مز میچ ایونٹ
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مز میچ ایونٹ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )چند دہائیوں قبل جب دنیا ابھی اتنی تیز رفتار نہیں ہوئی تھی نہ ہی پاکستان میں انٹرنیٹ نامی جن ہر جگہ موجود تھا۔فونز بھی صرف لینڈ لائن کی صورت میں ہی پائے جاتے تھے۔لوگ خوشی غمی میں فورا ایک دوسرے کے گھر پہنچ کر ان کے دکھ سکھ میں نہ صرف شریک ہوتے تھے بلکہ مقدور بھر مدد بھی کرتے تھے۔ ایسے ہی ملاقاتوں میں بچوں کے رشتے بھی طے کر دئیے جاتے تھے۔کسی خاتون نے کسی بچی کو شادی، قرآن خوانی، فوتگی میں دیکھا اور بیٹے کا رشتہ لے کر پہنچ گئیں۔
پھر زمانہ جدید سے جدید تر ہوتا گیا اور انٹرنیٹ کے عام ہوتے ہی دنیا کا ہر کام اس کی مرہون منت ہونے لگا۔حتی کہ بچوں کی شادیاں بھی میچ میکرز کے ذریعے ہونے لگیں۔یہاں تک تو بات ٹھیک ہی رہی۔والدین ان آفسز میں جاتے بچوں کے کوائف کا ایک فارم بھرتے اپنی ڈیمانڈ بتاتے اور میچ میکرز دو فیملیز کی ملاقات کروا کر اپنی فیس کھری کرتے اور لوگ اپنے بچوں کا اپنی پسند کے مطابق رشتہ کر لیتے تھے۔پھر انٹرنیٹ پر مغربی ڈیٹنگ سائٹس کا انکشاف ہوا تو پاکستانیوں کی تو دلی مراد پوری ہو گئی۔کیونکہ ہمارے ہاں کسی بھی دوسرے ملک میں شادی ہونا جیک پاٹ سمجھا جاتا ہے خصوصا کسی یورپین یا امریکن ملک میں۔لہذا لوگوں نے ان ڈیٹنگ ایپس سے مستفید ہونا شروع کر دیا اور میچ میکرز کا کاروبار ذرا مندا پڑ گیا۔ اس کا حل انہوں نے یہ سوچا کہ اس ڈیٹنگ جیسے کام کو حلال ٹچ دے کر لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ ہماری ایپ پر رجسٹرڈ ہوں اور بہترین زوج پائیں۔
چنانچہ ان ایپس کے ساتھ مسلم اور حلال کا لفظ لگا کر ہم نے انہیں اپنے لیے جائز قرار دے لیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کچھ ماہ قبل اسلام آباد میں حلال وائن اسٹور کا آغاز کیا گیا تھا۔
چلیں یہ بھی قابل برداشت تھا کیونکہ ان ایپس پر ڈالرز میں فی دینا پڑتی ہے اس لیےان سے فائدہ وہی لوگ اٹھا رہے تھے جو صاحب استطاعت تھے۔اور عوام میں یہ برائی اتنی سرایت نہ کر پائی۔لیکن اب تو ان ایپس نے برائی پھیلانے کے ایجنڈے کے تحت پاکستان میں ایسے ایونٹس منعقد کرنے شروع کر دئیے ہیں جن میں تھوڑی سی رقم خرچ کر کے ٹکٹ لے کر کوئی بھی جا سکتا ہے اور اپنا پارٹنر ڈھونڈ سکتا ہے۔
میں نے کبھی ان ایپس کو استعمال تو نہیں کیا مگر بیرون ملک مقیم رشتے داروں دوست احباب سے ان کے متعلق سن رکھا ہے اور ان پر آرٹیکلز بھی پڑھے ہیں۔مغربی ممالک میں موجود غیر مسلموں کے لیے ڈیٹنگ ایک عام سی بات ہے۔وہ تو شادی کے بغیر بچے بھی پیدا کر لیتے ہیں اور ساتھ رہ کر زندگیاں بھی گزار دیتے ہیں۔ایک پارٹنر کے ساتھ رہتے ہوئےکئی اور کے ساتھ دوستی یا تعلقات قائم کرنے کو بھی برا نہیں جانتے۔اس لیے اگر وہ ان ایپس کا استعمال کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔مگر ہمارے لیے خصوصا مسلمانوں کے لیے یہ کسی بھی صورت جائزنہیں ۔کیونکہ ہمیں دین اسلام نے بڑے واضح الفاظ کے ساتھ قرآن میں بتا دیا ہے کہ نامحرم سے کسی بھی قسم کا خفیہ یا ظاہر تعلق، دوستی، گفتگو، ملاقات حتی کہ چھونا بھی کسی بھی حال میں جائز نہیں۔اور واحد طریقہ نکاح ہےجس کے بعد دو نا محرم ایک دوسرے کےساتھ کوئی تعلق بنا سکتے ہیں۔
جب سے ان ایپس کے ڈومین میں پاکستان بھی شامل ہوا ہے بے حیائی کا گراف بھی خاصا عروج پذیر ہو چکا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ پہلے پاکستانی عوام نیک شریف اور با عمل مسلمان تھے لیکن کم از کم یوں کھلم کھلا فحاشی کے مرتکب نہیں ہو رپےتھے۔ڈھکے چھپے برے عمل پر بھی گناہ تو ہے مگر جب کوئی کھلم کھلا گناہ کر کے اس پر فخر بھی کرے تو سخت سزا کا حق دار ہو جاتا ہے۔
اگر ہم غیر ملکی میڈیا کی ان ایپس کے متعلق رپورٹس دیکھیں تو اکثر ایسے لوگوں کی کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے اپنا پارٹنر تلاش کر لیا کورٹ شپ کے بعد شادی بھی کر لی مگر بعد میں عقدہ کھلا کہ انہوں نے تو ایک سائیکو پیتھ یا کسی کرمنل سے شادی کر لی ہے۔کچھ کیسیز میں تو لوگوں کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔کچھ لوگ خصوصا خواتین بیرون ملک شادی کے شوق میں ہیومن ٹریفکنگ یا اسمگلرز کے ہتھے چڑھ گئیں اور انجام کار بطور ایسکورٹ اس ڈریم لینڈ میں کام کرنے لگیں جنہیں وہ جنت سمجھتی تھیں۔
ان ایپس پر موجود اکثر لوگ اپنے بارے میں سچ نہیں بتاتے۔اور بیشتر صرف دوستی کی نیت سے ہی اپنا پروفائل بناتے ہیں۔یا پھر شکار پھانسنے کے لیے اور اس میں لڑکا لڑکی کی کوئی تخصیص نہیں۔اب تو ہم پاکستان میں بھی ایسی بے شمار خبریں سنتے ہیں کہ کسی لڑکے نے لڑکی بن کر یا کسی گروہ نے لڑکی کے ذریعے دوستی کا جھانسا دے کر مردوں کو اغواء کیا اور بھاری تاوان لے کر چھوڑا۔تو جناب یقین رکھیے اللہ تعالٰی نے جو بھی قوانین بنائے ہیں انسانوں کی بقاء اور فائدے کے لیے ہی بنائے ہیں۔بے شک ہمیں وہ سخت اور غیر انسانی لگیں لیکن ان کے عمل درآمد میں ہی معاشرے کا امن پوشیدہ ہے۔