‘محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کاغالب’
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایشون کے برعکس جسے غالب کے اس مصرع کا تمثیلی معتقد دکھایا گیا ہے ، رتنا اس تعارف محبت سے مجبوراً احتراز برتتی ہے ؛ اسے تسلی دینی ہے خود کو اور ‘اپنےصاحب’ کو ۔ اسے فقط محبت نہیں ،عزت بھی درکار ہے ؛ اسے سمجھانا پڑتا ہے :
“سر ___ اور بھی کام ہیں دنیا میں محبت کے سوا “
زندگی جو کسی بھی چیز کے لیے مختصر ہے، کسی ایک مرحلے میں وقتی طور پر، ایک کشش ، اک لگاوٹ صحت مند یا سازگار ہوسکتی ہے__ روحانی ہوسکتی ہے، لیکن کیا اس کا کوئی مستقبل بھی ہوگا؟؟ __
___لیکن فلم کا شاید سب سے بڑا پہلو یہی ہے کہ ادھر مستقبل خارج از حوالہ ہے۔۔۔ آخری سین دیکھنے کے بعد ناظر بھی وہیں رہ جاتا ہے جہاں فلم کے کردار پردے پہ دھندلا جاتے ہیں —-
SIR 2018
The greatest happiness of life is the conviction that we are loved; loved for ourselves, or rather, loved in spite of ourselves. – Victor Hugo
بس چلتے جا رہی ہے۔ اک سیٹ ہے۔ اس پہ چوکڑی مارے اک عورت بیٹھی ہے ۔ کم عمری میں شادی ہوئی تو چند مہینوں بعد ہی خاوند کے مرنے کی صورت میں مکتی بھی مل گئی۔۔۔ کانوں کو بس چلنے کی آواز سنائی دے رہی ہے ۔ اور رتنا نام کی یہ عورت سیدھی کلائی میں نیلی چوڑیاں پہن رہی ہے–پھر دوسری کلائی کی چوڑیوں کی کھنک سنتی ہے شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ بیوہ کے بازوں میں چوڑیوں کی کھنک ویسی ہی شوخ ہے یا بیوگی، عورت کے بدن کی موسیقی کو باسی کر دیتی ہے—
منظر میں بانسری کی لے تیزی سے بدلاؤ لاتی ہے اور ممبئی میں ہم رتنا کے ساتھ صاحب کے گھر آ جاتے ہیں۔ رتنا صاحب کی کل وقتی ملازمہ ہے ، انھیں بڑی جھجک سے “سر” کہتی ہے۔ ملازموں میں شور ہے صاحب (ایشون) کی شادی سرگباش ہو گئی۔صاحب دل شکستہ لوٹے آ رہے ہیں۔ رتنا سلیقے سے سب کام ختم کرتی ہے۔ صاحب اس رات کھانے کی بجائے پینے کا شغل کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
آگے کے ٹکڑے صاف ہیں۔ ایشون رنجیدہ حال ہے۔اکیلا عالیشان بیچلر پیڈ میں رہتا ہے۔ باپ کا رئیل اسٹیٹ کا کام ہے اور وہ امریکہ سے واپس آنے کے بعد اپنے والد کی بطور اپرنٹس مدد کرتا ہے____اب رتنا کو صاحب کے دل کی کیفیت معلوم ہے۔وہ لگن سے اس کی خدمت کرتی ہے۔اور کوشش کرتی ہے کہ اسے کوئی شکایت کا موقع نہ دے۔ وہ اسے تسلی دیتے ہوئے کہتی ہے:
“لائف ختم نہیں ہوتی سر ___اتنا کہنا تھا!”
—–ایشون آگے بڑھتا ہے اور ___ ڈائریکٹر دھیمے دھیمے سین در سین اس کی قربت کا رخ رتنا کی طرف موڑ دیتا ہے۔
رتنا(جو یہاں تک آتے آتے چند اچھے شبدھ حوالے ناظر کرتی ہے:
“تیری میڈم کو ڈپریسڈ نہیں ہونا تو میرے سر کو کیوں؟؟”
‘کیا پتہ شہر کے لڑکے کیا چاہتے ہیں __؟’) آخر ایسے رشتے کی معاشرتی حیثیت سے آگاہ ،خدشے ظاہر کرتی ہے کہ ایسی ممنوعہ محبت کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ ایشون اس سے گلہ کرتا ہے:
اِک تم کہ تم کو فکرِ نشیب و فراز ہے
اِک ہم کہ چل پڑے تو بہر حال چل پڑے
رتنا کے بھی گلے رہتے ہیں۔ دونوں کے گلے شکوے دونوں کی زندگی میں کیا موڑ لاتے ہیں۔۔ سماجی اصولوں میں قید دونوں کی محبت کیا ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کافی ہے؟ اس کے لیے فلم آپ کے ڈیڑھ گھنٹے کی طلبگار ہے۔
فلم کم آمدنی، کم تعلیم یافتہ ‘کلاسوں جیسے ملازموں، ڈرائیوروں کے طرز ملازمت—-اور خواہشات کے چکروں میں ممبئی ہاؤسنگ سوسائٹی کے عملے کی ‘حدود’ کا رخ عیاں کرتی ہے ۔دوسری طرف معاشرے کے اعلی آمدنی والی اوپری سوسائٹی ہے جہاں ذات/جنس اور مذہب ایک انٹرا کلاس رکاوٹ نہیں لیکن پیسے اور تعلیم یقیناً ہیں۔
فلم کے پہلے حصے میں رتنا اطمینان، عزم اور اعتماد کا استعارہ ہے۔کردار میں بڑی کشش ہے ۔ رکھ رکھاؤ ہے۔ سادگی ہے۔ اپنی مجبوریوں کے باوجود وہ ناامید نہیں۔ فیشن ڈیزائنر بننا اس کا خواب ہے۔ وہ اس کے لیے جوڑ توڑ کرتی ہے۔ سلائی کا کام سیکھنا چاہتی ہے۔اس کا ‘سر’ اسے سلائی مشین تحفے میں دے کر اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔۔۔مگر ساتھ ہی اسے اپنی کوتاہیوں کا بھی علم ہے چنانچہ ایشون کی طرف سے اعتراف محبت کے جواب میں وہ خود کو اک خول میں قید کر لیتی ہے۔
فلم کی خوبصورتی، اس کی سادگی میں ہے، کہانی ہموار ہے۔ایکدوسرے کے حقوق اور سماجی مقام سے بالا ہو کر باہمی قدرو قیمت کی کہانی! اختتام پہ آپ مان جاتے ہیں کہ استحصال کے بغیر دونوں افراد کے درمیان یہی واضح فرق ہے—–
فلم یک جہت ہے مگر سنجیدگی سے بھی دیکھیں تو یہ اپنے متوازن اور پر لطف سکرین پلے اور معیار کے باوجود ہندوستانی سینما میں نئی شکل نہیں۔ کئی ہندی فلمیں اس موضوع کو عمدگی سے برت چکی ہیں۔ بیانیے میں بھی انفرادیت نہیں۔ لکھت اچھی لیکن مستقبل کے لیے خموش! پیشکش بہتر اور سپاٹ۔ کینوس مختصر مگر رواں۔۔۔۔۔ ہاں، دونوں کرداروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے فلم ایک سے زائد مرتبہ دیکھی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔طوالت سے گریز بہرحال، فلم کی خوبی ہے۔
تکنیکی اعتبار سے کچھ جگہ ضرور عمدہ تکلفات دیکھنے کو ملے۔ رتنا کے ساتھ نیلے اور سرخ رنگوں کا ملاپ پوری فلم میں جچتا ہے۔ چوڑیوں سے لیکر اسکی سلائی مشین کے لوگو تک۔ ساڑھی سے بستر کی چادر تک نیلا رنگ غالب ہے جو شاید کردار کی مہربان طبیعت یا اس کی مفلسی اور خواہشات کی عدم تکمیل کی طرف باریک اشارہ ہو سکتی ہے۔ سرخ رنگ محبت کی طرف دھیان بکھیرتا اور شوخ امنگوں کا ترجمان نظر آتا ہے۔۔۔۔۔
فلم کو شروع سے آخر تک ایک ہی نہج پر چلانا اور سمیٹنا انوکھا لگا۔ پھر دونوں کردار ایک دوسرے کی طرف سے کیے گئے ہر کام کو دہراتے ہیں تو ‘بیمار کا حال اچھا ہو جاتا ہے’ ۔۔۔۔ شروع میں ڈائریکٹر آوازوں کے تال میل سے ناظر کو چونکاتا ہے۔ کچھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی آتی رہتی ہیں۔ غرض مجھے فلم بناوٹ کے اعتبار سے زیادہ بہتر لگی۔کلاسک نہیں مگر دل پہ اثر کرتی ہے کیونکہ آگ کے بغیر دھواں نہیں اٹھتا۔
کاشف مشتاق / Film Walay فلم والے