لگتا ہے دل پھٹ جائے گا ۔۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سکول سے گھر پہنچا تو دروازہ بند تھا، کنڈی باہر سے لگی ہوئی تھی۔ امی جان کہیں نہیں تھیں۔ چار ساڑھے چار سال کی عمر میں گلے میں بستہ لٹکائے میں گلی میں کھڑا تھا۔ مئی کی دوپہر کی دھوپ میرے ماتھے کو بھگو رہی تھی۔ میں نے دائیں بائیں سنسان گلی کو دیکھا اور میری چیخ نکل گئی ۔امی۔ی۔ی۔ی۔ی ۔ ۔ ۔
جانے کتنی دیر کھڑا دروازے کو دیکھ دیکھ روتا رہا کہ ایک جانب سے امی جان بھاگتی ہوئی آئیں اور مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ اس روز رات گئے تک وہ ابو جان کو اپنی اس ‘لاپرواہی’ کی بات سنا سنا کر خود کو کوستی رہیں اور ان کو اکساتی رہیں کہ وہ انکو ڈانٹیں۔ ہئے بچہ وچارا کلا کارا گلی میں روتا رہا، میں ساتھ والی ہمسائی کو چاول دینے گئی تھی، اس نے زبردستی باتوں میں لگا لیا۔ قصور امی جان کا نہیں تھا۔ مگر قصور میرا بھی نہیں تھا۔ اسکول سے واپسی پر کبھی گھر کے دروازے کی کنڈی لگی ہوئی نہ دیکھی تھی۔ نہ اس سے پہلے اور نہ کبھی اسکے بعد۔
امی جان کے گھر ہونے کا تصور اس قدر پختہ تھا کہ اسکول، کالج، جاب، پھر ٹورز سے واپسی پر گھر داخل ہوتے ہی پہلا سوال ہوتا تھا۔ امی کتھے؟ اور جواب پر اندر کا بلکتا بچہ مطمئن ہو جاتا تھا۔ امی جان اندر ہیں۔ کچھ سمیٹ رہی ہیں۔ امی جان کچن میں ہیں۔ کھانا بنا رہی ہیں۔ امی جان چھت پر ہیں۔
آج کل کی خواتین کی طرح ہم نے امی جان کو نہ کبھی بنتے سنورتے دیکھا اور نہ کھاتے پیتے۔ برمودا ٹرائی اینگل کے بعد میری جنریشن کے لیے دوسرا مشکل سوال یہی ہے کہ ہماری مائیں کھانا کب کھایا کرتی تھیں؟ برسوں اولاد کے منہ میں نوالہ ڈالنے کی لذت شائد ایسے ہی بھوک اڑا دیتی ہے۔( موجودہ نسل ان ماؤں سے محروم ہو چکی ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔ )
چھوٹے بھائی کو تیز بخار تھا۔ وہ بخار میں اٹھا اور صحن میں بنے باتھ روم چلا گیا۔ کمزوری شدید تھی کہ باتھ روم سے باہر آتے چکرا کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔ اسکو بیہوش ہوتے دیکھ کر امی جان بھی گر گئیں۔ بھائی جلدی ہوش میں آ گیا اور ہم امی جان کو ہوش میں لانے لگے۔ امی امی۔۔۔۔ دیکھو کچھ نہیں ہوا۔ سب ٹھیک ہے۔ امی جان نے آنکھیں کھولیں۔ مجھے اپنے اوپر جھکے دیکھا۔ مجھ سے بھائی کی خیریت کا جملہ سنا اور بے اختیار ہو کر مجھے سینے سے بھینچ لیا۔ بچپن میں اسکول سے واپسی والے واقعے کے بعد یہ دوسری بار تھی جب امی جان نے ایسے گلے لگایا۔
اب ہر روز ہر رات جب بھی میں سنسان گلی میں دائیں بائیں دیکھتا اور جتنا بھی چیخوں ۔ ۔ ۔ امی۔ی۔ی۔ی۔ی۔ ۔ ۔ ۔ امی۔ی۔ی۔ی۔ی۔ ۔ ۔ ۔
گلی سنسان ہی رہتی ہے، دروازے کی کنڈی لگی ہی رہتی ہے جانے والی جا چکی ہے۔ بچہ بلکتا رہتا ہے یادوں کی دھوپ چمکتی ہی رہتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کے اس کونے کی جھلک دکھلا دے، جہاں ٹھنڈے فرش پر امی جان، ابو جان اور بزرگوں کے ساتھ بیٹھی کھکھلا کر ہنس رہی ہوں گی۔ انکا چہرہ سرخ ہوگا خوشی کے ساتھ۔ اور اس پل میں وہ پانچ بچوں کی فکر کرنے والی ماں نہیں بلکہ ایک نازک شہزادی ہونگی۔جب کوئی اپنی امی کو پکارتا ہے تو
میرا دل بہت اداس ہو جاتا ہے
مجھے میری امی بہت یاد آتی ہیں
میرا دل تڑپ جاتا ہے
بہت بے چین ہو جاتا ہوں میں
ایسا لگتا ہے کہ دل پھٹ جائے گا میرا
لیکن کسے بتاؤں؟؟؟