Daily Roshni News

مادہ اور نور۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔۔(قسط نمبر2)

مادہ اور نور

تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔مادہ اور نوز ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی) مادہ کی کھوج میں انسان نے پہلے تو یہ جانا کہ مادہ نا قابل تقسیم اجزاء سے مل کر بنا ہے۔ اپنی اس دریافت کو یونانی فلسفیوں نے ایٹم کا نام دیا۔ یونانی زبان کے لفظ ایٹم (Atom) کا مطلب ہے ”نا قابل تقسیم “۔ تقریباً دو سو سال پہلے سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ ایٹم نا قابل تقسیم نہیں ہے بلکہ اپنی اندرونی ساخت بھی رکھتا ہے۔ بیسویں صدی میں دریافت ہوا کہ ایٹم کا مرکزی حصہ نیو کلیئس (Nucleus) ایک جز پروٹون پر مشتمل ہوتا ہے جس کے ) Proton( گرد الیکٹرون حرکت کرتے رہتے ہیں۔ کچھ برس بعد دریافت ہوا کہ نیو کلیں میں ایک اور جز نیوٹرون (Neutron) ہوتا ہے۔ 1960ء کے عشرے میں دریافت ہوا کہ پروٹون، الیکٹران اور نیوٹران مزیدچھوٹے اجزاء سے مل کر بنے ہیں۔ ان اجزاء کو کوارک (Quark) کا نام دیا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک پروٹون یا نیوٹرون تین کوار کس سے مل کر بنتا ہے۔ 70 کی دہائی میں ایٹمی پارٹیکلز کے مزید 17 بنیادی اجزاء تک انسان کی رسائی ہوئی۔

واضح رہے کہ ایٹم کے اندر کوارکس میں موجود کئی اجزاء کو روشنی کی کوئی قسم کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر مادی جسم بنیادی طور پر روشنی کی تہہ در تہہ کئی پرتوں کے

اجتماع سے بنا ہے یعنی ہر مادی جسم کی بنیاد کوئی روشنی (یا نور) ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نور جب کوئی خاص اجتماعی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کا اظہار مادہ کی شکل میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف مادہ میں آنے والی انتہائی درجہ لطافت اسے مادے سے روشنی میں تبدیل کر دیتی ہے۔

سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیا قلندر بابا اولیاء اپنی کتاب ”لوح و قلم “ میں فرماتے ہیں۔تجلی تنزل کر کے نور بنتی ہے اور نور تنزل کر کے روشنی یامظہر بن جاتا ہے

کتاب لوح و قلم قلندر بابا اولیاء صفحہ 121]

یعنی مادی شے نور یا روشنی کی مظاہراتی شکل ہے۔

قلندر بابا اولیاء نے اپنی کتاب لوح و قلم میں روشنی اور نور کی اقسام بیان کی ہیں۔ ان

اقسام کے مطالعہ سے نور کی ماہیت اور طرز عمل سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس حوالے سے کتاب لوح و قلم میں صفحہ 95-96 پر آگہی فراہم کی گئی ہے۔اس زمین پر آباد انسان اپنی عقل کے ذریعہ مسلسل جستجو اور تحقیق میں مصروف ہے۔گزشتہ تین صدیوں میں مادی طرزوں میں ہونے والی اس تحقیق کے سب سے زیادہ نتائج سائنسی دریافتوں اور ٹیکنالوجی کی نت نئی اقسام کی شکل میں بہت تیز رفتار کے ساتھ ظاہرہو رہے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانوں کے ہاتھوں ہونے والی تبدیلیاں انسان کی سوچ اور ان کی معاشرت پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے بہت زیادہ اثرات ڈال رہی ہیں۔

زراعت و تجارت، صنعت و خدمات میں روزگار کے لیے نت نئے شعبوں کا قیام، نقل و حمل میں تیز رفتاری، رابطوں کے نئے نئے ذرائع ، ویکسین کے استعمال سے کئی بیماریوں سے تحفظ ، زچہ اور بچہ کی صحت، نومولود اور شیر خوار بچوں کی شرح اموات میں خاطر خواہ کمی، بیماریوں کے باوجود انسانوں کی اوسط عمر میں اضافہ ، زندگی میں آسائشوں کی فراہمی، عام افراد کی کئی سہولتوں تک آسان رسائی وغیرہ ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات کی چند مثالیں ہیں۔ ایک طرف تو ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات سے انسان فائدے اٹھا رہے ہیں ۔ دوسری طرف چند انسانوں کی طرف سے مفاد عاجلہ (فوری مفاد) اور اجتماعی مفاد پر انفرادی مفاد کو ترجیح دینے اور انسانوں کے منفی اعمال سے ٹیکنالوجی بڑے خطرات کا سبب بھی بن رہی ہے۔ سورہ روم (30) آیت 41 میں اللہ تعالی فرماتے ہی

ں ظَهَرَالْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ

گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلیاں، محض پچاس سال میں کروڑوں سال قدیم ایمنرون کے جنگلات کا تقریباً سترہ فی صد حصہ ختم ہو جانا، اس خطہ ارض سے چند دہائیوں میں کئی لاکھ انواع کا معدوم ہو جانا، شمالی اور جنوبی قطبین میں لاکھوں سال پرانے گلیشیر زکا تیزی سے پگھلنا، انسانوں میں کینسر، امراض قلب، ذیا بیطیس، ڈپریشن اور دیگر کئی ذہنی و جسمانی امراض کا تیزی سے پھیلاؤ انسانی اعمال کی وجہ سے پھیلنے والے فساد کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔ یہ نا صرف نوع انسانی بلکہ اس خطہ ارضی کے ۔ لیے سنگین ن خطر خطرات کے اشارے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے سماجی و معاشی سطح پر بھی کئی منفی اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ ان میں مذہب سے دوری یا ترک مذہب یعنی الحاد کا بڑھنا، کم زور کے استحصال اور دولت کے ارتکاز میں اضافہ، دنیا بھر میں 2 ارب سے زاید افراد میں غربت، مفلسی اور بھوک ، خاندانی نظام کا کم زور پڑنا یا ختم ہونا، خواتین کے حقوق کا بہت زیادہ پر چار لیکن۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ سلسلہ عظیمیہ قلندر شعور فاونڈیشن

Loading