Daily Roshni News

مائنڈ پاور۔۔۔قسط نمبر1

مائنڈ پاور Mind Power

قسط نمبر1

بشکریہ ماہانہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2023

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔مائنڈ پاور)مائنڈ پاور کے الفاظ سن کر عام طور طور پر پر لا لوگوں کے ذہنوں میں ہپناٹزم، تمیلی پیتھی، مستقبل بینی، سائیکو کینیسز ، مائنڈ کنٹرول اور سائیکو میٹری جیسی ماورائی اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کا نام آتے ہیں۔ انہیں حاصل کرنے کے لیے برسوں طویل صبر آزما ریاضتیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ ارتکاز توجہ ، یکسوئی، شمع بینی اور سانس وغیرہ کی مشقیں کی جاتی ہیں۔ مدتوں بعد کہیں جا کر انسان کے اندر خوابیدہ قوتیں بیدار ہونے لگتی ہیں۔

مائنڈ پاور پر کام کرنے والے ماہرین نفسیات، سائنس دان اور نیورولوجسٹ کہتے ہیں کہ ….مائنڈ پاور محض مثبت سوچ کا نام ہے۔

دنیا بھر میں آج بھی کئی ایسی شخصیات ہیں، جنہوں نے مثبت سوچ کے ذریعے حیرت انگیز کارنامے کر دکھائے۔ ان کارناموں نے سائنس دانوں، ماہرین نفسیات اور طبی معالجین کو حیران کر ڈالا۔

Stamatis Moraitisاسٹا میٹس مورائس

یہ کہانی ہے یونان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص اسٹا میٹس مورائس Stamatis Moraitis کی جس نے اپنی مثبت سوچ اور فطرت سے قریب طرز زندگی اپنا کر کینسر کےموذی مرض کو شکست دی۔ اسٹا میٹس موراٹس جنوری 1915ء کو یونان اور ترکی کے درمیان واقع ایک جزیرے ایکاریا Icaria میں پیدا ہوا، یہ وہ دور تھا جب ایکاریا

ترک کی سلطنت عثمانیہ سے ٹوٹ کر یونان میں شامل ہو چکا تھا۔ موراٹس نے اپنی زندگی کے ابتدائی 25 برس اس جزیرے میں گزارے۔

1940 کی دہائی کی میں جب برطانیا، فرانس، پولینڈ ، سمیت یورپ کے جمہوری ممالک اور امریکا نے چین اور روس جیسے سوشلسٹ ممالک کے ساتھ مل کر جاپان ، جرمنی اور اٹلی کی فاشسٹ آمریت کے خلاف دوسری جنگ عظیم لڑی تھی اس جنگ کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی آگئے ، جن میں یوگو سلاویہ ، البانیہ اور یونان بھی شامل تھا۔ مورائس صحت مند اور تن درست جوان تھا،

اس نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور یونان کی جانب سے اٹلی سے جنگ میں شریک ہوا۔ چھ سال طویل اس جنگ میں دنیا بھر میں تقریباً 7 کروڑ افراد ہلاک ہوئے ، اس جنگ میں مورائس بھی زخمی ہوا۔ اس کے باز و پر گولی چیرتی ہوئی گزر گئی تھی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد معاشی و سیاسی بد حالی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، نو آبادیاتی نظام نے دم توڑنا شروع کر دیا تھا۔ یونان میں بھی سوشلسٹ گروہ اور جمہوری حکومت کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ اس خانہ جنگی اور لوٹ مار سے پریشان ہو کر موراٹس نے بہتر زندگی کے لیے مغربی ممالک جانے کا فیصلہ کیا، وہ ترکی کے راستے برطانیا پہنچا اور پھر اپنے بازو کا علاج کروانے کے لیے امریکی اتحادی فوجیوں کے ساتھ بحری بیڑےمیں سوار ہو کر امریکا روانہ ہو گیا۔ 1945ء میں اسٹا میٹس موراٹس امریکی شہر نیو یارک کی جیفرسن بندرگاہ پر اترا، وہ تیس برس کا صحت مند جوان تھا، اسے یہاں رہائش اختیار کرنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ مواراٹس نے مختلف فیکٹریوں میں سخت محنت مشقت کے کام کیے، لیکن نیو یارک شہر اُسے راس نہیں آیا، اونچی اونچی دیو ہیکل عمارتیں ، ہر جگہ ٹریفک اور فیکٹریوں کے دھواں ، شہر کی آبادی بہت ہے لیکن یہاں ہر کوئی کسی کے پاس کسی کے لیے مصروف نظر آتا ہے، کسی . وقت نہیں۔ مورائس نے : خوب محنت کی اور چند برسوں میں اتنی رقم جمع کر لی کہ وہ خود اپنا گھر خرید سکے۔ اس نے امریکی ساحلی ریاست فلوریڈا کے شہر بو ئنٹ بیچ میں رہائش اختیار کی۔ یہاں مورائٹس کی ملاقات یونانی نژاد امریکی خاتون اپینکی Elpiniki سے ہوئی۔ دونوں نے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس شادی سے ان کے تین بچے ہوئے۔

اگلے تیس برسوں تک ادھیڑ عمر اسٹا میٹس موراٹس اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کر رہا تھا، تین کمروں کا اپارٹمنٹ اور 1951 ماڈل کی ایک شیر ولٹ کار، اور ایک اچھی نوکری …. اب اس کے تینوں بچے بھی جوان ہو کراپنی زندگی میں مصروف ہو گئے تھے۔ اسے صحت کے چند مسائل پیش آئے1976ء کی ایک شام موراٹس جب فیکٹری سے واپس آرہا تھا تو گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کی سانس پھولنے لگی، اُسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور وہ چکرا کر وہیں گر گیا۔ موراٹس کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے مورائیں کے سینے اور ریڑھ کی ہڈی کا ایکسرے کیا۔ شخیص ہوا کہ اسے پھیپھڑوں کا کینسر ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر ڈاکٹروں کا اندازہ تھا کہ جب وہ نیو یارک کی فیکٹریوں میں کام کرتا تھا تب ہی فیکٹریوں کے

دھویں سے اس کے پھیپڑے متاثر ہو گئے تھے ۔

لیکن وہ تیس برس تک اس مرض کی علامات کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔ اب یہ بیماری بہت بڑھ چکی ہے۔ موراٹس اور اس کی فیملی کے لیے یہ خبر انتہائی دل دہلا دینے والی تھی ، موراٹس نے اس بیماری کے علاج کے لیے شہر کے آٹھ نو مشہور ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ اس کے پھیپھڑوں میں کینسر بہت زیادہ پھیل چکا تھا اور اب مورائٹس کے پاس زندگی کے صرف چھ سے نو مہینے باقی ہیں۔ ان نو مہینوں میں اس کا علاج شروع بھی کر دیا گیا تب بھی اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ مورائس کچھ دن ہسپتال میں ہی رہا۔ لیکن امریکا میں مہنگے علاج معالجہ کے اخراجات اٹھانا اس کے بس میں نہیں تھا، وہاں تو موت بھی مہنگی تھی جہاں صرف تدفین میں ہزاروں ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں۔ بالآخر مورائس اور اس کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ وہ زندگی کے اس مشکل مرحلے پر اپنےاسٹیمیٹس مورائس آبائی وطن واپس جائیں گے۔ مورائس چاہتا تھا کہ اب زندگی کے جو دن باقی ہیں وہ اپنے آبائی گھر میں گزارے۔

یونان کے سمندر ایجین کے شمال میں واقع خوبصورت جزیرے ایکاریا Ikarea کا باسی اپنے آبائی گھر آکر ذہنی طور پر بہت مطمئن ہو گیا۔

پہلے دن تو وہ بستر پر پڑا رہا اس کی ماں اور بیوی اس کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ رفتہ رفتہ اس کے بچپن کے پرانے دوستوں کو جب اس کی واپسی کا پتہ چلا تو وہ بھی اس سے ملنے آنے لگے۔ اکثر احباب اور رشتہ دار اس کے پاس محفل جمائے بیٹھے رہتے۔ مورائس کی طبیعت کچھ سنبھلنے لگی تو اس نے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزیاں اور پھل اگانا شروع کر دیں۔ اب وہ روز صبح سورج نکلنے کے ساتھ اٹھتا ، محلہ کے لوگوں کے ساتھ پہاڑوں کی چہل قدمی اور سیر کرتا، صحت بخش ہوا میں سانس لیتا، پھر دن بھر وہ باغبانی کے کام میں مشغول رہتا۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہانہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2023

Loading