ماں بنیے سمجھداری کے ساتھ!
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یہ قطعا ضروری نہیں کی ہر حاملہ خاتون کو کسی نہ کسی تکلیف یا بیماری کا سامنا کرنا پڑے۔
ایام حمل کی مدت غیر معمولی تبدیلیوں کے باوجود ایک فطری حالت ہے لیکن بسا اوقات اس مدت میں ایسی پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں جو ناصرف حاملہ بلکہ آنے والے بچے کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ خواتین اس دور کے ممکنہ عوارض اور مسائل سے واقف ہوں تو وہ بروقت
طبی سہولتوں کا حصول یقینی بنا سکتی ہیں ، اس طرح ماں بچے کی صحت برقرار رکھ سکتی ہیں۔ یہ قطعا ضروری نہیں کہ ہر حاملہ خاتون کو کسی نہ کسی تکلیف یا بیماری کا سامنا کرنا پڑے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ خواتین ابتدائی دنوں میں متلی کی شکایت میں مبتلا ہوتی ہیں اور معدے کی سوزش کے باعث کھانا ترک کر دیتی ہیں۔ انہیں قبض ہو جاتا ہے، بھاری پن، اینٹھن، مروڑ اور ہائی بلڈ پریشر ہو سکتا ہے۔ ان بیماریوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں لیکن اکثر تکالیف خون کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ان کیفیات کو دواؤں اور مناسب غذا سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جسم میں فولاد کی کمی سے حمل متاثر ہوتا ہے۔ جڑواں بچوں کا پتہ چل جانے پر زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
اکثر لوگ نو بیاہتا خواتین کو الٹیاں آنا پاؤں بھاری ہو جانے کی اولین علامت سمجھتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر حاملہ خاتون کو متلی کی شکایت ہو۔ اگر الٹیاں زیادہ ہوں اور برابر آتی رہیں اور دن بھر کا کھایا پیا باہر نکل جاتا ہو تو یہ صور تحال توجہ کی مستحق ہے کیونکہ اس طرح جسم میں نشاستے دار اجزاء ( کاربوہائیڈریٹس) اور گلائیکو جن کی کمی ہو جاتی ہے اور گلوکوز جو کہ گلائیکو جن کی شکل میں جگر میں جمع رہتی ہے وہ کم ہونے لگتی ہے۔ اس سے چربی تحلیل ہوتی ہے اور کیٹون کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو الٹیوں کو تحریک دیتا ہے۔ اگر الٹی کے ساتھ خون کی آمیزش ہو جائے تو مخطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ان علامتوں کو دیکھتے ہوئے گائنا کو لوجسٹ سے رجوع کر لینا چاہیے اور فوری طور پر گلو کو ز ملا پانی لیا جائے اور جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دی جائے۔
سینے میں جلن کیوں ہوتی ہے….؟
یہ شکایت عموماً حاملہ خواتین کو ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوٹرس کا حجم بڑھ جاتا ہے جس سے پیٹ پر دباؤ پڑتا ہے اور معدے کا باضم اس غذا کی نالی میں آنے لگتا ہے اور اس کی تیزابیت سے سینے میں جلن ہونے لگتی ہے۔ منہ کا ذائقہ بگڑتا ہے، کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں۔ اس حالت میں باسی، کھٹی، تلی ہوئی یا مرغن غذائیں نہ کھائی جائیں بلکہ زود ہضم اور سادہ غذائیں لی جائیں اور زیادہ گرم دودھ کا استعمال نہ کیا جائے۔ ٹھنڈا پانی اور دودھ تیزابیت کو کم کر دیں گے۔
قبض کی شکایت کا کیا حل ہے….؟
حاملہ خواتین کو قبض کی شکایت عموماًپروجسٹرون نامی ہارمون کے بڑھ جانے سے ہوتی ہے، پروجسٹرون آنتوں کی حرکت کو ست کر دیتا ہے۔ قبض میں حاملہ خاتون ہری سبزیاں، موسم کے رسیلے پھل اور جوس زیادہ مقدار میں اور وقفے وقفے سے کھائیں، کبھی ایک بار ڈٹ کر پورا کھانا کھانا صحیح نہیں ہو تا خاص کر ماں بننے والی خواتین کے لیے۔ اگر حاملہ وقفہ وقفہ سے پانی پیتی رہے تو قبض کی شکایت نہیں ہو گی پھر بھی اگر یہ شکایت ہے تو
گائنا کو لوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔
کمر میں درد کیوں ہوتا ہے….؟ حمل کے آخری ہفتے میں یہ شکایت ہو سکتی ہے کیونکہ جسامت کافی بڑھ جاتی ہے۔ ایسی خواتین جو ہاضمے کی تکالیف میں مبتلا نہیں ہوتیں وہ خوب کھانے کھاتی ہیں، عام تصور اور مفروضہ یہی ہے کہ مائیں بچے کی صحت کی بحالی کے لیے جتنا کھا ئیں کم ہے اس طرح کئی حاملہ خواتین اپنا وزن بڑھا لیتی ہیں۔ اس وزن کی زیادتی کی وجہ سے کمر اور کولہے کے جوڑ اور پٹھے متاثر ہوتے ہیں، ان پر دباؤ پڑتا ہے اور کمر میں درد ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں زیادہ آرام کرنا چاہیے اور وزنی چیزیں اٹھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر درد زیادہ اور مسلسل ہو تو ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے۔
پہلے بچے کی پیدائش قطعی انوکھا واقعہ……
اس وقت خواہ کتنی ہی کتابیں پڑھ لی جائیں، نیٹ سے مدد لی جائے لیکن جب تک مرحلہ وار پہلے ہفتے سے چالیسویں ہفتہ تک کے تجربات نہ ہوں ۔ عورت زچگی کا مفہوم سمجھ نہیں سکتی مثلاً چھاتی کی جسامت بڑھے گی، ان میں درد اور بھاری پن محسوس ہو گا اور ولادت ہوتے ہی تکلیف جاتی رہے گی۔ کچھ خواتین کو چھاتی میں گلٹی یا رسولی محسوس ہوتی ہے، حاملہ خواتین کو ہر مہینے ہونے والے چیک اپ میں گائنا کولوجسٹ سے اپنی کیفیت بیان کرنی چاہیے تاکہ ذہنی و جذباتی طور پر زچگی کا دورانیہ پر لطف ہو کر گزارا جاسکے۔ آخری
ہفتوں میں بار بار پیشاب آنے کی حاجت سے گھبرانا نہیں چاہیے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پیٹ اور جسم کے بھاری ہونے پر گردوں ہیں
اور مثانے پر دباؤ پڑتا ہے اور بار بار فراغت کے لیے جانا پڑتا ہے اور خاص کر رات کے وقت یہ شکایت بڑھ جاتی ہے اور نیند ٹوٹتی ہے۔ حاملہ خاتون کے لیے بہتر ہے کہ
دو پہر کے وقت آرام کر لیا جائے۔ لیکن پانی کم پینا درست عمل نہیں ہے۔ اس تکلیف سے بچنے کے لیے بھی زیادہ پانی پینا چاہیے ورنہ گردے متاثر ہو سکتے ہیں۔
خون کی کمی ہرگز نہ ہونے دیں۔۔۔… ماں بننے والی خواتین یاد رکھیں کہ بچے کو تقریباً 900مائیکرو گرام اور ماں کو 150 ملی گرام فولاد ( آئرن) کی ضرورت ہے۔ دسویں ہفتے میں اگر یہ مقدار پوری نہ ہو تو مسئلہ مخطرناک ہو سکتا ہے۔ پلازما کی مقدار خون کے سرخ ذرات کی بہ نسبت بڑھ جائے تو ہیموگلوبن کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں اگر غذا میں فولاد، پروٹین اور وٹامنز کی کمی رہے تو جسم میں خون کی کمی ہو سکتی ہے۔ ہر سال نئی ولادت اور گردے کی کوئی پرانی بیماری اس شکایت کا سبب ہو سکتی ہے۔ کمزوری محسوس کرنا، جلدی تھک جانا، دل کی دھڑکنوں کا تیز ہو جانا، سانس پھولنا، ہاتھ پاؤں پر سوجن، جلد کا زردی مائل ہو نا، خون کی کمی کی واضح علامتیں ہیں، آئرن کے حصول کے لیے قدرتی غذاؤں میں پالک، ساگ، پنیر، کلیجی، سیب، کیلا، امرود ، دودھ اور سبزیاں لینی چاہئیں۔
ہارمونز کی زیادتی، ممکنہ شکایت۔۔۔ ہارمونز کی مقدار بڑھ جانے پر بعض خواتین کو بواسیر کی شکایت ہو سکتی ہے۔ سبزیوں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے تاکہ قبض نہ ہو۔
ذیابیطس، اہم شکایت
اس مرض کا تعلق وراثت سے بھی ہوتا ہے۔ اس کی واضح علامت پیشاب کا زیادہ، آنا بھوک یا پیاس میں اضافہ شامل ہیں۔ بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ خون میں شکر کا ٹیسٹ بھی کرواتے رہنا چاہیے۔ ماں کو ذیا بیٹس ہو تو بچہ متاثر ہو سکتا ہے۔ شوگر کنٹرول کر کے حمل کو بچایا جا سکتا ہے۔ حاملہ خواتین کو گائنا کولوجسٹ سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے اور اسے غذائی چارٹ بنوا کر اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2018