Daily Roshni News

مکھیوں کا عالمی دن۔۔۔ تحریر محمد شارخ

مکھیوں کا عالمی دن

شہد کی مکھیوں کا تفصیلی تعارف

تحریر محمد شارخ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مکھیوں کا عالمی دن۔۔۔ تحریر محمد شارخ )نوٹ:- شہد کی مکھیوں کا عالمی دن اگست کے مہینے میں منایا جاتا ہے لیکن گروپ میں صرف اس مکھیوں پر کافی بحث کی گئ ہے اسلئے مکھیوں کے دن صرف شہد کی مکھیوں کا تعارف ہوگا :

شہد کا ایک چمچ آپ کے لیے شاید اتنی زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو مگر شہد کی بارہ مکھیوں کو اتنا شہد بنانے کے لیے پوری زندگی محنت کرنا پڑتی ہے۔یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شاہد کی مکھیاں کتنی محنت کش اور مستقل مزاج مخلوق ہے۔شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہیں اور انکو صرف آدھا کلو شہد تیار کرنے کے لیے چمن چمن گھوم کر تقریباً 20 لاکھ پھولوں کا رس چوسنا پڑتا ہے۔ہے نہ حیرت انگیز بات

شہد کی مکھیوں کی انوکھی بات یہ ہے کہ چھتے میں موجود سبھی مکھیاں انڈے نہیں دیتی بلکہ ایک ہی مکھی انڈے دیتی ہے۔اس مکھی کو رانی مکھی(Queen bee) کہتے ہیں(شکل میں دیکھا جاسکتا ہے) جو جسمانی اعتبار سے باقی سبھی مکھیوں سے بڑی ہوتی ہے۔یہ باقی سبھی مکھیوں کی ماں ہوتی ہے۔رانی مکھی کا کام بس باقی مکھیوں پر حکم چلانا اور انڈے دینا ہے۔یہ ایک دن میں 15 سو سے 2 ہزار انڈے دیتی ہے۔رانی مکھی دوسری مکھیوں سے بات چیت کرنے اور انہیں منظم رکھنے کے لیے مختلف طرح کی بو(Pheromone) خارج کرتی ہے جسے باقی مکھیاں اپنے انٹینوں سے  محسوس کرتی ہیں۔ہر بو کا الگ مطلب ہوتا ہے۔

چھتے میں جو مکھیاں سب سے زیادہ تعداد میں موجود ہوتی ہیں انکو مزدور مکھیاں کہتے ہیں۔یہ رانی کی طرح مادہ مکھیاں ہوتی ہیں۔یہ سب سے زیادہ محنت کش ہوتی ہیں۔پھولوں کا رس چاٹ کر شہد بنانا،چھتے کی حفاظت کرنا اور دوسری مکھیوں کو کھانا کھلانا انکی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔یہ ہوتی تو مادہ مکھیاں ہیں مگر ان میں انڈے دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔البتہ یہ کبھی کبھار انڈے دے سکتی ہیں جب چھتہ رانی کے بغیر ہو۔اور  کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ یہ انڈے تو دیتی ہیں مگر انکے انڈے باقی مکھیاں تباہ کردیتی ہیں۔

چھتے میں موجود تیسری قسم کی مکھیوں کا نام نکھٹو(Drones) مکھیاں ہیں۔یہ نر مکھیاں ہوتی ہیں اور تعداد میں مزود مکھیوں سے کم ہوتی ہیں۔یہ جسامت میں مزور مکھیوں سے بڑے جبکہ رانی سے چھوٹے ہوتے ہیں۔یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ جسامت میں سب سے بڑی رانی ہوتی ہے،پھر نکھٹوں مکھیاں اور سب سے چھوٹی مزور مکھیاں ہوتی ہیں مگر تعداد کے لحاظ سے مزور مکھیاں سب سے زیادہ پھر نکھٹو(جن کی تعداد یہی 300 سے 500 تک ہی ہوسکتی ہے) اور رانی تو ایک ہی ہوتی ہے۔

جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا کہ نکھٹو مکھیاں بس نکھٹو ہی ہیں۔کیونکہ یہ بس چھتے میں ہی پڑے رہتے ہیں۔محنت مزدوری تو انہوں نے کرنی نہیں ہے۔خورک انکو چھتے میں ملتی رہتی ہے جو کہ مزدور مکھیاں فراہم کرتی ہیں۔انکا سب سے اہم کام رانی مکھی کے ساتھ ملاپ کرنا(Mating) ہے۔اسکے علاوہ یہ چھتے کے درجہ حرارت کو ریگولیٹ بھی کرتے ہیں۔رانی ملاپ کرنے کے لیے اڑان بھرتی ہے اور اس دوران اس کے ساتھ نکھٹو مکھیوں کا جھنڈ(جن کی تعداد تقریباً 20 ہوتی ہے) ہوتا ہے۔اڑان کے دورن نکھٹو مکھیاں باری باری رانی کے ساتھ ملاپ کرتے ہیں۔مگر یہ ملاپ انکے لیے موت ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ملاپ کامیاب ہوجاۓ تو نکھٹوں مکھیاں فوراً مرجاتے ہیں۔ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ملاپ کے دوران نکھٹو مکھیوں کے تولیدی حصے یا اعضا اسکے جسم سے الگ ہوجاتے ہیں۔

ویسے نکھٹے نکموں کی کوٸ عزت نہیں ہوتی۔یہ بس دوسرے کے خرچے پر پلتے ہیں مگر آخر کار انکو ذلت و رسواٸ ہی نصیب ہوتی ہے۔کچھ ایسا ہی نکھٹو مکھیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔جب سردیاں آتی ہیں تو شہد کی مکھیاں عموماً شہد نہیں بناتی کیونکہ پھول اس موسم میں زیادہ تر کھلتے نہیں ہے،لہذا چھتے میں موجود ذخیرہ شہد پر ہی گزارا کیا جاتا ہے۔اس دوران باقی مکھیاں مل کر ان نکھٹو مکھیوں کو چھتے سے نکال(Expell) دیتی ہیں۔یہ نکھٹو چونکہ سست اور کاہل ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے ساری زندگی چھتے میں آرام و سکون سے گزاری ہوتی ہے۔اس لیے چھتے سے باہر نکلتے ہی خوراک نہ ملنے اور موسم کی شدت کی وجہ سے یہ مر جاتے ہیں۔

لوگ اکثر شہد کی مکھی کے ڈنگ سے بڑے ڈرتے ہیں اور ڈرنا بھی چاہیے کیونکہ جس بندے کو یہ لڑتی ہے اسکو کتنی تکلیف ہوتی ہے یہ وہ بندہ خود ہی بتاسکتا ہے۔مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ شہد کی ساری مکھیاں ڈنگ مارنے کے قابل نہیں ہوتی ہیں۔چھتے میں موجود مزدور مکھیاں اور رانی مکھی ہی ڈنگ مار سکتی ہیں جبکہ نکھٹو مکھیاں ڈنگ نہیں مارتی ہیں۔یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ شہد کی مکھیاں خواہ مخواہ ڈنگ نہیں مارتی کیونکہ آپ نے اکثر انکو باغ میں پھولوں کا رس چوستے ہوۓ دیکھا ہی ہوگا اور کبھی کبھار تو یہ جلد پر آکر بیٹھ بھی جاٸیں تو کچھ نہیں کہتی ہیں یعنی یہ جارہانہ مزاج نہیں رکھتی ہیں۔

لیکن جب کوٸ انہیں خواہ مخواہ تنگ(Provoke) کرتا ہے یا جب انہیں لگتا ہے کہ انکے چھتے کو خطرہ لاحق ہے تو تب یہ جوابی حملہ کرتی ہیں۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب مزود مکھیاں کسی کو ڈنگ مارتی ہیں تو ڈنگ مارنے کے کچھ دیر بعد خود ہی مرجاتی ہیں یعنی ڈنگ انکے لیے موت کی وجہ بنتا مگر ان کو کب یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکا یہ غصہ انکی ہی موت کا سبب بن جاۓ گا۔

اب ایسا کیوں ہوتا؟اسکی وجہ یہ ہے کہ انکا ڈنگ جو کہ پیٹ کے پچھلے حصہ پر ہوتا ہے جب یہ کسی انسان یا کسی جانور کو ڈنگ مارتی ہیں تو یہ ڈنگ چونکہ خاردار یعنی کھردی سوٸ کی طرح ہوتا ہے۔لہذا جب یہ شکاری کی جلد میں داخل ہوتا ہے تو اس میں اس قدر پھنس جاتا ہے کہ شہد کی مکھیاں اس ڈنگ کو شکاری کی جلد سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔اسکی بجاۓ اس ڈنگ کے ساتھ پیٹ کا کچھ منسلک حصہ شہد کی مکھی کے جسم سے جدا ہوجاتا ہے۔جس کے نتیجہ میں کچھ دیر کے بعد مزود مکھی مرجاتی ہے کیونکہ اس حصہ میں خوراک کو ہضم کرنے والا سسٹم وغیرہ موجود ہوتا ہے۔

مزور مکھی انھیں شکاریوں کو ڈنگ مارنے کے بعد مرتی ہے جن کی جلد موٹی ہوتی ہے(جیسے انسان) یعنی ضروری نہیں کہ تمام شکاریوں کو ڈنگ مارنے کے بعد مرجاٸیں۔مزورد مکھیوں کے برعکس جو رانی مکھی ہوتی ہے اسکا ڈنگ ملاٸم ہوتا ہے یعنی خاردار یا کھردرا نہیں ہوتا لہذا جب یہ کسی کو کاٹتی ہے اسکا ڈنگ اسکے جسم سے جدا نہیں ہوتا اس لیے یہ ایک وقت میں کٸ مرتبہ کاٹ سکتی ہے۔مگر یہ بہت کم کاٹتی ہے کیونکہ یہ زیادہ تر چھتے میں ہی رہتی ہے۔

شہد کی مکھیاں(مزدور مکھیاں) میلوں کا سفر کر کے طرح طرح کے پھولوں کا رس(اس رس کو نیکٹر کہتے ہیں) چوس کر شہد بناتی ہیں۔آخر یہ شہد بناتی کیسے ہیں؟اسکا جواب ہے کہ جب یہ پھولوں کا رس زبان کے ذریعے چوس کر جسم میں لے جاتی ہیں تو انکے جسم میں ایک معدہ ہوتا ہے جسے “Honey Stomch” کہتے ہیں۔یہ رس کو جب اس معدہ میں لے جاتی ہیں تو وہاں اس رس پر ایسے کیمکلز(اینزاٸمز) عمل کرتے یعنی اثر انداز ہوتے ہیں کہ یہ رس شہد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اس کے بعد وہ اس شہد کو چھتے کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں ذخیرہ کرتی ہیں۔اس شہد میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے(70 سے 80 فیصد)۔اب یہ مکھیاں اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے اتنے زیادہ ہیٹ پیدا کرتی ہیں کہ جس سے اس شہد میں موجود زیادہ تر پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔اور اب شہد میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے۔اس قدر میٹھے شہد میں بیکٹریا وغیرہ کی افزاٸش بھی نہیں ہوپاتی اس لیے یہ شہد کافی عرصہ تک بھی خراب(Expoil) نہیں ہوتا۔شہد کو خانوں میں ذخیرہ کرنے کے بعد یہ اسے ایک موم سے بند کردیتی ہیں۔

شہد کی مکھیاں جب پھولوں کا رس چوسنے جاتی ہیں تو یہ وہاں پر ایک اور بہت ہی اہم کام کرتی ہیں۔پھول پر اس کے نر اور مادہ حصہ ہوتے ہیں۔مادہ حصہ کو Carpel اور نر حصہ کو Stamen کہتے ہیں۔اب جو نر حصہ ہوتا ہے اس پر چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں جنہیں پولنز(پولنز میں سیکس سیلز ہوتے ہیں)کہا جاتا ہے۔شہد کی مکھیاں پھول پر ٹہلتے ہوۓ انکے جسم سے پولنز چمٹ جاتے ہیں۔جب یہ مکھیاں مادہ حصہ پر جاتی ہیں تو یہ پولنز مادہ حصہ کے اوپر موجود سٹگما سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس عمل کو پولینیشن کہتے ہیں۔یہ عمل اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ بیج کی تشکیل کے لیے پولنز کا نر حصہ سے مادہ حصہ میں منتقل ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔گو کہ اور بھی کیڑے اور جانور پولینیشن کرواتے ہیں مگر ان میں ایک بڑا نام شہد کی مکھی کا بھی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پولینیشن کی وجہ سے فصلوں بشمول سبزیوں،میواجات،فروٹس وغیرہ کی پیدوار بہتر ہوتی ہے۔یو ایس ڈیمپارٹمنٹ آف ایگریکلچر کے مطابق امریکہ کو ہر سال شہد کی مکھی کی پولینیشن کی وجہ سے اس کو فصلوں کی پیداوار میں 15 ارب ڈالر کا منافع ہوتا ہے۔یعنی اگر امریکہ میں شہد کی مکھیاں نہ ہوتی تو امریکہ کو ہر سال 15 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا۔

شہد کی مکھیوں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ جو شہد بناتی ہیں وہ بطور خورک خود بھی کھاتی ہیں اور اس شہد کو انسان بھی استعمال کرتا ہے۔آپ کو دوسرے کیڑوں میں یہ خوبی نظر نہیں آۓ گی۔اچھا یہ مکھیاں جب پھولوں کا رس چوستی ہیں تو یہ پھول پر موجود پولنز کو بھی اکھٹا کرلتی ہیں جسے یہ خوراک کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔لیکن یاد رہے کہ شہد کی مکھیاں پولنز کو شہد بنانے کے لیے استعمال نہیں کرتی ہیں۔پولنز پروٹینز جبکہ رس(Nectar) کاربوہاٸیڈریٹس(شوگر) کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔

ایک بڑے چھتے میں تقریباً 50 ہزار شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں مگر سردار صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے رانی۔اسکی عمر بھی باقی مکھیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔سازگار ماحول میں یہ 3 سے 5 سال تک زندہ رہ سکتی ہے جبکہ مزدور مکھییوں کی عمر 45 دن اور نکھٹو مکھیوں کی اوسط عمر  30 دن کی ہوتی ہے۔رانی جب بوڑھی ہوجاتی ہے یا بیمار ہوجاتی ہے تو اس اسکی انڈے دینے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے تو اس وقت باقی مکھیاں اسکو مار دیتی ہیں۔وہ جس طریقہ سے مارتی ہیں اسے بالنگ کہتے ہیں۔اس میں ساری مکھیاں اس کے اردگرد جمع ہوجاتی ہیں اور اپنے پروں کو اتنے زور سے پھپھڑپھڑاتی ہیں جس سے ان کے اجسام کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اس کی تاب نہ لاتے ہوۓ رانی مکھی مرجاتی ہے۔

رانی مکھی کی موت کے فوراً بعد ایک نٸ رانی چھتے کی سردار بن جاتی ہے۔وہ کیسے بنتی ہے یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔اصل میں ہوتا یہ ہے کہ رانی مکھی جو انڈے دیتی ہے ان انڈوں سے پیدا ہونے والے لارواٶں میں سے پندرہ بیس مادہ مکھیوں کو  مستقبل کی رانی کے لیے منتخب کرلیا جاتا ہے۔ان کو خاص قسم کی خوراک کھلاٸ جاتی ہے جسے راٸل جیلی(یہ سفید رنگ کی ہوتی ہے) کہتے ہیں۔۔اس دوران جو مادہ مکھی اپنی بلوغت کو پہلے پہنچ جاتی ہے وہ مستقبل کی رانی بن جاتی ہے۔اس وقت پہلی رانی کو باقی مکھیاں بالنگ طریقہ سے ماردیتی ہیں یا نٸ رانی خود اسے مار دیتی ہے یا کبھی کبھار پرانی رانی کچھ مزدور مکھیوں کو لے کر خود چھتہ چھوڑ کر نیا چھتہ بنانے کی غرض سے نکل جاتی ہے۔

شہد کی مکھیاں ایسے کیڑے ہیں جو انڈے دیتے ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیڑا کیسے ہے۔دراصل کیڑے جانوروں کا سب سے بڑا گروہ ہے۔اس دنیا میں کم و بیش دس لاکھ مختلف اقسام کے کیڑے پاۓ جاتے ہیں۔مچھر،دیمک،کھٹمل،تتلیاں،چیونٹی وغیرہ سب کیڑے ہیں جن سے سبھی لوگ واقف ہیں۔کیڑے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اسکی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں،جسم تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے یعنی سر،سینہ اور پیٹ اور سر پر دو انٹینے ہوتے ہیں۔شہد کی مکھیاں انڈے دیتی ہیں تو ان سے پیدا ہونے والے بچے شہد کی مکھیوں سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔انہیں لاورے کہتے ہیں۔ان لاروٶں سے پیوپا شکل میں آتے ہیں اور تقریباً 15 تا 25 دنوں تک بلاآخر یہ بالغ ہوتے ہیں۔اس عمل کو metamorphosis کہتے ہیں۔یہ عمل دوسرے کیڑوں جیسے تتلیوں اور چیونٹیوں وغیرہ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

تحریر:#محمد_شاہ_رخ

Loading