Daily Roshni News

مادہ اور نوز ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر3

مادہ اور نور

تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

(قسط نمبر3)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔مادہ اور نوز ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی) در حقیقت خواتین کے احساس عدم تحفظ میں اضافہ اور خواتین کی حق تلفی کے بڑھتے ہوئے واقعات، نوجوانوں میں رشتوں کے بڑھتے ہوئے مسائل، اولاد اور والدین میں دوریاں، استاد کے  احترام کا ختم یا بہت کم ہو جانا، تعلیم تعلیمی اداروں میں منافع خوری کارجحان، جرائم کی نت نئی اقسام، جرائم کی شرح میں اضافہ اور دیگر کئی مسائل شامل ہیں۔

تیز رفتار ترقی کے باعث انسانوں کے نظام الاوقات اور کئی معمولات میں تبدیلیاں، معاشی دباؤ، انسانوں کے باہمی تعلق میں اعتماد کی کمی ، رشتوں کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات و خوف، رشتوں کے بندھن (Bonding) میں کم زوری، جذباتی الجھنوں اوردیگر کئی عوامل کی وجہ سے گذشتہ سو سال میں انسانوں میں جسمانی اور ذہنی صحت کے نت وسائل میں بہت زیادہ اضافہ ہو جانے اور آسائشوں تک بہت زیادہ رسائی کے باوجود انسانوں کی بڑی تعداد میں خود غرضی، تنگ دلی، حسد کے منفی جذبات تیزی سے بڑھ رہےنئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔

ہیں۔ جن افراد یا جن اقوام کے پاس اختیار ہوا ان کی طرف سے دوسروں کے حقوق غصب کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

جدید دور کا ایک اہم مسئلہ یہ یہ ہے ہے کہ انسان اپنی اخلاقی اور روحانی اقدار سے بہت زیادہ لا تعلق ہو گیا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد کی نظر میں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ آج کئی طبقات اخلاقی و روحانی اقدار سے نی و روحانی اقدار سے لا تعلق انسانوں کے گمراہ کن طرز عمل کو صرف درست ہی نہیں بلکہ خوب تر قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سےقرآن پاک میں انسانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِيْنَ أَعْمَالًا ) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا )[ سورہ کہف (18) : آیت 103-104]

ترجمہ : آپ فرمادیجیے کہ اگر تم کہو تو میں تمہیں بتادوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی کوششیں رائیگاں گئیں اور اپنی غلط طرز فکر کےباعث وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ تو بہت اچھے کام کر رہے ہیں “ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی اور روحانی اقدار کے بغیر انسان اشرف المخلوقات کے اعزاز کاحق دار نہیں رہتا۔

ایسا انسان تو محض ایک حیاتیاتی وجود (Biological Entity) ہے۔ جن لوگوں میں علم و آگہی اپنی اصل کی تلاش ، اپنے خالق کی پہچان اور اخلاقی و روحانی اقدار سے وابستگی کا سبب نہ بنے ایسے لوگوں میں اور اس زمین پر آباد دیگر حیوانات میں کیافرق ہو گا …؟

سائنس کے زیر اثر آگہی بڑھ جانے کے باوجود موجودہ دور کا انسان فطرت سے بہت زیادہ دور ہو گیا ہے۔ یہ دوری کہیں فطری قوانین سے انحراف اور کہیں فطرت سے تصادم کی شکل شکل میں. ظاہر ہو رہی ہے۔ انسان کو خود اپنے آپ کو یہ سمجھانا چاہیے کہ فطرت سے تصادم انسان کے مفاد میں نہیں ہے۔ انسان کو اس شدید نقصان دہ روش سے باز آجانا چاہیے۔ مادی طرز فکر سے مغلوب یہ غلط طرز عمل خود نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہونے کے ساتھ ساتھ زمین اور اس پر آباد دیگر مخلوقات کے لیے مہلک ہے۔

عنوان نمبر 2 :

مادی طرز فکر ، نورانی طرز فکر

ازل تا ابد انسانی حیات کے کئی مراحل ہیں، اس خطہ ارضی پر انسان اپنی حیات کے مادی انسانی وجود اس زمین پر مادے اور روح پر مشتمل ہے۔ مل ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے مرحلے میں ہے۔ امام قلندر بابا اولیاء نے اپنی کتاب ”لوح و قلم “ میں روح اور جسم کے اس تعلق کو سمجھانےکے لیے لباس کی مثال دی ہے۔ بابا صاحب فرماتے ہیں :

ایک انسان کیا ہے ….؟

ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں ….؟ ہمارے سامنے ایک مجسمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔ طبی نقطۂ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل و صورت دی گئی ہے۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں۔ اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سوتی کپڑے کا، اونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اس لباس کا محل استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کر اس کو ملی۔ لیکن در حقیقت وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہے۔ جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ سلسلہ عظیمیہ قلندر شعور فاونڈیشن

Loading