Daily Roshni News

مادہ اور نوز ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی۔۔۔قسط نمبر1

مادہ اور نور

تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔مادہ اور نوز ۔۔۔تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی) اس کا ئنات کے خالق و مالک اللہ نے ساری کائنات خاص ترکیب، ترتیب و توازن کے ساتھ تخلیق کی ہے۔ یہ ساری کائنات اللہ کی صفات کا مظاہرہ ہے۔ اللہ کی صفات کی

نمائندگی اسماء الہیہ کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اللہ نے اس کا ئنات میں اربوں کھربوں مخلوقات تخلیق کی ہیں۔ ہر مخلوق کے لیے زندگی بسر کرنے کے لیے نظام تخلیق کیے ہیں۔ کائنات کے بہت اہم اجزاء مادہ اور نور ہیں۔ اپنی بنائی ہوئی سب مخلوقات کی اور سب نظاموں کی اللہ مسلسل نگہبانی فرمارہا ہے۔ کائنات کو بنانے کے بعد نگرانی سے بے نیاز کسی خود کار نظام پر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اللہ اپنی مخلوق اور ہر نظام کو ہر آن سنبھالے ہوئے ہے۔

اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ [ سوره زمر (39): آیت 62]

ترجمہ : اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔“

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ [ سوره سجده (32)۔ آیت 5]

ترجمہ : ” وہی آسمان سے زمین تک سارے امور کا انتظام فرماتا ہے۔ پھر یہ تمام

امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں “۔

بے شمار مخلوقات میں سے اللہ نے اپنی ایک مخلوق انسان کو بہت زیادہ صلاحیتیں عطا

فرمائی ہیں اور اللہ نے انسان کو اپنی صفات کا علم سکھایا ہے۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا [ سورة بقره (2): آیت 31]

انسان کو اللہ نے اپنی بہترین صناعی فرمایا ہے۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [سورۃ التین (95): آیت 4]

اللہ نے اپنی بہترین تخلیق انسان کو تکریم و فضیلت بھی عطا فرمائی ہے۔

وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْتُهُمْ مِّنَ الطَّيِّبُتِ وَفَضَّلْتُهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًاسورہ بنی اسرائیل (17): آیت 70]

اللہ نے انسان کو خلیفہ فی الارض کا منصب عطا کیا۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةًسوره بقره (2) آیت 30

عالم الاسماء، احسن تقویم اور تکریم و فضیلت کے حامل خلیفہ فی الارض انسان کے وجود

میں مادہ اور نور اہم ترین اور ناگزیر ا جزاء ہیں۔

مادہ اور نور کی تعریف و تشریح کئی پہلوؤں سے کی جاسکتی ہے۔

یہ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں۔

لغوی اعتبار سے مادہ کا مطلب کسی چیز کی اصل یا بنیاد ہے جس سے وہ چیز تیار ہو۔ آگ ہوا

پانی اور مٹی کو بھی لغت میں مادہ کہا گیا ہے۔

لغوی اعتبار سے نور کے معنی ہیں، (1) کسی منبع مثلاً سورج، آگ وغیرہ سے پیدا ہونے

والی روشنی جو اشیاء پر پڑتی ہے اور انسانی آنکھ کو محسوس ہوتی ہیں ، 2) ایک شفاف و لطیف

شے جس سے فرشتے تخلیق کیے گئے۔ النُّور اللہ کا ایک صفاتی اسم بھی ہے۔

لسانی تشریح ذہن نشین رکھتے ہوئے آیئے ہم دیکھتے ہیں کہ مادہ اور نور کی سائنسی یا علمی

تعریف کیا بیان کی گئی ہے۔

ہر چیز جو وزن رکھے اور جگہ گھیرے وہ مادہ ہے۔ مادہ کی تین عمومی حالتیں ٹھوس مائع اور گیس بتائی گئیں جبکہ مادہ کی ایک حالت کو پلازمہ کہا گیا ہے۔

نور کو سائنس کی اصطلاح میں لائٹ یا روشنی کہا گیا ہے۔ گو کہ لفظ روشنی نور کی کئی صفات کا احاطہ نہیں کرتا۔ بہر حال سائنس کی وضع کردہ تعریف اور سائنسی تشریحات لکھتے

وقت ہم نور کو کئی مقامات پر روشنی ہی لکھیں گے۔

روشنی ایک برقی مقناطیسی عمل ہے جسے انسانی آنکھ سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ روشنی کی کئی قسمیں ہیں۔ روشنی توانائی کی ایک شکل ہے، یہ ایک لہر (Wave) بھی ہے۔ واضح رہے کہ ”نور“ سائنسی تشریحات میں بیان کردہ روشنی سے کہیں زیادہ خواص، زیادہ

وسعت، زیادہ ہمہ گیریت اور کثیر پہلوی اثرات رکھتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کے مادی جسم کو ایک روشنی یا توانائی زندہ رکھتی ہے۔ اس روشنی یا    توانائی کو روح کہا گیا ہے۔

انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انسان نے اپنی اصل یعنی اپنی روح کو سمجھنے کے لیے

علمی اور میں میدان میں زیادہ کوششیں نہیں کیں۔ انسان زیادہ تر مادی حواس اور مادی تقاضوں کے زیر اثر رہا ہے۔ انسانوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی رہی ہے کہ مادی وجود اور اس فانی دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ انسانی فکر اور جستجو بھی مادے کی کھوج میں زیادہ مصروف رہی ہے۔۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ سلسلہ عظیمیہ قلندر شعور فاونڈیشن

Loading