موسموں کے تغیر و تبدل میں سیاروں کی گردش کا بھی عمل دخل ہے ۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )موسموں کے تغیر و تبدل میں سیاروں کی گردش کا بھی عمل دخل ہے ۔ہماری زمیں سورج کے گرد 365 دنوں میں ایک چکر مکمل کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کا دائرہ کس قدر وسیع و عریض ہے۔ سورج کے گرد چکر لگانے کے علاوہ زمین اپنے محور پر بھی گھوم رہی ہے۔ یعنی یہ خود بھی گھوم رہی ہے اور اسی حالت میں سو ر ج کے گرد بھی چکر لگا رہی ہے۔ یاد رہے کہ زمین اپنے محور پر 66½ درجے کے زاویئے پر جھکی ہوئی نہ ہو تو نصف کرے میں ہمیشہ ایک جیسا موسم رہے۔ جھکے ہوئے ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ اس پر موسم بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی موسم سرما آجاتا ہے‘ کبھی بہار‘ کبھی گرمی اور کبھی خزاں کا ہم لطف اٹھاتے ہیں۔ ورنہ نصف حصہ زمیں‘ نصف گرمی اور دو سرا نصف حصہ سردی کی زد میں رہتا۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی ہمیشہ برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی زمین کا 66 پر جھکا ہونا ہی ہے۔ انٹا رکٹکا براعظم جسے حال ہی میں دریافت کیا گیا ہے‘ ہر وقت برف کی زد میں رہتا ہے۔ دوسری بات یہ زمین سورج کے مدار میں یا اس کے اردگرد بالکل دائرے کی صورت میں سفر نہیں کر رہی بلکہ بیضوی حالت میں گھوم رہی ہے۔ کبھی اس کا فاصلہ سورج سے بہت دور ہو جاتا ہے اور کبھی نزدیک آجاتی ہے۔ اس قدر تیزی سے اپنے محور اور مدار پر گردش کرنے کے باوجود اس پر موجود اشیاء کبھی نہیں لڑکھتیں۔ اس کی وجہ اس کی کشش ثقل ہے جو کسی چیز کو گرنے اور لڑھکنے نہیں دیتی۔
زمین پر سائنسدانوں نے کچھ خطوط کھینچ رکھے ہیں۔ خط استوا زمین کے بیچوں بیچ افقی گزر رہا ہے۔ اس کے اوپر کی جانب خط جدی اور نیچے کی جانب خط سرطان ہے۔ زمین کی گردش کے باعث کبھی تو سورج عین خط استوا کے سامنے ہوتا ہے چونکہ ہمارا ملک خط جدی کے دائرے میں واقع ہے لہٰذا عین خط جدی پر آجاتا تو ہمارے ہاں سردیاں ہوتی ہیں۔ جو ممالک خط استو اپر واقع ہیں‘ وہ سخت گرمی کی زد میں رہتے ہیں۔ افریقہ اور بھارت کے نچلے حصے سے خط استوا گزر رہا ہے۔ان علاقوں میں جنگلات کی بھی کثرت ہوتی ہے سورج خط جدی اور سرطان کے بین رہتا ہے۔ خط استوا سے اوپر یا انتہائی نیچے کے علاقے سخت سرد ہوتے ہیں۔ ان علاقوں کے سمندر بھی ہمیشہ جمے رہتے ہیں۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اگر زمین 66½ کے زوایئے پر جھکی ہوئی نہ ہو تو موسم ایک جیسے رہتے اور ہم چار موسموں سے لطف اندوز نہ ہو سکتے۔موسموں کی یہ تبدیلیاں قدرت کا ہم پر خاص کرم ہے اور ہم اس پر ذات باری کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔