Daily Roshni News

نومبر اور دسمبر وہ مہینے ہیں جو فطرت کے لحاظ سے تو سردی کے پیامبر ہیں،

نومبر اور دسمبر وہ مہینے ہیں جو فطرت کے لحاظ سے تو سردی کے پیامبر ہیں،

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نومبر اور دسمبر وہ مہینے ہیں جو فطرت کے لحاظ سے تو سردی کے پیامبر ہیں، لیکن ہمارے جیسے کنواروں کے لیے یہ احساسِ محرومی کی چنگاری کو آگ بنا دیتے ہیں۔ ان مہینوں میں شاعری کا سیلاب یوں آتا ہے جیسے کوئی باندھ ٹوٹ گیا ہو۔ ہر دوسرے شخص کی وال پر پروین شاکر کے اشعار، دل کے زخم ہرے کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں:

“ہوا بھی خوشبو کے نرم جھونکے

تجھے بھلا دینے کی ضد میں تھی”

اب یہ خوشبو، یہ جھونکے، اور یہ ضد سب ان ڈبل حضرات کے لیے ہیں۔ ہم سنگل بے چارے کہاں جائیں؟

منٹو نے کبھی کہا تھا:

“محبت کرنے والوں کے لیے دنیا ہمیشہ تنگ رہی ہے، اور نفرت کرنے والوں کے لیے وسیع۔”

لیکن حضور! کنواروں کے لیے تو یہ دنیا سردیوں میں بالکل ویران ہو جاتی ہے۔ وہ محبوبہ، جس کا وجود کبھی تھا ہی نہیں، یاد بھی نہ آئے، تو اس پر پروین شاکر کا یہ وار ہوتا ہے:

“دسمبر کے آخری دن ہیں

اور تم یاد نہیں آ رہے”

جی چاہتا ہے کہ ان کو جواب دیں:

“بی بی! نہ ہم یاد آئیں گے اور نہ ہمیں یاد کرنے کی ضرورت ہے۔”

اکبر الہ آبادی کے یہ اشعار کنواروں کے لیے ہی لگتے ہیں:

“عشق تو دل کا معاملہ ہے

جو کرے سو پچھتائے”

اب یہ “دل کا معاملہ” کنواروں کے لیے نہ ہوا۔ دل تو کرتا ہے کہ ان محبت زدہ افراد کا تعلق ہی ختم کرا دیں، جو اپنی سردیوں کی خوشبو ہمیں دکھا کر ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کرتے ہیں۔

رہی بات ان شاعری پسند لڑکیوں کی، جو دسمبر میں اپنے محبوب کی یاد تازہ کرتی ہیں، ان سے صرف اتنا کہنا ہے:

“بی بی، یا تو ہمیں بھی سنگل سے ڈبل کرنے کا کوئی وظیفہ بتاؤ، یا خدا کے لیے یہ شاعری کا کریکٹر ڈھیلا کر دو!”

منٹو نے کہا تھا:

“محبت روح کی ضرورت ہے، جسم کی نہیں۔”

لیکن حضور، ہمارا حال تو یہ ہے کہ روح بھی بغاوت کر چکی ہے اور جسم تو پہلے ہی سردی میں ٹھٹھرتا رہتا ہے۔

آخر میں، بس یہی کہنا ہے کہ نومبر اور دسمبر کی شاعری سے ہمیں سکون چاہیے، نہ کہ یہ عشق کے تیر۔ ہم تو اکبر الہ آبادی کے اس شعر میں پناہ ڈھونڈتے ہیں:

“دل لگا لیتے ہیں جو کپڑے بدلنے والے سے

ہم نے پوچھا تھا جناب آپ کا مذہب کیا ہے؟”

لہٰذا، سنگل حضرات کا خیال کریں یا ہمارے لیے بھی کسی محبوبہ کی تلاش شروع کریں۔ ورنہ فیس بک کی شاعری اور یہ دو مہینے، واقعی ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائیں گے۔

مُشیرسہارن پوری

Loading