Daily Roshni News

مادہ اور نوز ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔۔۔(قسط نمبر4)

مادہ اور نور

تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

(قسط نمبر4)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔مادہ اور نوز ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی) کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے جو لباس جسم کی حفاظت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہو جاتی ہے اور اگر اس لباس کو اتار کر چار پائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقط ہو جاتی ہیں۔“ [اقتباس از لوح و قلم۔ صفحہ 109] انسان کی زندگی خیال سے تحریک پاتی ہے۔ مادی زندگی میں حرکت کا سبب بننے والا خیال خود ایک غیر مادی وجود ہے۔ اس مادی زندگی میں انسان اپنی فکر، اپنی ہے۔ فکر اور سوچ کے تابع رہتا ہے۔ فی سوچ غیر مادی وجود ہیں۔ انسان اپنی زندگی کے معاملات عقل کے ذریعے طے طے کرتا ہے ۔ عقل کوئی مادی وجود نہیں ہے۔ فکر کا درست یا غلط استعمال انسان کے دل میں پائی جانے والی نیت سے بندگی نیست خیر ثرمنسلک ہے۔ نیت بھی مادی وجود نہیں رکھتی۔

سرکشی ان نکات کے بیان سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہماری مادی زندگی کی حرکات اور زندگی کے افعال خود کئی غیر مادی اسباب (Stimulants) پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس خطہ ارضی پر صرف مادہ کو ہی سب کچھ سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی ٹھیک طرزوں پر چلتی رہے اس کے لیے انسان کامادی اور نورانی دونوں ذرائع سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔

اللہ کی طرف سے احسن تقویم کا منفر داعزاز اور تکریم و فضیلت پانے کے بعد انسان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے خالق کی مشیت کو سمجھے۔ خالق کی مشیت کو سمجھنے کے لیے اوراس دنیا میں صحیح طرز عمل اختیار کرنے کے لیے انسان کے پاس اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہدایت و رہنمائی موجود ہے۔ اس ہدایت و رہنمائی کے کئی ذرائع اور کئی مراحل

(Phases) ہیں، ان میں ایک بڑا ذریعہ وحی ہے۔

ایک مرحلہ انسان کی پیدائش سے پہلے کا ہے ، دو مراحل اس زمین پر انسان کی پیدائش کے بعد کے ہیں۔ ان میں سے دو مراحل انسان کے لیے خارجی ہیں اور ایک مرحلہ داخلی یا

باطنی ہے۔قرآن پاک سے پتا چلتا ہے کہ انسان نے اس زمین پر اپنی پیدائش سے پہلے ہی ایک مجلس میں اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر لیا تھا۔ دور ازل میں ہونے والی اس مجلس کا ذکر قرآن پاک کی سورہ اعراف میں ہے۔

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُوْلُوْايَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غُفِلِينَ ) [ سورہ اعراف (7) : آیت 172]

1 – دور ازل کی اس مجلس کو ہم انسان کو دی جانے والی ہدایت اور رہنمائی کا پہلا مرحلہ

کہہ سکتے ہیں۔

2 – اللہ تعالی نے اس دنیا میں اپنے انبیاء اور رسولوں پر نازل ہونے والی وحی کے ذریعہ

انسان کو ہدایت ورہنمائی عطا کی۔

3- اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو صحیح اور غلط کی تمیز عطا فرمائی ہے۔

وَ نَفْسٍ وَ مَا سَوهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْرُبِهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا وَ

قَدْ خَابَ مَنْ دَسْهَا ) [ سوره الشمس (91) : آیت 7 تا 10]

یہ رہنمائی کا داخلی یا باطنی ذریعہ ہے۔ہدایت کا پہلا مرحلہ اللہ کی طرف سے انسانوں کو عطا کی جانے والی براہ راست آگہی ہے۔ دوسرا مرحلہ انبیاء اور رسولوں کے ذریعہ دی جانے والی آگہی یعنی وحی ہے۔ تیسرامرحلہ انسانی ضمیر کارد عمل ہے۔

اللہ نے اپنے انبیاء پر اپنا کلام نازل فرمایا۔ ان میں قرآن پاک، انجیل، تورات اور دوسری آسمانی کتابیں شامل ہیں۔

اللہ نے اپنے نازل کردہ کلام کو نور قرار دیا۔

يَأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانَ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُوْرًامُّبِينًا [ سورة النساء (4): آیت 174]

ترجمہ : اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آ پہنچی اور ہم نے

تمہاری جانب واضح نور نازل کر دیا ہے۔

قَدْ جَاءَكُمْ مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتُب مُّبِينٌ [ سورة المائده (5): آیت 15]

ترجمہ : تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔ وَاتَيْنُهُ الْإِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَ نُورٌ وَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التورية [ سورة المائده (5): آیت 46]

ترجمہ : ” اور اللہ نے انہیں (حضرت عیسی ہو) انجیل عطاء فرمائی جس میں نور اور

ہدایت ہے اور اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی ہے“۔

اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی علیہ کالم کا ارشاد مبارک ہے۔

كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّوْرُ

اللہ کی کتاب میں ہدایت و نور ہے۔ [ صحیح مسلم ، سنن نسائی، مسند احمد ]

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ حَبْلُ اللهِ، وَالنُّورُ الْمُبِينُ، وَالشَّفَاءُ النَّافِعُ

بے شک یہ قرآن حبل اللہ اور نور مبین اور فائدہ بخش شفا ہے۔[ مستدرک حاکم، بیہقی، طبرانی ]

اس دنیا میں خیر و عافیت والی زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی مادی ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ سلسلہ عظیمیہ قلندر شعور فاونڈیشن

Loading