردیا جاتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں کالج اور یونیورسٹی تک نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کی جسمانی ساخت کے بارے میں تجسس رہتا ہے۔ لڑکوں کے لئے کسی لڑکی کا کھلے گلے والا یا چست لباس ان کے جنسی جذبات بھڑکانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اسی جنسی نا آسودگی نے ہمارے معاشرے کی لڑکیوں اور عورتوں کو بہت غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ پورنو گرافی کی ویب سائٹس سے لطف اندوز ہونے والے مرد اور لڑکے جب کسی باپردہ لڑکی یا عورت کو بھی کسی جگہ دیکھتے ہیں تو انہیں ایسے گھورتے ہیں جیسے اُن کی آنکھوں سے نکلنی والی جنسی شعاعیں صنف مخالف کے جسم سے آر پار ہو رہی ہوں یا پھر عورت کو دیکھتے ہی انہیں ناف کے نیچے شلوار میں خارش کرنے کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔ یہی جنسی نا آسودگی انہیں مجبور کرتی ہے کہ موقع ملنے پر وہ عورتوں پر آوازیں کسیں یا ان کو چھوئیں یا پھر اُن پر کسی اور طرح جنسی حملہ کردیں۔ رہی سہی کسر ہمارے بعض مولویوں نے پوری کردی ہے جو حوروں کے نقشے اس انداز سے کھینچتے ہیں کہ سننے والوں پر جنسی جذبات غالب آنے لگتے ہیں۔ جنسی نا آسودگی کی وجہ سے ہی آج پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی دیواریں مردانہ کمزوری کے علاج کے اشتہاروں سے ’’مزین‘‘ نظر آتی ہیں۔ یہ کس قدرتلخ حقیقت ہے کہ مسلمان معاشروں میں عورت کی عزت غیرمسلم معاشروں کے مقابلے میں زیادہ غیر محفوظ ہے۔
برطانیہ میں کسی لڑکی یاعورت کو اس کی مرضی کے بغیر چھونا یا اس کا پیچھا کرنا سنگین جرم ہے۔ برطانیہ میں اگر کوئی مرد کسی عورت کو مسلسل گھورنے لگے تو اُسے نفسیاتی مریض سمجھا جاتا ہے۔ دفتر یا کام کی جگہوں پر اگر کوئی مرد ایک دوسرے کے بارے میں کوئی جنسی تبصرہ کریں یا لطیفہ سنائیں یا کوئی ایسی تصویر دکھائیں یا ای میل ایک دوسرے کو بھیجیں جو جنسی معاملات سے متعلق ہو تو اسے جنسی ہراسگی یعنی سیکسوئیل ہراسمنٹ میں شمار کیا جاتا ہے جس پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں اگر میاں اپنی بیوی کی مرضی کے بغیر اور بیوی اپنے شوہر کی رضامندی کے بغیر اُسے مباشرت یا حق زوجیت ادا کرنے پر مجبور کرے تو اسے جنسی حملے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی یا کسی بالغ کی عصمت دری پر سنگین سزائیں متعین ہیں اور قانون میں ایسے مجرموں کو زندگی بھر کے لئے (Sex Offenders Register) میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے بعد انہیں کسی بھی ایسی جگہ کوئی کام یا ملازمت نہیں مل سکتی جہاں بچوں کی آمد و رفت ہو اور ایسے مجرموں کی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے۔ برطانیہ میں جنسی زیادتی کے پرانے واقعات پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان معاملات میں برطانوی عدالتیں اور قانون متاثرین کو فوری انصاف فراہم کرتے ہیں۔ عورت کے حقوق اور مرضی کو جو تحفظ اس غیرمسلم معاشرے میں حاصل ہے، مسلمان معاشروں میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں انصاف کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہے اور یہاں کی عدالتیں کسی گورے کالے، مرد عورت، امیر غریب، با اختیار یا بے اختیار کی تمیز کئے بغیر انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔لوگوں کی آمدورفت بہت کم تھی۔ پھولوں کے پودوں کے علاوہ یہاں سیب، بگوگوشے، آلوبخارے، خوبانی، چیری، انجیر اور انگور کے پودوں کی درجنوں اقسام فروخت کے لیے موجود تھیں۔ میں اس نرسری میں گھومتا پھرتا اُس حصے میں پہنچ گیا جہاں چھوٹے چھوٹے گملوں میں مختلف اقسام کے ہزاروں پودے مٹی سے سرنکال کر ایک کونپل کی شکل اختیار کرچکے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ یہ کونپل نما پودے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔ ان ننھے پودوں کی خصوصی دیکھ بھال کے لیے درجہئ حرارت اور روشنی کے علاوہ پانی اور خوراک کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ اس حصے کی نگہداشت کے لیے کئی لوگ یہاں کام کررہے تھے۔ ایک حصے میں ہزاروں گملوں میں پھل دار پودوں کی قلمیں بھی لگی ہوئی تھیں جن پر جگہ جگہ جگہ کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ان نازک پودوں کے اوپر شفاف پلاسٹک کی چھت تاحد نظر پھیلی ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے گملوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے کسی سکول کی اسمبلی میں ننھے بچے خاموش کھڑے ہیں۔ مجھے حیرت زدہ دیکھ کر یہاں کام کرنے والی ایک گوری خاتون نے آ کر مجھ سے پوچھا کہ”کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتی ہوں؟“میں نے چونک کر جواب دیا ”نہیں شکریہ میں تو گملوں میں ننھے ننھے پودوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر حیران ہورہا ہوں“۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی کہ ”ہماری اصل نرسری یہی ہے ہم یہاں پودوں کے جڑ پکڑنے تک اُن کی خصوصی دیکھ بھال کرتے ہیں جب یہ ایک شاخ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ہم انہیں باہر کھلی فضا میں سہارا دے کر سیدھا کھڑا کردیتے ہیں جہاں یہ موسم کی شدت کو برداشت کرنے کے عادی ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں جو بھی لے جا کر گملے سے نکالنے کے بعد زمین میں لگائے گا وہاں یہ چند سال میں تناور درخت بن کر برس ہا برس پھل دیں گے۔ ہمارا یہ سیکشن سکولوں کی نرسری جیسا ہے جہاں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کا خاص خیال رکھا اور اہتمام کیا جاتا ہے“ یہ کہہ کر وہ مسکراتے ہوئے چلتی بنی اور میں سوچنے لگا کہ یہ انگریز بھی کیا ”عجیب“ قوم ہے بچوں اور پودوں کی نرسری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اور اس ابتدائی مرحلے پر ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت کو ان کی آئندہ زندگی کی بنیاد سمجھتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ اپنے ملک میں ایک سے ایک غیر معیاری یونیورسٹی بنا کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا جال (نیٹ ورک) بچھ گیا ہے حالانہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک میں سب سے بڑی ضرورت بہترین اور معیاری پرائمری ایجوکیشن ہے۔ جب تک ہم اپنے ملک کے سو فیصد بچوں کو تعلیم و تربیت یافتہ نہیں بنائیں گے اُن کی ایسے نگہداشت اور دیکھ بھال نہیں کریں گے جیسے ننھے پودوں کی نرسری میں کی جاتی ہے تو اس وقت تک ہم مہذب قوم اور باشعور معاشرے سے محروم رہیں گے۔ ڈگری یافتہ، نا اہل لوگوں کی کھیپ تیار کرنے اور یونیورسٹی پر یونیورسٹی کھولنے کی بجائے وہ کام کرنا سب سے زیادہ ضروری اور ناگزیر ہے جس کے کرنے سے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ اور خوشحال ہوئے یعنی اپنے ملک میں پرائمری ایجوکیشن کو اپنی پہلی ترجیح بنائیے جب تک آپ نرسری میں پنیری لگا کر ان کی دیکھ بھال پر توجہ نہیں دیں گے آپ کو ایسے درخت اور پودے میسر نہیں آئیں گے جو پسماندگی میں جھلسنے والی قوم کو سایہ اور پھل فراہم کر سکیں۔ اگر آپ ملک میں واقعی کوئی مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پرائمری ایجوکیشن کو خصوصی توجہ دیں بلکہ اسے اپنی پہلی ترجیح میں شامل رکھیں۔ پاکستان کے سو فیصد بچوں کے لیے ایک جیسی معیاری تعلیم و تربیت کی پالیسی بنائیں اور پھر دیکھیں کہ پندرہ سے بیس برس بعد اس ملک میں خوشگوار تبدیلی کے آثار خودبخود نمایاں ہونا شروع ہو جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ اس وقت اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں لیکن آپ کے لگائے ہوئے پودوں اور درختوں سے ملک و قوم کو سایہ اور پھل میسر آنا شروع ہو جائے گا۔ چند برس پہلے پاکستان کے ایک سیاست دان لندن آئے جو ایک زمانے میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے تھے۔ میں نے ایک نجی محفل میں اُن سے استفسار کیا کہ ”ہماری حکومتیں پرائمری ایجوکیشن پر کیوں توجہ نہیں دیتیں اور اس کو اپنی پہلی ترجیح کیوں نہیں بناتیں؟“ انہوں نے جواب میں بڑی دلچسپ بات کہی۔ وہ کہنے لگے کہ ”پرائمری ایجوکیشن اور قوم کو تعلیم و تربیت یافتہ بنانے کا معاملہ ایک طرح سے بیس سالہ منصوبہ ہے اور یہ وہ کام ہے جس پر تمام وسائل صرف کرنے سے اس کا فوری نتیجہ نہیں نکلتا اور ہماری حکومتوں کو صرف ایسے منصوبے بنانے کا خبط ہوتا ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹ کر وہ اگلے الیکشن میں ووٹ مانگ سکیں۔اور یہ بتاسکیں کہ ہم نے موٹر وے بنادی، یونیورسٹیاں کھول دیں۔ ہسپتال تعمیر کردئیے۔ ڈیم کے تعمیراتی منصوبے کا افتتاح کر دیا۔ عوام اور ووٹر ایسے کاموں کے بہکاوے میں آکر سیاست دان کو ووٹ دیتے ہیں اور اگر کوئی حکومت ان کاموں کی بجائے اپنے وسائل پرائمری ایجوکیشن اور قوم کو سو فیصد خواندہ بنانے پر خرچ کرے تو اس کا فوری نتیجہ عوام کے سامنے نہیں آئے گا اور کسی بھی حکومتی پارٹی کے لیے آئندہ انتخابات میں اپنے کارنامے گنوانے کے لیے محض پرائمری ایجوکیشن کو اپنی پہلی ترجیح بنانے کا کارنامہ کافی نہیں ہوگا اور ویسے بھی ہمارے سیاستدان اور حکمرانوں کو پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ قوم ”وارا“ نہیں کھاتی اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ طبقاتی نظام قائم رہے، مدرسوں اور سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے کبھی کسی ایچی سن اور اعلیٰ پبلک سکول میں تعلیم یافتہ بچوں کے مقابلے پر نہ آ سکیں۔ اسی درجہ بندی نے ہماری قوم کی اکثریت کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ روک رکھا ہے۔“ میں اپنے اس معزز سیاستدان کا یہ اعتراف سن کر حیران رہ گیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے سیاست دان اور حکمران جو پوری دنیا میں گھومتے پھرتے اور سرکاری دورے کرتے ہیں اور مختلف ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کا جائزہ بھی لیتے ہیں انہیں اس حقیقت کا خوب اچھی طرح ادراک ہے کہ ہماری قوم کی پسماندگی اور بدحالی کی وجہ کیا ہے لیکن وہ اس کے باوجود اپنی قوم کی پرائمری تعلیم وتربیت کو سو فیصد یقینی بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اور مؤثر منصوبہ بندی نہیں کرتے کیونکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ اگر 22کروڑ لوگ آئندہ پندرہ بیس برس تک تعلیم و تربیت یافتہ ہوگئے تو ان نام نہادعوامی نمائندوں، سیاست دانوں اور حکمرانوں کی اپنی اوران کی آئندہ نسلوں کی بقا اور بالا دستی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر پاکستان کے 22کروڑ عوام آنے والی دودہائیوں کے بعد تعلیم و تربیت یافتہ ہو گئے تو نہ صرف ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ طبقاتی تقسیم اور پسماندگی ختم ہو گی،تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا سدباب ہوجائے گا، نا انصافی اور اقربا پروری اپنے انجام کو پہنچے گی، ملاوٹ اور دونمبری کرنے والے اپنے کیفرِ کردار تک پہنچیں گے، عوام کو سبز باغ دکھانے والے سیاست دان اور حکمران کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی، معاشرتی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ ملے گا، مذہبی ٹھیکے داروں کے لیے کسی کو ورغلانا آسان نہیں رہے گا۔ سستے اور فوری انصاف کی راہ ہموار ہوگی،ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں آگاہی سے ملک صاف ستھرا ہونا شروع ہوگا، رنگ و نسل اور علاقائیت سے بالاتر ہو کر سب کو ترقی کے یکساں مواقع میسر آئیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ جو لوگ ملک میں پرائمری تعلیم و تربیت کی منصوبہ بندی کر کے اس پر سو فیصد عمل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، وہ کبھی نہیں چاہتے کہ ”سٹیٹس کو“ کا طلسم ٹوٹے، قوم تعلیم یافتہ ہو، تربیت یافتہ ہو لیکن کب تک؟ پسماندہ عوام کی تیسری بلکہ چوتھی نسل چلتے چلتے تھک گئی ہے لیکن دور دور تک منزل کا کہیں نشان نہیں ہے۔ ویسے تو کہتے ہیں کہ امید پہ دُنیا قائم ہے لیکن اگر ہم لاہور سے کراچی جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہو کر اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ ہم پشاور پہنچ جائیں گے تو پھر ایسے مسافروں کا خدا حافظ جو ریل گاڑی کی سمت درست کرنے کی بجائے ڈرائیور بدلنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں،اپنے خلاف دنیا بھر کی سازشیں اور اسلام دشمن کافروں کی چالبازیاں تو فوراً نظر آجاتی ہیں لیکن ہمارے اپنے مسلمان اربابِ اختیار جو مذہب، سیاست اور خدمت کا لبادہ اوڑھ کر ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ ایک نابینا شخص رات کے وقت لالٹین لے کر کسی گلی سے گزر رہا تھا، ایک راہگیر نے پوچھا تم تو اندھے ہو یہ لالٹین کس لیے ساتھ لیے پھر رہے ہو۔ نابینا شخص مسکراتے ہوئے بولا، یہ اُن کے لیے ہے جن کو دکھائی دیتا ہے۔کشش تھی کہ جو اسے دیکھتا بے ساختہ اُسے گود میں اٹھانے اور پیار کرنے پر مائل ہوجاتا۔ اپنے ماں باپ کے لئے یہ معصوم بچی ناقابل بیان خوشی اور مسرت کا سندیسہ لے کر آئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کی فطری ذہانت اور انفرادی خوبیاں نمایاں ہونے لگیں۔ ابھی وہ نو یا دس برس کی تھی کہ اس کے دادا نے اس کے والد کے لئے دعا کی کہ ’’خدا تمہارے گھرانے کو ایسی خوشیوں سے نوازے جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہوں اور نہ کانوں نے سنی ہوں۔‘‘ اس دعا کو رب العالمین نے شرفِ قبولیت بخشا اور یہ لڑکی آج دنیا بھر میں ملالہ یوسف زئی کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔
غیرمعمولی ذہانت اور شعور کی مالک ملالہ نے کن حالات میں بی بی سی کی اردو سروس کے لئے مراسلات اور بلاگز لکھنے کا آغاز کیا اور اکتوبر 2012ء میں طالبان نے جس طرح اس کی جان لینے کی کوشش کی اس کی تفصیلات سےپاکستانیوں کی اکثریت آگاہ ہے۔ 17 برس کی عمر میں اس بہادر لڑکی کو نوبل پرائز ملنا ہر باشعور پاکستانی کے لئے مسرت اور فخر کا باعث ہے۔ ملالہ پاکستان سمیت دنیابھر کے پس ماندہ ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی عَلم بردار اور جہالت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ پاکستان کو بداَمنی کی آماج گاہ بنانے کے خواہش مند انتہاپسندوں کی آنکھ میں ملالہ یوسف زئی کی روشن خیالی کانٹے کی طرح چبھتی رہتی ہے اور وہ اس نڈر لڑکی کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
خالقِ کائنات نے انسانوں کو عزت اور زندگی دینے کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے وگرنہ علم دشمن انتہاپسند ہر روشن خیال لڑکی کو موت کی نیند سلاچکے ہوتے۔ انتہاپسندی ہمیشہ نفرتوں کوجنم دیتی ہے۔ جو معاشرے انتہاپسندی کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، وہاں لوگوں کی قوتِ برداشت یعنی ٹالیرنس لیول میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان فکری اور عملی طور پر انتہاپسندی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سنا، اس سے اختلاف اور اُسے برداشت بھی کیا جاتا تھا لیکن اب ایسی ہوا چلی ہے کہ اختلاف رائے کرنے یا مختلف انداز سے سوچنے والوں کو واجب القتل سمجھا جانے لگا ہے۔ انتہاپسندی کی آگ کو بھڑکانے اور پھر اسے ہوا دینے والوں سے ہماری قوم پوری طرح واقف ہے لیکن اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس انتہاپسندی کا خاتمہ کیسے کیا جائے کیوں کہ پاکستان کی ترقی، خوش حالی، امن و امان اور اقتصادیات کا دارومدار اسی اتنہاپسندی کے سدباب پر ہے۔ وطنِ عزیز سے انتہاپسندی کو صرف علم کے فروغ سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور موجودہ حالات میں لڑکیوں کی تعلیم اشد ضروری ہے کیوں کہ پڑھی لکھی مائیں ہی پڑھی لکھی قوم کی ضامن ہوتی ہیں۔ دنیا کی کل 7.9 بلین آبادی میں 49.6 فی صد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں بھی خواتین کی آبادی کا تناسب اتنا ہی ہے لیکن ہمارے ملک میں تقریباً 60 فی صد سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں اَن پڑھ یا ناخواندہ ہیں۔ ہم اگر آج کے ترقی یافتہ اور خوش حال ملکوں کے ماضی اور حال کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں تو یہ حقیقت بہت واضح ہوکر سامنے آئے گی کہ جن قوموں نے اپنی خواتین کو سو فی صد تعلیم یافتہ بنایا اور کسی تعصب کے بغیر ہر شعبے میں انہیں ترقی کے مواقع فراہم کئے، وہ قومیں آج ہر اعتبار سے خوش حال ہیں۔ برطانیہ میں 1918ء سے پہلے تک عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا اور اس وقت خواتین میں خواندگی کی شرح بھی صرف 30 سے 40 فی صد کے درمیان تھی۔ انگلینڈ میں 1928ء میں 21 سال سے بڑی عمر کی خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا جب کہ اس سے پہلے خواتین ووٹرز کی کم سے کم عمر 30 برس مقرر تھی۔ معلوم نہیں پاکستان کا مذہبی طبقہ خواتین کی تعلیم کے اس قدر خلاف کیوں ہے؟ حالاں کہ علم صرف مَردوں کی میراث نہیں ہے۔ ملالہ یوسف زئی پاکستان اور دیگر غریب ملکوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے جس مشن اور مقصد کے لئے سرگرم عمل ہے، اسے پوری دنیا میں سراہا اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ آفرین ہے اس دلیر لڑکی پر جس نے زندگی اور موت کی کش مکش کے سانحے سے گزرنے کے باوجود علم کی روشنی پھیلانے کے عزم کو زائل نہیں ہونے دیا اور ثابت قدم رہی بلکہ ستائش کے اصل حق دار توملالہ کے والدین ہیں جنہوں نے مینگورہ میں رہ کر بھی اپنی بیٹی کی تربیت اس شان دار طریقے سے کی کہ وہ پورے اعتماد کے ساتھ زندگی اور ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی کی آٹو بائیوگرافی Let Her Fly کے نام سے شائع ہوئی تھی جسے انہوں نے لوئس کارپینٹر کے اشتراک سے ترتیب دیا تھا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ معروف ادیب اور صحافی فضل ربی راہی نے کیا ہے۔ ترجمہ انتہائی عمدہ اور سلیس ہے اور کتاب کے اصل متن کے مطابق ہے۔ اردو میں اس کا نام ’’اسے پرواز کرنے دو‘‘ رکھا گیا ہے۔ مصنف نے کتاب کا انتساب اپنے والد کے نام کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب میرے عظیم والد روح الامین کی نذر، جنہوں نے میرے لئے ہمیشہ ایک ہی دعا مانگی: ’’ضیاء الدین! خدا تمہیں علم و حکمت کے آسمان پر درخشندہ سورج کردے۔ اگرچہ میں ایک دیا بھی نہ بن سکا مگر مجھے روشنیوں سے پیار ہوگیا۔‘‘ اس کتاب کا پیش لفظ ملالہ نے لکھا ہے جس میں وہ کہتی ہے: ’’میرے والد نے مجھے محبت کا درس محض الفاظ کے ذریعے نہیں دیا بلکہ اپنے عمل سے محبت اور مہربانی کرکے دکھائی۔ میں نے اپنے والد کو کسی کے ساتھ بد تہذیبی اور بے انصافی پر مبنی سلوک کرتے نہیں دیکھا۔ میرے لئے ان کی محبت ہر برائی اور شر سے تحفظ اور ڈھال کا کام دیتی ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جومجھے ایک عورت کی حیثیت سے اپنے مستقبل کے لئے پُرمسرت تحفظ فراہم نہیں کرتا، میں پاکستان میں اپنی کلاس کی دوسری لڑکیوں، پڑوس کی سہیلیوں اور سوات کی دیگر لڑکیوں سے مختلف نہیں تھی لیکن مجھے اپنے والد کی حوصلہ افزائی میں پرورش پانے کا اَن مول موقع ملا۔ ایسا نہیں تھا کہ میرے والد مجھے روزانہ لمبے لمبے لیکچر یا مشورے دیتے بلکہ ان کے اخلاق، سماجی تبدیلی کے لئے سچی لگن، دیانت داری، کشادہ دلی، بصیرت اور طرزِ عمل نے مجھ پرگہرا اثر ڈالا۔ میرے والد ہمیشہ مجھ پر فخر کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ پر خود سے زیادہ اعتماد کیا جس سے مجھے حوصلہ ملا کہ میں کچھ کرسکتی ہوں بلکہ سب کچھ کرسکتی ہوں۔ بڑی ہوکر مجھے معلوم ہوا کہ میرے والدین کتنے مختلف ہیں۔ جب میرے آس پاس کی لڑکیوں کو یا تو سکول جانے سے روک دیا جاتا تھا یا انہیں ایسے مقامات پرجانے کی اجازت نہیں تھی جہاں ہجوم میں مرد اور لڑکے بھی شامل ہوں۔ ہم اس قسم کے معاشرے میں بہت ساری خواتین اور لڑکیوں کو ضائع کردیتے ہیں جہاں مرد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ خواتین کو کس طرح رہنا چاہئے اور انہیں کیا کرنا چاہئے۔‘‘
’’اسے پروازکرنے دو‘‘ ایک معلوماتی اور دل چسپ کتاب ہے جو ملالہ کے والد کی خودنوشت اور آپ بیتی ہے مگر اس میں ملالہ کے گھر کے ماحوال اور ابتدائی عمر سے لے کر اس کی زندگی کے مختلف مراحل کے بارے میں شان دار معلومات رقم کی گئی ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ والد کی روشن خیالی اور کشادہ دلی سے کی گئی تربیت کی وجہ سے بیٹیوں کو وہ خوش گوار اعتماد میسر آجاتا ہے جو زندگی بھر اُن کے کام آتا ہے۔ اللہ کرے کہ ملالہ کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو کہ ہمارے ملک کی تمام لڑکیوں کو تعلیم اور علم کی وہ روشنی فراہم ہوجائے جس کے سبب وہ اعتماد کےساتھ اپنی زندگی کے سفر کوجاری رکھ سکیں۔ ملالہ یوسف زئی پس ماندہ ملکوں سے جہالت کے خاتمے کے لئے اپنے حصے کے چراغ روشن کر رہی ہے۔ ہمیں اس کام میں اس کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔