Daily Roshni News

موسیقی کیا ہے ؟۔۔۔ تحریر۔۔۔میثم عباس علیزی

موسیقی کیا ہے ؟

تحریر۔۔۔میثم عباس علیزی 

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ موسیقی کیا ہے ؟۔۔۔ تحریر۔۔۔میثم عباس علیزی)گر یہ سوال ہمارے معاشرے میں کسی سے پوچھا جائے تو بہت کم افراد ایسے ہوں گے جو موسیقی کے حقیقت کو جانتے ہوں گے اور ویسے بھی میرے خیال میں موسیقی یا آرٹ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے مکمل طور پر سمجھا جاسکے لیکن ہمارے معاشرے میں لاشعوری طور پر موسیقی کے تصور کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے اور غلط طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں کا عموماً یہی ماننا ہوتا ہیں کہ موسیقی سننا حرام اور ناجائز ہے۔ اگرچہ یہ بات بھی سچ ہے کہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ہم سب موسیقی سنتے ہیں!

یعنی ہم سب کسی نہ کسی شکل میں موسیقی سے منسلک ہوتے ہیں، اب وہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کو ترانا کہے، قوالی کہے یا بانگِ بیداری لیکن کسی نہ کسی طرح ہم سب موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگوں میں عموماً اختلاف تقریباً صرف یہ ہے کہ جو موسیقی میں سنتا ہوں وہ صحیح اور جائز ہے لیکن جو آپ سنتے ہیں وہ حرام اور ناجائز ہے حالانکہ موسیقی کے آلات تقریباً ہر جدید موسیقی میں استعمال ہوتی ہیں!

بہرحال پہلے یہاں مختصراً یہ عرض کروں کہ اصل میں موسیقی ہے کیا ؟

“موسیقی یعنی کسی بھی شے کی آواز کو ایسے ہنرمندی اور فنکارانہ انداز میں ترتیب دینا کہ اُس میں شکل و ہیئت، ہم آہنگی، راگ، تال یا دوسری صورت میں اظہارِ خیال کرنے والے مواد کا کچھ امتزاج بنایا جاسکے۔”

موسیقی کی درست تعریفیں دنیا بھر میں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن یہ بات مسلَم ہے کہ موسیقی ہر انسانی معاشرے کا ایک لازمی پہلو ہے۔ جس طرح سے معاشروں کے اِرتقائی عمل میں نظریات اور افکار کا کردار ہوتا ہے بلکل اسی طرح آرٹ اور موسیقی بھی اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ہر عظیم ثقافت پوری تاریخ میں فن اور موسیقی سے متاثر ہوتی رہی ہے۔ پوری تاریخ میں موسیقی نے سماجی تبدیلی لانے اور ثقافتی تحریکوں کو چلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

موسیقی دراصل فنکاروں (Artists) کو سماجی تبصرے پیش کرنے اور آواز بلند کرنے کا پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جو غربت، عدم مساوات یا سیاسی بدامنی جیسے دباؤ والے سماجی مسائل کو حل کرتے ہیں۔ یہی سرور اور درد بھری آوازیں ہی اپنے پیغامات کے ساتھ سامعین میں گونجتی ہیں، بات چیت کو فروغ دیتی ہیں اور یہی بیداری پیدا کرتی ہیں۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر کام نہ نظریاتی ہوتا ہے اور نہ تخلیقی، اِسی وجہ سے ہماری پوری شناخت ہی دھیرے دھیرے سے مر رہی ہے اور ہم اپنی پہچان کھو رہے ہیں۔

ہم نے ہر واضح چیز کو اتنا پیچیدہ بنادیا ہے کہ پھر اس کی حمایت اور مخالفت میں ایک دوسرے کو مختلف ریسرچرز (Researchers) کے ریسرچ پیپرز کے ڈھیر سارے حوالے دینا شروع کردیتے ہیں کہ جی دیکھیں فلاں نے اتنے فوائد بتائے ہیں اور دوسرا نقصانات گنوانا شروع کردیتا ہے، ظاہر ہے اگر چیز اعتدال کے ساتھ نہ ہو یا حد سے زیادہ اور موقع و محل کے بغیر ہو تو نقصان تو ہوگا ہی، لیکن جو انسانی زندگی اور انسانی تہذیب کا واضح اور روشن حصہ ہے اس میں کیا مخالفت اور حمایت کی اتنی طویل بحث! 

ویسے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جھوٹے اور بددیانت بہت ہیں، ہم مانیں یا نہ مانیں یہی شاید حقیقت ہے، ہم حقائق کو اس طرح سے پیش نہیں کرتے جس طرح سے پیش کرنا چاہیئے۔ ہم منافقت کے ذریعے قدرتی تنوع کو جھٹلاتے ہوئے جعلی اور مصنوعی اخلاقیات کے غلام بن چکے ہیں۔

ہم جان بوجھ کر اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں اور ہر عمل میں ہم احساس جرم میں مبتلا رہتے ہیں۔

میرا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ غیر اخلاقی کاموں کو موسیقی سے منسوب کیا جائے کہ موسیقی کے نام پر ہر غیر اخلاقی فعل اور ہر چیز کی کھلی چھٹی ہوجائے، جس طرح سے آج ٹِک ٹاک وغیرہ پہ ہم ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

میرا یہی ماننا ہے کہ جس معاشرے میں بغیر نظریات کے آرٹ کے بجائے نئے نسل کو صرف ٹِک ٹاک پر پیدل چلنے، کچھ بے معنی سا فعل انجام دینے یا کوئی بیہودہ حرکت پر بہترین شُہرت ملتی ہو، ظاہر ہے اُس معاشرے میں نظریاتی انسانوں اور آرٹسٹس (Artists) کے بجائے صرف ناکارہ اور ہلکے لوگ ہی جنم لیں گے جو ہم اپنے معاشرے میں پیدا کررہے ہیں اور یقین جانیں ایسے معاشرے ہزاروں سال گزار کر بھی پسماندہ اور مایوس ہی رہتے ہیں۔

ایسے معاشروں میں انسانی اور معاشرتی اِرتقاء محال ہے۔

اب یہ بھی اہم سوال ہے کہ کیوں بالخصوص ہمارے چھوٹے اور جوان ٹک ٹاک وغیرہ جیسے ایپس (apps) پر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں!

غرض موسیقی واقعتاً بہت گہرے اور دلکش عناصر رکھتی ہے جو انسانی زندگی کو نمایاں طور پر متاثر کرتی ہے۔

یہ جذباتی اظہار، سماجی تبصرے، اور ثقافتی تعلق کے لئے ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نظریاتی کھوج اور تخلیقی آزادی کو فروغ دیں تاکہ موسیقی اور آرٹ کے کردار کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ تفہیم حاصل ہو سکے۔

کئی بڑے بڑے اسلامی فلاسفہ اپنے فلسفیانہ کاموں کے وسیع تناظر میں موسیقی اور اس کے مثبت پہلوؤں کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔

اگرچہ اُن فلسفیوں کے نقطہ نظر اور تشریحات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن موسیقی پر ان کی تحریریں اکثر اسلامی روایت کے اندر ایک وسیع تر فلسفیانہ اور اخلاقی فریم ورک کو گھیرے ہوئے ہیں۔

بہرحال وہ کسی نے سچ کہا ہے کہ رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم، نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔

تحریر: میثم عباس علیزی

Loading